سرسراتی خنک ہوا چیری سے لدی شاخوں سے گزرتی تو لگتا تھا کوئی مترنم آب جُو قریب ہی کہیں گنگناتی ہوئی رواں ہے۔ درختوں اور شامیانے تلے ٹھنڈی چھاؤں بچھی تھی اور اس پر صوفے بچھے تھے۔ بہت سے اہم لوگ اس جگہ موجود تھے لیکن جو سب کی توجہ کا مرکز تھے وہ سب سے اہم لوگ تھے یعنی اس ادارے کے طالبعلم۔ یونیفارم میں ملبوس یہ بلوچ طالب علم اس ادارے کا اثاثہ تھے اور باہر کے سب مہمان یہی اثاثہ دیکھنے آئے تھے۔
ہم بلوچستان کے بلند اور خنک پہاڑی شہر زیارت میں ایک فلاحی تعلیمی ادارے کی دعوت پر کل رات پہنچے تھے۔ زیارت کا نام کون نہیں جانتا۔ قائد اعظم کے آخری دنوں کا مسکن۔ ان روز و شب کا رازدار جنہیں جاننے کی خواہش ہر دل میں رہتی ہے اور جن کی کچھ باتیں قائد اعظم کے معالجین ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض الحق نے بیان کی ہیں۔
شمالی بلوچستان میں 8343 فٹ بلند یہ پہاڑی قصبہ نما شہر زیارت سردیوں میں شدید سرد اور گرمیوں میں خوشگوار موسم رکھتا ہے۔ اس علاقے میں ایک بزرگ بابا خرواڑی کا مزار ہے جس کی زیارت کے لیے لوگ ادھر آیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے قصبے کا نام زیارت پڑ گیا۔ دنیا میں صنوبر (Juniper) کے درختوں کا دوسرا بڑا جنگل اسی علاقے میں ہے۔ صنوبر کا درخت صبر کا درخت کہلاتا ہے۔ اس لیے کہ بہت کم پانی کے ساتھ بھی زندہ رہ سکتا ہے اور لمبی عمر پاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ صنوبر سو سال میں صرف ایک سے تین انچ بڑھتا ہے اور ان درختوں کی عمریں سینکڑوں نہیں ہزاروں سال ہوتی ہیں۔ سو اس جنگل کے درخت بھی ہزاروں سال پہلے کے عینی شاہد ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کے عینی شاہد جو اس لمحے میں زندہ بھی ہوں، رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ اس دن سرخ اور عنابی چیری سے لدے درختوں کی چھاؤں میں بچھے صوفے پر بیٹھے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ایک صنوبر ان منتظمین نے بھی لگایا ہے۔ صبر کا وہ درخت جو کم پانی کے ساتھ بھی زندہ رہتا ہے اور جس کی عمر طویل ہوتی ہے۔ نسل در نسل اس سے فیض حاصل کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک شخص یا کچھ افراد تو ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں بیج ڈالا جاتا ہے یا پودا لگایا جاتا ہے۔ پھر وہ درخت پلتا، بڑھتا ہے، صبر کے موسموں سے گزرتا ہے اور بالآخر اس کی چھاؤں اور اس کا میٹھا پھل، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگتا ہے۔
کہانی کم و بیش 35 سال پہلے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاالحق قائد اعظم ریزیڈنسی، زیارت میں کچھ وقت گزارنے کے لیے ادھر آئے۔ اس علاقے کی پسماندگی نے انہیں افسوس سے بھردیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں تعلیمی سہولیات بہت کم ہیں۔ ضیا صاحب نے حکم دیا کہ یہاں قائد کی یاد میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے۔ اس کے لیے 86 ایکڑ کی جگہ مختص کردی گئی۔ تھوڑی مدت میں عمارت کی تعمیر کردی گئی لیکن اس کا آغاز نہ ہوا تھا۔ انہی دنوں ضیاالحق صاحب طیارے کے حادثے میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جیسا کہ ہوا کرتا ہے، معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ عمارت کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ بے آباد، بے مکین اور بے نشان۔ برس ہا برس اسی طرح گزرے پھر ایک صاحبِ دل پاکستانی جنہیں لوگ عبدالکریم ثاقب کے نام سے جانتے تھے، تعلیم کے میدان میں کچھ کر گزرنے کے جذبے کے ساتھ بلوچستان آئے۔ وہ اس وقت کے گورنر امیرالملک مینگل سے ملے۔ اپنا ارادہ اور خاکہ بیان کیا۔ گورنر صاحبِ دل تھے، انہیں خیال آیا کہ زیارت میں ایک تعلیمی ادارے کی عمارت سنسان پڑی ہے۔ مختصر یہ کہ عمارت ثاقب صاحب کے حوالے کر دی گئی۔
