پاکستانی نظامِ تعلیم کے زوال کی کئی وجوہات ہیں‘ جن میں کم تر وسائل، کمزور انتظام و انصرام، فرسودہ نظامِ امتحانات، غیر تربیت یافتہ اساتذہ، اور سہولیات کی عدم دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ تمام ماہرینِ تعلیم کوالٹی ایجوکیشن میں استاد کے کردار کو بڑا اہم گردانتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی اساتذہ کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے وہاں اساتذہ کے کم تر معاشرتی مقام اور محدود آمدنی کا تذکرہ بالعموم کیا جا تاہے۔ نجی و سرکاری سطح پر نئے اداروں کے کھلنے کے ساتھ ایک نئی طرز کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔ اس مسئلے کو (The Touch and Go Teaching) کے نام سے پکار سکتے ہیں‘ جہاں اساتذہ اپنے بنیادی ادارے کے علاوہ دیگر اداروں میں جز وقتی تدریس کیلئے جاتے ہیں۔ یہ بات بڑی دلچسپ اور قابل توجہ ہے کہ بعض اساتذہ کرام تین سے چار اداروں میں پڑھاتے ہیں۔
Visiting Teaching کی ایک عالمانہ روایت ہے۔ جامعات مشہور سکالرز کو اپنے ہاں دعوت دے کر سیمینار یا علما کے ساتھ نشست کی صورت میں طلبا کے لئے سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ دنیا کی بڑی جامعات میں کوئی استاد اپنے ادارے سے رخصت لے کر دوسرے ادارے میں تحقیقی مقاصد کے پیش نظر ایک ٹرم گزار سکتا ہے۔ بسا اوقات یہ تدریسی ذمہ داری بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اساتذہ کرام پیشہ ورانہ لحاظ سے مضبوط ہوں گے تو وہ ادارے کی ترقی میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ جس ادارے میں جا کر تدریس کر رہے ہوں گے اس کی ترقی کا باعث بھی بن سکتے ہیں البتہ پاکستان میں حالیہ سالوں میں وزیٹنگ ٹیچنگ ایک لا یعنی قسم کی سرگرمی بن کر رہ گئی ہے۔ یوں تدریس کی یہ عالمانہ روایت اب ٹچ اینڈ گو ٹیچنگ کلچر میں بدل کر رہ گئی ہے۔ اگر آپ کسی بڑے شہر میں رہتے ہیں تو آپ ضرور ان چہروں سے واقف ہوں گے جنہوں نے خود کو تین تین چار چار اداروں سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ وہی چہرے، وہی بریف کیس، اور وہی پاور پوائنٹ پریزینٹیشنز۔ اس بڑھتے ہوئے ٹچ اینڈ گو ٹیچنگ کلچر کی کیا وجوہات ہیں؟ سب سے اہم وجہ اساتذہ کی نا کافی تنخواہ ہے جو انہیں اپنے بنیادی ادارے سے ملتی ہے اور جس کی تلافی یہ اساتذہ دیگر اداروں میں جا کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض لو گ اس دلیل کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں یہ پیسے کی ہوس ہے اور بعض لوگ تو اسے ایک نشہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ ادارے مستقل بنیادوں پر اساتذہ نہ رکھ کر پیسے بچاتے ہیں۔ ان اداروں کو یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہر لیکچر کے عوض کم معاوضہ دے کر کام چلا لیا جائے۔
ٹچ اینڈ گو ٹیچنگ کلچر کے مختلف سٹیک ہولڈرز پر پڑنے والے اثرات کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آئیے سب سے پہلے اس ادارے کو دیکھتے ہیں جہاں پر وہ باقاعدہ ملازمت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اپنے بنیادی ادارے میں اساتذہ انتظامیہ کو ترغیب دیتے اور بعض اوقات مجبور بھی کرتے ہیں کہ ان کی مرضی کا نظام الاوقات (Time Table) ترتیب دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے آزادانہ جب چاہیں دوسرے اداروں میں پڑھانے کے لئے نکل کے جا سکیں۔ اپنے بنیادی ادارے میں بمشکل ہی وہ لیکچرز تیار کرنے، طلبہ کی رہنمائی کرنے ، اسائنمنٹس اور پرچہ جات کا جائزہ لینے اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ پیشہ ورانہ خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے وقت نکال پاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی کارکردگی منفی انداز میں تعلیم کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔ طلبہ کو ایسے اساتذہ سے Feedback کا انتظار ہی رہتا ہے۔ ادھر انتظامیہ ایسے اساتذہ کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے نظام الاوقات کو گھماتی پھراتی ہے۔ اس طرح بنیادی ادارہ ایسے اساتذہ کے لئے اپنے اگلے اہداف پر پہنچنے کے حوالے سے تیاری اور ساز و سامان سے لیس ہونے کے لئے آماجگاہ کے طور پر کام آتا ہے۔
