تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-06-2021

افغانستان… کس کا قبرستان؟

افغانستان انسانی تہذیب سے بچھڑا ہوا ایک سماج ہے۔ آج امن اُس کی پہلی ترجیح نہیں اور یہی اس کا المیہ ہے۔
امریکہ والے بظاہر بہت سیانے ہیں۔ 1979ء میں یہاں قدم رکھنے سے پہلے انہوں نے اس خطے کے طرزِ معاشرت اور سماجی بنت کا اچھی طرح جائزہ لے لیا ہو گا۔ عام طور پر وہ یہی کرتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ جب ان کی سیاست کا مرکز بنا تو امریکی یونیورسٹیوں میں سی آئی اے کی معاونت سے 'مراکز برائے مطالعہ مشرقِ وسطیٰ‘ قائم ہوئے۔ ایک ایک مذہبی اور سیاسی رجحان کو سمجھا گیا۔ تاریخ کو کھنگالا گیا اور اس کے بعد اس خطے کے بارے میں ایک پالیسی مرتب کی گئی۔
1970ء کی دہائی میں اور اس کے بعد ایسی تحقیقی کتابوں سے کتب خانے بھر گئے جو مشرقِ وسطیٰ پر لکھی گئیں۔ اس کام کے لیے دنیا بھر کے سکالرز کی خدمات مستعار لی گئیں۔ 1979ء سے پہلے افغانستان کے بارے میں بھی تحقیق ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سوویت یونین کو افغانستان پر قبضے پر ابھارا۔ روسی اس جال میں پھنس گئے اور یوں یہ خطہ ان کا قبرستان بن گیا؛ تاہم امریکی اس کا مطالعہ نہ کر سکے کہ مستقبل میں یہ ملک اور کس کس کے لیے قبرستان ثابت ہو گا۔ 1989ء میں وہ اسی لا علمی میں یہاں سے رخصت ہوئے۔ یہاں تک کہ تاریخ نے اس سرزمین کو ایک بار پھر قبرستان بننے کے لیے تیار کر دیا۔ اب لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں کی باری تھی۔ امریکہ کو9/11 کی صورت میں جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، وہ اس لا علمی کی قیمت تھی۔ اِس بار وہ افغانستان میں داخل ہوا تو کسی تیاری کے بغیر، محض حالات کے جبر سے۔ اس نے خیال کیاکہ طاقت کے استعمال سے وہ یہ معرکہ سر کر لے گا۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ اسے اندازہ نہیں ہوا کہ قبرستان میں زندگی نہیں، صرف موت سانس لیتی ہے۔
اب امریکہ نے پھر یہاں سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا تو افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے نکلنے کی دیر ہے، یہ ملک ایک بار پھر میدانِ جنگ بن جائے گا۔ افغانستان نے بھی کیا قسمت پائی ہے، سوویت یونین آئے تو خانہ جنگی۔ جائے تو خانہ جنگی۔ امریکہ آئے تو خانہ جنگی، رخصت ہو تو خانہ جنگی۔ معلوم ہوا کہ اس خانہ جنگی کے اسباب خارج میں نہیں، داخل میں ہیں۔
افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اس کا تصورِ مذہب بھی قدیم ہے اور تصورِ سیاست بھی۔ یہ طالبان ہوں یا ان کے مخالف، سب کا تصورِ مذہب ایک ہے۔ اسی طرح جدید سیاسی اداروں کے لیے فی الوقت وہاں کوئی پذیرائی نہیں‘ ابھی تک قدیم جرگہ عدالت بھی ہے اور انتظامیہ بھی۔ جدید مذہبی تعبیرات کے لیے وہاں کوئی جگہ ہے نہ سیاسی تصورات اور اداروں کے لیے۔ مجھے اس پر حیرت ہے کہ امریکہ نے سماجی حالات کا ادراک کیے بغیر، افغانستان میں ایک ایسا سیاسی نظم رائج کرنا چاہا جس کے لیے سماج میں کوئی طلب ہے نہ وہ اس سے با خبر ہے۔
افغانستان کے سیاسی اعیان، پاکستان کے سیاست دانوں کی طرح ہیں۔ ان میں سے کون ہے جو جدید سیاسی اداروں اور تصورات سے واقف نہیں؟ طرزِ سیاست مگر سب کا روایتی ہے۔ حامد کرزئی ہوں یا اشرف غنی۔ مغربی اداروں سے واقف ہیں۔ اشرف غنی جان ہاپکنز یونیورسٹی سمیت امریکہ کی کئی جامعات میں علم البشریات کے استاد رہ چکے‘ اور عالمی بینک سے بھی وابستہ رہے۔ گویا سماج اور معیشت کے باب میں جدید علمی ترقی اور رجحانات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کی سیاست مگر تمام تر روایتی ہے۔ افغانستان کو ان کے اس علم سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
اس کی وجہ واضح ہے۔ اقتدار کی سیاست زمینی حقائق سے جڑی ہوتی ہے۔ افغانستان کی سماجی حقیقتیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ امریکی ڈالروں کے سیلاب سے معیشت کو ایک ٹھہراؤ ملا لیکن ظاہر ہے کہ یہ پائیدار معاشی ترقی کی علامت نہیں۔ جیسے ہی امریکہ کے مفادات کم ہوں گے، ڈالروں کی آمد بھی کم ہو جائے گی۔ بے روزگاری بڑھے گی تو لوگ پاکستان کا رخ کریں گے یا جنگجو گروہوں میں شامل ہو جائیں گے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ تاریخ حالات کو ایک بار 1979ء میں لے جا رہی ہے۔