ایک منٹ یہیں ٹھہریے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے ان مشکلات کا جو اس لق و دق ویرانے میں ایک تعلیمی ادارہ بنانے میں پیش آسکتی ہیں؟ زیارت بلوچستان کے سرد ترین مقامات میں سے ہے جہاں چار ماہ موسم خوشگوار اور باقی آٹھ ماہ شدید سرد رہتا ہے۔ کوئٹہ سے قریب قریب ڈھائی گھنٹے کی مسافت ہے۔ سڑک جو اس لمحے بھی بس گزارے قابل ہے، سترہ سال پہلے کیا رہی ہوگی؟ اس ویرانے میں جہاں اس وقت بھی شہری سہولتیں کم کم اور خراب حالت میں ہیں، اس وقت خراب تر ہوں گی۔ اگر تعلیمی ادارہ بنا بھی لیا جائے تو یہاں پڑھانے کون آئے گا؟ قابل اساتذہ کہاں سے آئیں گے؟ مل بھی جائیں تو طلبا اور اساتذہ کی رہائش کا انتظام کیسے ہوگا‘ اور ان سب سے بڑا سوال یہ کہ ان تمام اخراجات کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ زمین اور عمارت ایک بنیادی اور بڑی سہولت سہی، سب یہ کچھ نہیں ہوتے۔ تو یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ سوال بڑے تھے اور بہت اہم۔
لیکن عزم، ارادہ اور استقامت پہاڑچیر کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کام کیلئے اکٹھے ہوئے اور بے وسائل ہی آغاز کردیا۔ خاکہ یہ بنایا کہ بلوچستان کی ہر تحصیل اور ہر ضلع سے دو دو لائق طلبا جو نادار گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے والدین میں تعلیمی اخراجات کی سکت نہیں، منتخب کیے جائیں۔ اس انتخاب کی بنیاد ایک ٹیسٹ ہے۔ ادارے کی اپنی گنجائش کے مطابق منتخب طلبا کی مختصر تعداد جو سو سے زائد تھی، یہاں کیمپس میں اکٹھی کی گئی۔ یہ ایک منی بلوچستان تھا‘ جس میں نہایت دور دراز ضلعوں، اور پسماندہ علاقوں کے بچے اکٹھے ہوگئے۔ اس ادارے کے تین بنیادی مقاصد اور نعرے تھے: انسانیت، اسلامیت اور پاکستانیت۔ اس دور میں جہاں ہر تعلیمی ادارہ پیسے کمانے کے نئے منصوبے لے کر اٹھتا ہے اور طالب علموں کو پیسے کمانے کے نئے منصوبے سجھاتا ہے، ایسے اداروں کا وجود بہت غنیمت ہے جو معاشرے کے لیے تعلیم اور تربیت کا انتظام کرتے ہیں۔ تین مقاصد کے لیے اس ادارے نے طلبا میں تین زبانوں کو بیک وقت فروغ دیا۔ اردو، عربی اور انگریزی۔ ان تین زبانوں میں اس عمر میں طلبا کی دسترس قابل تحسین ہے۔
ہم اسمبلی کے چبوترے پر کھڑے تھے۔ ہمارے سامنے ایک جیسی یونی فارم میں ملبوس طلبا اپنے نظم و ضبط اور تربیت کا عملی مظاہرہ کر رہے تھے۔ سترہ سال میں اس ادارے نے جو طلبا پیدا کیے ہیں ان کی تعداد اب سینکڑوں میں ہے۔ ہم فوج میں حاضر سروس میجر، سول سیکرٹریٹ کے سیکشن آفیسر، میڈیکل یونیورسٹیز کے ڈاکٹرز کی باتیں سن رہے تھے۔ یہ سب یہیں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ انسان مشکل دور سے نکل آئے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا‘ لیکن ان نوجوانوں میں ایسا نہیں۔ انہیں اپنے مقاصد بھی یاد ہیں اور اپنا ادارہ بھی۔ وہ اس میں گزرا ہوا وقت نہیں بھولے اور نہ انہوں نے یہ فراموش کیا ہے کہ اس ادارے نے ان کی زندگیاں بدل دینے میں کیا کردار ادا کیا تھا۔ اب وہ ان طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے لیے موجود ہیں جو بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ جو کچے کوزوں کی طرح ابھی چاک پر ہیں۔ یہ چاک کس طرح بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے، اب منتظمین اور اساتذہ کے ساتھ مل کر وہ یہ ضروری کام انجام دے رہے ہیں۔میں سکول کی بالائی منزل پر کھڑا پہاڑوں اور جنگلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خنک کوہستانی ہوا پہاڑوں سے چلتی ہوئی آئی اور میرے رخسار سے مس ہوئی۔ مجھے اقبال یاد آئے:
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی
خاموشی و دل سوزی؟ یہ نہ ہوں تو انسانیت، اسلامیت اور پاکستانیت کے خواب کون دیکھے؟ یہی تو اس کے بانی، منتظمین اور اساتذہ کی روح رواں ہیں۔ میں نے سوچا، یہ ادارہ بھی صنوبر کا ایک نایاب جنگل ہے۔ اپنی قسم کا واحد۔ صبر کا درخت۔ بس فرق یہ ہے کہ صنوبر سال میں بہت کم نشوونما پاتا ہے لیکن اس کی تعمیر و ترقی تیز رفتار ہے۔ ہر سال یہ اپنا قد بڑھا لیتا ہے۔ غالب نے کہا تھا:
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دل کش سے جو گلزار میں آوے