کسی بھی انسان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ کیا ہوتا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ ہر انسان اپنے مزاج اور ضرورت کے مطابق جواب دے سکتا ہے۔ کسی کی نظر میں زیادہ سے زیادہ یا اول و آخر دولت بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہے اور کسی کو اعتماد سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔ کوئی یہ کہے گا کہ سماجی تعلقات اور خونی رشتے انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں جبکہ کسی کی نظر میں اپنے وجود سے سچی محبت ہی سب کچھ ٹھہرے گی۔ ایک بات تو طے ہے کہ کم و بیش ہر انسان کے لیے انتہائی بنیادی ضرورت ہے اُمید۔ کوئی کسی بھی سوچ یا نظریے کا ہو، اگر اُمید نہیں تو کچھ نہیں۔ یہ دولت ہاتھ سے گئی تو زندگی بھی گئی۔ جو لوگ اُمید سے محروم ہو جائیں اُن کی زندگی میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ یہ اُمّید ہی تو ہے جو انسان کو سخت مشکل حالات میں بھی توانا، تازہ دم اور مثبت سوچ کا حامل رکھتی ہے۔ جس نے اُمید کا دامن چھوڑ دیا وہ یوں برباد ہوا کہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکا۔
ہر دور کے انسان کو مختلف حوالوں سے بحرانوں کا، الجھنوں کا، مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ہر دور اپنے ساتھ چند مخصوص پیچیدگیاں لاتا ہے۔ ان پیچیدگیوں سے بطریقِ احسن نمٹنا غیر معمولی ذہانت اور محنت کا طالب ہوتا ہے۔ ہم سبھی کو عمر بھر یعنی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف النوع الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسی بات نہیں جس پر زیادہ حیرت ہو۔ قدرت کے طے کردہ اصولوں کے تحت ہر انسان کے حصے میں مشکلات آتی ہی ہیں۔ دنیا تفاعل اور اشتراکِ عمل کا نام ہے۔ لوگوں کے معاملات آپس میں ٹکراتے ہیں تو کوئی نہ کوئی پریشانی یا الجھن پیدا ہوتی ہی ہے۔ ہاں! کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کو سامنے پاکر حواس پر قابو رکھنا انسان کے لیے غیر معمولی آزمائش ہوتی ہے۔ اس آزمائش میں کامیاب ہونے کے لیے انسان کے پاس ویسے تو بہت کچھ ہونا چاہیے مگر سب سے بڑھ کر ہونی چاہیے اُمید۔ یہ اُمّید ہی تو ہے جو انسان کو پورے وقار اور خود داری کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اُمّید ہار بیٹھنے سے واضح امکانات بھی دم توڑنے لگتے ہیں؟ بہت سے معاملات میں ہمیں اُمّید سے محرومی کے خطرناک اور تباہ کن نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس معاملے میں واضح ترین مثال صحت کی ہے۔ بہت سے لوگ کسی معمولی سی بیماری سے بھی گھبرا جاتے ہیں اور دوسری طرف بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی بڑی بیماری کا بھی پوری اُمید کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اُمید کا دامن چھوڑ دینے سے انسان وہ سب کچھ بھی نہیں کر پاتا جو آسانی سے کرسکتا ہے۔ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے پر بھی جو لوگ حواس قابو میں رکھتے ہیں اور گھبراتے نہیں وہ بالآخر اس بیماری کو پچھاڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شدید مایوسی انسان کو تمام امکانات سے دور کردیتی ہے۔ مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنے والوں کو اس حال میں دیکھا گیا ہے کہ جو کچھ آسانی سے کیا جاسکتا ہے وہ بھی نہیں ہو پاتا اور چھوٹی مشکلات بڑی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں حواس پر قابو رکھنے والوں کے لیے قدرت کی طرف سے امکانات کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ نریش کمار شادؔ نے کہا تھا ؎
اللہ رے نااُمیدیٔ پیہم کی ظلمتیں
شب تو ہے شب، سَحر میں بھی تابندگی نہیں