افغانستان کی صورتحال کا امریکہ کی آمد و رفت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ رہے تو خانہ جنگی۔ جائے تو خانہ جنگی۔ اس کا تعلق، جیساکہ عرض کیا، افغانستان کے داخلی حالات سے ہے۔ یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے جس میں صرف طاقت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اگر 1996ء میں طالبان بعض علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب رہے تو انہیں امریکہ سمیت بہت سے ملکوں کی ہر طرح کی حمایت حاصل تھی۔ اس بار ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ طالبان کے پاس اس کا متبادل کیا ہو گا، میں نہیں جانتا۔
دوسری طرف امریکہ کے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں غیر ملکی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ ترکی کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری لے رہا ہے۔ یہ حفاظت فوج کے بغیر تو نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ایران بھی وہاں کے حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا کہ طالبان ایران سے نظری بُعد رکھتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ اس لیے ہم بھی اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ جب کوئی ہمسایہ ملک لا تعلق نہیں رہ سکتا تو افغانستان غیر ملکی مداخلت سے محفوظ کیسے رہ سکتا ہے؟
افغانستان کا ارد گرد بہت بدل گیا ہے۔ افغانستان مگر نہیں بدلا۔ افریقا کے چند ممالک کے ساتھ یہ وہ ملک ہے جو انسانی تہذیب کے قافلے سے بچھڑا ہوا ہے۔ شہروں میں نئی ٹیکنالوجی تو آ گئی مگر ٹیکنالوجی سے ذہنی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال جس مہارت کے ساتھ القاعدہ اور داعش نے کیا ہے، ریاستوں نے بھی کم کیا ہو گا۔ طالبان بھی سیکھ رہے ہیں لیکن ان میں کسی جوہری تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
پاکستان کو مزید مشکل صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ طالبان اور پاکستان کے مابین وہ تعلقات نہیں رہے جو ماضی میں تھے۔ ان کے علاوہ، وہاں کوئی سیاسی گروہ ایسا نہیں جو پاکستان سے کوئی لگاؤ رکھتا ہو۔ 1979ء کے بعد پاک افغانستان تعلقات کی ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اس دوران میں باہمی اعتماد کی موت بھی واقع ہو چکی۔ میں نہیں جانتاکہ پاکستانی ریاست کے پاس کوئی ایسا فسوں موجود ہے جسے پڑھ کر اس کے تنِ مردہ میں پھر جان ڈالی جا سکتی ہے۔
افغانستان اور اس خطے کے امن کی ضمانت صرف اس میں ہے کہ یہ ملک انسانی تہذیب کے قافلے سے آ ملے۔ انسانی تہذیب کاکوئی تصور جمہوریت کے بغیر نا مکمل ہے۔ جب تک افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کا کوئی پُر امن راستہ موجود نہیں، خانہ جنگی اس ملک کا مقدر رہے گی۔ جمہوریت ہی اس کا واحد حل ہے۔ جمہوریت کا مطلب عام شہری کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے ووٹ کی پرچی دینا اور اسے یہ باور کرانا ہے کہ یہ پرچی اسی طرح اس کے مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے جس طرح، اس کے خیال میں بندوق کرتی ہے۔
افغانستان میں سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس لیے میں یہ تجزیہ کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے افغانستان میں صرف خانہ جنگی دکھائی دیتی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو کیونکہ ایک ملک جب قبرستان بنتا ہے تو سب سے زیادہ اس کے شہری ہی اسے آباد کرتے ہیں۔ افغانستان صرف سوویت یونین اور امریکہ کا قبرستان نہیں ہے۔ اس کی سرزمین کو امریکیوں اور روسیوں سے زیادہ افغانوں کے لہو نے سیراب کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved