آپ کسی بھی پولیس دفتر، تھانے یا بیرک میں جائیں تو وہاں بڑے بڑے بینرز آویزاں ہوتے ہیں جن پر '' نفرت جرم سے‘ مجرم سے نہیں‘‘ کا جملہ نمایاں انداز میں تحریر ہوتا ہے۔ یہ تحریر پڑھ کر انسان سوچتا ضرور ہے کہ کیا واقعی ہماری پولیس اس سلوگن کو مشعل راہ بنائے ہوئے ہے؟ تاہم ایک عام آدمی کے تجربات و مشاہدات اس حوالے سے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتے اور پولیس کے رویے کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس کا جائز یا ناجائز، قانونی یا غیر قانونی، بطور مدعی یا ملزم کسی بھی طور پر اس ادارے سے واسطہ پڑ چکا ہو۔ ایک شریف آدمی اگر چوری یا ڈکیتی کا مقدمہ درج کرانے تھانے چلا جائے تو تائب ہو کر واپس آتا ہے جبکہ عادی مجرمان نہ تو حوالات سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی جیل سے بلکہ وہ جرم سے لے کر مقدمے اور تفتیش سے ضمانت تک‘ تمام معاملات کو ایک فارمولے کی طرز پر سمجھتے اور ان سے ڈیل کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظام انسدادِ جرم جیسی صفات سے عاری نظر آتا ہے اور اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی مجرم کو سزا ہو جائے تب بھی اس کی زندگی میں کوئی سدھار نہیں آتا بلکہ سزا سے اکثر و بیشتر افراد مجرمانہ سرگرمیوں پر زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد ہرگز مجرموں کی وکالت یا پولیس پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ یقینا پولیس میں بڑے ایماندار، قابل اور محنتی افسران و اہلکار بھی ہیں جو پورے معاشرے کے لیے ایک مثالی کردار ادا کرتے ہیں۔ پولیس بھی ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہے اور اس میں بھی‘ باقی معاشرے کی طرح‘ اچھے برے ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں؛ تاہم ہمارا مقصد ایک تلخ معاشرتی پہلو کو اجاگر کرنا ہے جس میں اگر کوئی امیر یا وڈیرہ جرم کرے تو اسے حتی الوسع بچانے کی کوشش کی جاتی ہے، معاملے کو دبا دیا جاتا ہے، مدعی پر صلح کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے، گواہان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ثبوت مٹا دیے جاتے ہیں، مقدمے کے اندراج یا تفتیش میں خامیاں چھوڑ دی جاتی ہیں تاکہ بااثر مجرم عدم ثبوت یا مقدمے کی عدم پیروی کی بنا پر بری ہو جائے۔ بسا اوقات بااثر ملزمان کو بچانے کے لیے مدعی پارٹی پر کراس پرچہ (مقدمہ) درج کرا دیا جاتا ہے تاکہ متاثرہ فریق صلح کرنے یا مقدمے کی پیروی نہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، خصوصاً بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح انتہائی تشویشناک ہے اور پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، یہ درندے کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کی گرفتاری، تفتیش اور مقدمات کی پیروی میں کسی قسم کی لچک یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے تاکہ کوئی مجرم جرم کے بعد سزا سے نہ بچ سکے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سکولوں، کالجوں، جامعات اور مدارس میں ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں اور پولیس نے متعدد ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا بھی دلوائی ہے۔ جرم تو جرم ہے‘ چاہے کوئی بھی کرے لیکن جب کوئی استاد، یا مذہبی پیشوا ایسا گھٹیا فعل کرے تو وہ زیادہ قابل گرفت ہے کیونکہ یہ لوگ معاشرے میں قابلِ احترام اور بااعتماد حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور ایسا ملزم قانون کے ساتھ ساتھ معاشرے کا بھی مجرم ہوتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بھی تعلیمی اداروں میں زیادتی کے کیسز منظرِ عام پر آئے ہیں البتہ چند روز قبل لاہور کے ایک مدرسے کے حوالے سے جو افسوسناک واقعہ پیش آیا وہ پوری قوم کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ ملزم معاشرے کا کوئی عام فرد نہیں بلکہ ایک عالم دین ہے، جس نے پہلے تو جرم سے مسلسل انکار کیا بلکہ حلف بھی اٹھایا لیکن جب پولیس نے اسے گرفتار کر کے تفتیش شروع کی تو اس نے نہ صرف اعترافِ جرم کر لیا بلکہ دورانِ تفتیش متاثرہ طالبعلم کو بلیک میل کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ ملزم نے تسلیم کیا کہ وڈیو اسی کی ہے جو متاثرہ طالبعلم نے چھپ کر بنائی تھی۔ ملزم نے بتایا کہ اس نے طالبعلم کو پاس کرنے کا جھانسہ دیا تھا، وڈیو وائرل ہونے کے بعد وہ خوف اور پریشانی کا شکار ہوگیا تھا اور شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کے بیٹوں نے طالبعلم کو دھمکایا اور اسے یہ بات کسی کو بتانے سے روکا تھا۔ طالبعلم نے منع کرنے کے باوجود وڈیو وائرل کر دی، منتظمین نے مدرسہ چھوڑنے کا کہا مگر وہ جانا نہیں چاہتا تھا‘ اس لیے وڈیو بیان جاری کیا۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس کے حوالے سے میڈیکل و فرانزک شواہد اکٹھے کر رہے ہیں، بہت سے شواہد موجود ہیں، مضبوط چالان مرتب کر کے ملزم کو سزا دلائی جائے گی، اس کیس میں عمر قید یا دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی اور متاثرہ شہری ہے تو وہ بھی رابطہ کر سکتا ہے۔ عدالت نے ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم بھی دیا ہے۔ ملزم کے تین بیٹوں پر طالبعلم کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کا الزام ہے‘ انہیں 30جون تک ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
راقم الحروف سمیت پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ اگر جرم ثابت ہوتا ہے‘ جس کے بظاہر کافی ٹھوس شواہد موجود ہیں‘ تو مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو معصوم بچوں کو بلیک میل کرنے اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی جرأت نہ ہو؛ تاہم دوسری جانب جس طریقے سے اس کیس کا سوشل میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے وہ بھی قطعی مناسب نہیں۔ پولیس کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں ملزم کو سزا دلوانے پر صرف کرے۔ بظاہر تو یہ جرم ایک شخص نے کیا ہے یا اس کے بیٹے اپنے باپ کو بچانے کیلئے متاثرہ طالبعلم کو دھمکیاں دے کر شریکِ جرم بنے لیکن اس جرم کی سزا ان کے خاندان کے دیگر افراد خصوصاً خواتین کو نہیں دی جا سکتی۔ بظاہر جس طریقے سے پولیس نے اس واقعے کو ہائی لائٹ کیا ہے اور ملزم کی تشہیر کی گئی ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملزم کو سزا دلوانے کے بجائے تشہیر پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ہر روزایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں‘ جن سے ''روایتی انداز‘‘ میں ہی نمٹا جا رہا ہے۔
اگر مذکورہ کیس کے حوالے سے بات کی جائے تو اصولی طور پر ملزم کی گرفتاری کو خفیہ رکھا جانا چاہیے تھا اور تمام پہلوئوں سے تفتیش مکمل کرنے اور اس نیٹ ورک یا جرم میں شامل تمام شریک ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد انہیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا اور پھر فاسٹ ٹریک کارروائی کے ذریعے عدالت سے سخت سزا دلوا کر مجرم کو نشانِ عبرت بنایا جاتا تو کہیں بہتر ہوتا، لیکن جس طریقے سے اس کیس میں تفتیش سے زیادہ تشہیر پر توجہ دی گئی ہے اس سے ایسے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ اگر قانونی طور پر کوئی خامی چھوڑ دی گئی تو کہیں ملزمان سزا سے بچ نہ جائیں۔ ویسے بھی جس طرح ملزم کا ٹرائل کیا جا رہا ہے اس سے ملزم کے خاندان کاکوئی فرد بھی معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا ۔ اس پورے معاملے میں جرم کے بجائے ملزم کی شخصیت کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے جس سے بظاہر ایسا تاثر ملا ہے کہ پولیس اپنے ہی سلوگن کو بھول گئی ہے اور جرم کے بجائے ملزم پر زیادہ توجہ دے رہی ہے ۔ اکثر کیسز میں اسی روش کی وجہ سے جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عدالت کے حکم پر اب ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو گا اور بہت جلد حقائق سامنے آ جائیں گے؛ تاہم یہ پولیس زیادہ بہتر جانتی ہو گی کہ فرانزک اور سائنسی شواہد کی بنا پر ملزم کو اپنے کیے کی سزا دلوانا کس حد تک ممکن ہو پاتا ہے۔ اس لیے پولیس کو تکنیکی انداز میں کیس کی تفتیش کرنا ہو گی تاکہ مجرم سزا سے نہ بچ سکے۔ ہمیں امید ہے کہ پولیس اپنی توانائیاں ملزم کو سزا دلوانے پر صرف کرکے مقدمے کاچالان جلد از جلد عدالت میں جمع کرائے گی تاکہ ریکارڈ وقت میں کیس مکمل ہو سکے اور جلد اس کیس کا فیصلہ سامنے آ سکے اور مجرموں کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی جامعہ یا مدرسے میں تو کجا‘ کسی جنگل اور ویرانے میں بھی ایسا جرم کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکے ۔ ملزم چونکہ معاشرے کے اہم ترین شعبے سے وابستہ ہے اس لیے اسے سزا میں کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