ان میں چند اساتذہ تو تین سے چار جگہ مصروف ہیں۔ وہ گو یا تدریس نہیں بلکہ تدریس کے نام پر مذاق کر رہے ہوتے ہیں۔ اکثر مواقع پر اساتذہ سبق کی منصوبہ بندی کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ اکثر اوقات بغیر کوئی تبدیلی لائے پہلے والی پاور پوائنٹ پریزینٹیشنز استعمال کر لی جاتی ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ مستقل فیکلٹی سے پوری ٹرم میں ایک آدھ بار ہی ملاقات ہو جائے۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہیں پر بھی ذاتی شرکت اور ملکیت ہونے کا احساس تک پیدا نہیں ہوتا۔ اب ہم ٹچ اینڈ گو ٹیچنگ کا بنیادی اداروں کے طلبا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایسے اساتذہ ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ مناسب انداز میں پڑھا ہی نہیں پاتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ ان کے طلبا کو اپنی اسائنمنٹس اور پیپرز کے حوالے سے feedback کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب feedback دی جاتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ یہ اساتذہ طلبا کی رہنمائی و مشاورت کیلئے وقت نہیں نکال پاتے کیونکہ انہیں بہت سی جگہوں پر جا کر پڑھانا ہوتا ہے۔
اساتذہ پر انفرادی طور پربھی اس انتہائی مصروف معمول Routine)) کے پڑنے والے اثرات مثبت نہیں ہوتے‘ جس سے نہ صرف ان کی صحت بلکہ سماجی رویے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں فرصت کے لمحات میسر نہیں آتے جن میں وہ ایک دوسرے سے مل کر خوشیوں اور غموں کا اظہارکرسکیں یا پیشہ ورانہ ڈویلپمنٹ کے لیے وقت نکال پائیں۔ نہ ہی انہیں کبھی سوچ بچار کا موقع ملتا ہے ہ وہ اپنی تدریسی خامیوں اور خوبیوں کا تنقیدی جائزہ لے سکیں ۔ اس صورت حال کا فطری نتیجہ پیشہ ورانہ جمود کی صورت میں نکلتا ہے ۔
ایسے اساتذہ کے اہل خاندان بھی ان کی گھر میں مو جو دگی سے محروم رہتے ہیں ۔ اور جب وہ رات گئے تھکے ماندے گھر آتے ہیں تو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کر تے ۔ اضافی کام اور تھکن کا غصہ گھر میں ان کے رویوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
ٹچ اینڈ گو ٹیچنگ کلچر کے حوالے سے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ اساتذہ کرام کی تنخواہوں کو بڑھا یا جائے ۔ اس ضمن میں بنیادی اداروں کو اہم کر دار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیا یہ ادارے ایسی واضح پالیسی رکھتے ہیں کہ ایک ملا زم دو اداروں میں ایک ہی وقت میں کام نہیں کر سکتا؟ اگر ایسا ہے تو اس پالیسی کو نافذ کرنے کیلئے ان اداروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ تعلیمی ادارو ں کے منتظمین کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ طلبا اس سارے تعلیمی عمل میں اہم سٹیک ہولڈر (stakeholder) ہیں اور اگر انہیں معیاری تعلیم ،رہنمائی اور مشاورت کی سہولت نہیں مل رہی تو پھر ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ تعلیمی ادارے کے مقاصد ناکام ہوگئے ۔دوسری طرف یہی دلائل ان اداروں کیلئے بھی ہیں جو ان اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔بعض ادارے تو ایسے ہیں جو مالی بچت کے لیے مکمل طور پر (Visiting Faculty)پر انحصار کررہے ہوتے ہیں یوں معیاری تعلیم کے ارفع مقصد پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے اداروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ جُزوقتی تدریس کی بہتات کا نتیجہ پیشہ ورانہ جمود ، خرابیٔ صحت اور گھریلو تعلقات میں نا خوشگواری کی صورت میں نکلتا ہے۔ اساتذہ کے لیے اس اہم نکتے کا ادراک ضروری ہے کہ زندگی میں پیسہ ضرور اہم ہے مگر اس سے بھی اہم دلوں کا سکون اور مسرت ہے۔