یہ کتنی دل خراش حقیقت ہے کہ جب انسان شدید مایوسی کی لپیٹ میں ہوتا ہے تب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ایسے میں کچھ بھی دکھائی اور سُجھائی نہیں دیتا۔ ہمارا ذہن ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے مثبت رویہ چاہتا ہے۔ اگر ہم طے کرلیں کہ کسی خاص معاملے میں ہمارے لیے کوئی بھی امکان پیدا ہی نہیں ہوگا اور ہم ناکامی سے دوچار ہوں گے تو پھر ہم واقعی ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ مشکل صورتِ حال سے بخوبی نمٹنے کے لیے مثبت سوچ کا حامل ہونا بنیادی شرط ہے۔ مثبت سوچ انسان کو اُمّید کی طرف لے جاتی ہے اور امکانات کے بارے میں بتاتی ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ‘ مثبت سوچ کا پروان چڑھنا کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ گھر سے معاشرے تک انسان کو مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو بات بات پر صرف مایوس ہونا جانتے ہیں اور اُن کی باتوں سے بھی صرف مایوسی جھلکتی اور ٹپکتی ہے۔ دوسری طرف چند ایک ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو کسی بھی ناموافق صورتِ حال کو دیکھ کر گھبراتے نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اس کا سامنا کرنے کی ٹھانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسائل پر کڑھنے اور اُن کا شکوہ کرتے رہنے کے بجائے اُن کے حل کی بات کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو امکانات کی دنیا تک پہنچنے کا راستہ ملتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
اس ایک شعر کی صورت میں علامہ اقبالؔ نے ڈھنگ سے جینے اور کامیابی کی طرف جانے والی راہ تلاش کرنے کے حوالے سے پورا فلسفہ بیان کردیا ہے۔ جو لوگ علم و فن کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اُن کی زندگی میں اُمّید سب سے بڑے فیصلہ کن عامل کا کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ کرنے کی ٹھاننے والے سب سے پہلے اُمّید کا دامن تھامنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب وہ کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے نکلتے ہیں تب اُن کے دل و دماغ میں اُمّید کی شمع جلتی ہے۔ وہ اِس اُمّید ہی پر تو کام شروع کرتے ہیں کہ مسئلہ حل ہوگا، ناموافق صورتِ حال کا کوئی نہ کوئی ایسا حل ضرور نکلے گا جو مکمل کامیابی کی طرف لے جائے گا۔ جب تک دل و دماغ میں اُمّید زندہ رہتی ہے تب تک انسان ہاتھ پیر چلاتے رہنے پر یقین رکھتا ہے۔ اُمّید اُسے بتاتی رہتی ہے کہ معاملات قابو میں ہیں اور کامیابی کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ یہ اُمید ہی تو ہے کہ جو کسی بھی مقابلے کے آخری لمحات میں بازی کو پلٹ دیتی ہے۔ آپ نے کرکٹ کے بہت سے میچوں میں دیکھا ہوگا کہ کسی ٹیم نے جیتا ہوا میچ آخری اوور میں ہار دیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مخالف ٹیم نے آخری اوور تک اُمّید سے دامن کش ہونے کو ترجیح نہیں دی اور کوشش جاری رکھی۔ بہت سے میچوں کے فیصلے آخری گیند تک جاتے ہیں۔ اِسے فوٹو فنش کہتے ہیں۔ آخری گیند پر کھیلے جانے والے شاٹ سے فتح ملتی ہے یا پھر آخری گیند پر وکٹ گرنے سے کوئی ٹیم جیتا ہوا میچ ہار جاتی ہے۔ کسی بھی ٹیم کو اپنی شکست کے امکان کا اندازہ تو بہت پہلے سے ہو جاتا ہے مگر وہ ہمت نہ ہارے تو کھیل کا نقشہ بدل سکتا‘ پانسا پلٹ سکتا ہے۔ فٹ بال کے میچوں میں بھی کبھی کبھی فتح دلانے والا یعنی فیصلہ کن گول آخری لمحات میں ہوتا ہے اور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ فتح کے امکان سے ہم کنار رہنے والے تماشائی پل بھر میں آنسو بہانے لگتے ہیں۔ اور دوسری طرف میچ کو بے دِلی اور بے یقینی سے دیکھنے والے تماشائی آخری لمحے تک برقرار رہنے والی اُمّید کی بدولت کِھل اٹھتے ہیں۔
زندگی کا سارا حُسن اس حقیقت میں مضمر ہے کہ آپ کسی بھی مرحلے پر بے یقینی کا شکار نہ ہوں۔ اگر حالات شدید ناموافق ہوں تب بھی لازم ہے کہ معاملات کو مثبت سوچ کے ساتھ نمٹایا جائے اور کسی بھی مرحلے پر اُمّید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر مثبت طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر حالات یکسر ناموافق ہوں تو امید ہارنے کی صورت میں آپ اُس امکان سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جو قدرت نے آپ کے لیے بچاکر رکھا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بڑی بحرانی کیفیت میں بھی سلامت رہنے والی اُمّید انسان کو کسی ایک مقام یا اقدام تک لے جاتی ہے جسے بروئے کار لانے کے مثبت نتیجے کی مدد سے بہت کچھ اپنے حق میں ہو جاتا ہے۔ اہلِ دانش نے اِسی لیے ہر دور میں اس نکتے پر زور دیا ہے کہ حالات چاہے کچھ ہوں، ہمت نہیں ہارنی ہے، اُمّید کو زندہ رکھنا ہے۔ اُمّید ہی انسان کو اندھیرے میں راہ دکھاتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو دن کے اجالے میں بھی کچھ نہیں سُوجھتا۔