ناممکن تو نہیں تھا مگر مشکل اتنا تھا کہ بس ناممکن ہی لگ رہا تھا۔ سرچھپانے کے لیے چھت بننے کا امکان روشن ہورہا تھا لیکن پھر تاریکی میں چھپ چھپ جاتا تھا۔ نائب قاصد ارشاد کو اس کے ایک نرم دل رشتہ دار نے پانچ مرلے زمین کی پیشکش کی تھی اس شرط پر کہ چارماہ کے اندر اندر تین لاکھ روپے کی ادائیگی کردی جائے۔ شاید اس کے بعد کوئی اور موقع نہ ملے۔ ارشاد نے کمرہمت باندھ لی۔ بیوی کے زیور بیچے۔ بھائی سے قرض لیا۔ کچھ پیسے سسر نے کہیں سے بندوبست کرکے دیے۔ یوں دوماہ کی شبانہ روز کوشش سے دولاکھ کا انتظام ہوگیا۔ ایک لاکھ مزید درکار تھے۔ کئی جگراتوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے اپنے محکمے سے ہائوس بلڈنگ ایڈوانس مل سکتا ہے بشرطیکہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط ہاتھ ہو۔ خدانے اس کا بھی بندوبست کردیا ۔ اور ایک لاکھ روپے اس کے سیونگ اکائونٹ میں دفتر سے بذریعہ چیک جمع ہوگئے۔ یہ 2012ء کے رمضان سے پہلے کا ذکر ہے۔ عیدالفطر کے ایک ہفتہ بعد مدت پوری ہورہی تھی۔ اس نے تین لاکھ روپے کی رقم ادا کرکے زمین اپنے نام کرانا تھی عید کی چھٹیوں کے بعد وہ بنک گیا اور دفتر سے قرض لیا ہوا ایک لاکھ روپیہ نکلوایا لیکن اس کے پیروں تلے سے زمین اس وقت نکلی جب ایک لاکھ کے بجائے اسے ستانوے ہزار پانچ سوروپے دیئے گئے۔ بنک والوں نے بتایا کہ اس کے سیونگ اکائونٹ پر زکوٰۃ نافذ کی گئی ہے اور اڑھائی فیصد کے حساب سے یہ رقم اڑھائی ہزار بنتی ہے۔ بنک منیجر کے پاس تو ملنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ کلرک کو اس نے بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں۔ وہ تو مشکل سے دووقت کی روٹی بچوں کو مہیا کررہا ہے۔ اور پھر یہ ایک لاکھ روپیہ تو اس نے قرض لیا ہے۔ اس پر زکوٰۃ کسی حساب سے نہیں بنتی۔ لیکن کلرک ایک ہی بات کہتا تھا میں کچھ نہیں کرسکتا۔ بنک کے قواعد کی رو سے ہر سیونگ اکائونٹ سے یکم رمضان کو زکوٰۃ کاٹنا ہوتی ہے۔ یہ واقع نام کی تبدیلی کے سوا سوفیصد سچا ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ مذاق مردمومن مردحق ضیاء الحق نے 1980ء میں زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس کے نفاذ سے شروع کیا جو بدقسمتی سے آج تک جاری وساری ہے۔ آپ کے اربوں روپے کرنٹ اکائونٹ میں پڑے ہیں تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں لیکن آپ کی پنشن، جی پی فنڈ سے لیا ہوا قرض یا تنخواہ سے بچی ہوئی کچھ رقم سیونگ اکائونٹ میں پڑی ہے تو بنک اس سے زکوٰۃکاٹ لے گا۔ آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی۔ بنک والوں میں اتنی شائستگی اور اخلاق بھی نہیں کہ آپ کو خط کے ذریعے اطلاع ہی دے دیں۔ ہمارے علماء زکوٰۃکے حوالے سے تملیک کی شرط لگاتے ہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رقم کسی فرد کی ملکیت میں دی جائے۔ چنانچہ اگر آپ زکوٰۃ کی رقم کسی زیرتعمیر ہسپتال یا کسی اور رفاہی سرگرمی میں لگانا چاہتے ہیں تو مذہبی سکالر اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ضیاء الحق کے اس خالص غیراسلامی کام پر مذہبی حلقوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ضیاء الحق ان حضرات کی آنکھ کا تاراتھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس نے علما اور مشائخ کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کانفرنسوں کا دسترخوان وسیع وعریض ہوتا تھا۔ ٹیکس ادا کرنے والے عوام کا پیسہ ہوتا تھا۔ لمبی عبائوں اور کلف زدہ دستاروں کے پیچ ہوتے تھے اور شکم تنوروں کے طرح بھرے جاتے تھے ۔ ستائیسویں رمضان کو سرکاری خزانے سے جہاز بھر بھر کر حرم مکہ کے سفر ان کانفرنسوں کے علاوہ تھے ۔ چنانچہ اعتراض کون کرتا ؟زکوٰۃکے لیے اور ہرمذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے نیت اور ارادہ لازم ہے۔ لیکن یہاں مالک کو خبر ہی نہیں۔ اس کے اکائونٹ سے زکوٰۃ کاٹی جارہی ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کسے دی جارہی ہے ؟ کسی مستحق کو دی بھی جارہی ہے یا کسی وزیر کے دفتر کی آرائش پر خرچ ہورہی ہے۔ ہم نے اس ملک کو اسلام کا قلعہ کہا اور پھر اس میں مذہب کے نام پر ہروہ کام شروع کردیا جس کا ہمارے مذہب سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ پانچ وقتوں کی نماز پڑھنے والے گاڑیاں چوری کروارہے ہیں اور بے گناہ افراد کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا ’’کاروبار‘‘ حجروں میں نہیں، مسجدوں میں بیٹھ کر کیا جارہا ہے اور اسے ’’ہمارے بچوں کی محنت ‘‘کا نام دیا جارہا ہے۔ رمضان ہی کو لے لیجئے ضیاء الحق سے پہلے بھی اس ملک میں مسلمان ہی بستے تھے اور روزے رکھتے تھے۔ لیکن ریستوران کھلے رہتے تھے۔ ان کے دروازوں پر پردے لگادیئے جاتے تھے۔ سرعام اس وقت بھی کوئی نہیں کھاتا پیتا تھا۔ضیاء صاحب نے ادھر تو مشہور بھارتی اداکار شتروگھن سنہا کو منہ بولا بیٹا بنایا، ادھر رمضان میں سارے ریستوران بند کرا دیئے۔ اسلام مسافروں اور مریضوں کو رمضان کے روزوں سے مستثنیٰ کرتا ہے مسافر اور مریض قضا شدہ روزے اس وقت رکھتے ہیں جب سفر ختم ہوجائے یا وہ تندرست ہوجائیں۔ آج عالم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کام سے کراچی سے اسلام آباد آتا ہے تو مسافر ہونے کے باوجود پورے شہر میں اسے کھانا میسر نہیں ہوتا۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خاص طورپر جوانسولین پر ہیں، وقت پر کھانا کھانا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، لیکن مسافر ہے یا تنہا زندگی بسر کرنے والا مریض ، بچہ ہے یا بوڑھا چند لقمے بھی کہیں سے نہیں حاصل کرسکتا۔ ہمارے خودساختہ مذہبی تصورات عجیب وغریب ہیں۔ ہم گالیاں تجویدسے دیتے ہیں اور قرآن پاک غلط پڑھتے ہیں‘ ستائیسویں رمضان کی رات نوافل میں گزرتی ہے اور صبح کی فرض نماز کے وقت تھک کر سوجاتے ہیں۔ زندگی میں سینکڑوں ہزاروں بار قرآن پاک ختم کرتے ہیں لیکن حرام ہے جو چار آیتوں کا مفہوم سمجھ یا سمجھا سکیں۔ دوستوں پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں اور قریبی اعزہ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے رہیں تو پرواہ نہیں کرتے۔ بچوں کو گراں ترین تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں خواہ ملک کے اندر یا ملک سے باہر، لیکن ان کی مذہبی تعلیم پر چند سوروپے خرچ کرنے پڑیں تو پیٹ میں قولنج سے بدتر درد پڑنے لگتا ہے۔ کاروبار میں ملاوٹ سے لے کر ٹیکس چوری تک، تجاوزات سے لے کر دروغ گوئی تک ہر گناہ کو جائز سمجھتے ہیں لیکن عرسوں‘ قوالیوں‘ دیگوں اور چندوں سے اپنے آپ کو دھو کر نفاق کی دھوپ میں خشک کرلیتے ہیں۔ باس کے‘ خواہ احمق ہی کیوں نہ ہو اور حرام ہی کیوں نہ کھاتا ہو، جوتے سیدھے کرتے ہیں لیکن والد کے سامنے تڑ تڑ بکواس کرتے ہیں۔ فضائل قرآن سن سن کر اور سنا سنا کر بال سفید ہوجاتے ہیں لیکن قرآن سے تادم آخر ناآشنا رہتے ہیں۔ عشق رسولﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صبح سے شام تک عملی زندگی کی ہرسانس میں خدا کے رسولؐ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اپنے ملک کے حصے ایک ایک کرکے الگ ہورہے ہیں لیکن کبھی وائٹ ہائوس پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے رنگ کے قلعہ پر پرچم لہرانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ درجنوں کے حساب سے ہمارے معصوم ہم وطن ہرروز گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے جاتے ہیں لیکن وہ ہمیں کیڑوں کی طرح حقیر لگتے ہیں اور ہمارے درد دل کا سارا سرمایہ چیچنیا سے لے کر مصر تک بیرون ملک صرف ہوجاتا ہے۔ ہم جب جوان اور توانا ہوتے ہیں تو بنکاک اور لندن کی یاترا کرتے رہتے ہیں اور جب بڈھے کھوسٹ‘ اپاہج‘ ضعیف اور بدحواس ہوجاتے ہیں تو ہمیں خدا کا گھر اور نبیؐ کا روضہ یاد آنے لگتا ہے ہم پوری دنیا کے مسلمانوں سے وکھرے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں سے اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved