''ہمیں ساری عمر اس بات کا افسوس رہے گا کہ کینیڈین حکومت نے انٹاریو کے شہر لندن میں سڑک کنارے واک کرتی ہوئی مسلم فیملی کے ان چار افراد‘ جو'' غلطی سے‘‘ ایک ٹرک کے نیچے آ کر کچلے گئے تھے‘ کی تدفین کرتے ہوئے ان کی لاشوں کو کینیڈا کے قومی پرچم میں کیوں لپیٹا۔ اگر کسی کو ان سے زیا دہ ہمدردی تھی تو انہیں ان کے ملک کے پرچم میں لپیٹ دیتا لیکن کینیڈا کے قومی پرچم میں ان کی میتیں لپیٹ کر اعزاز کے ساتھ دفنایا جا نا کسی طور بھی منا سب نہیں‘ اس طرح ان کو خواہ مخواہ قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا‘‘۔ یہ ہے وہ تبصرہ جو گزشتہ دنوں کینیڈا میں ''اسلامو فوبیا‘‘ کا شکار بننے والی فیملی کی کینیڈین پرچم میں تدفین کے حوالے سے کینیڈا میں مقیم بھارتی کمیونٹی کے افراد کی جانب سے سامنے آیا۔ دنیا کے ہر کونے سے مقتول مسلم فیملی سے اظہارِ ہمدردی کیا گیا، اگر کوئی بیان سامنے نہیں آیا تو بھارت سے نہیں آیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوتوا کے پرچاروں کو ان بے گناہ افراد کی شہادت پر کسی قسم کا دکھ اور افسوس نہیں ہوا بلکہ بجائے اس کے کہ وہ متاثرہ فیملی سے تعزیت کرتے‘ الٹا اس لئے سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں کینیڈا کے قومی پرچم میں کیوں لپیٹا گیا؟ یہ واویلا، احتجاج اور مسلم معاشرے اور مذہب سے نفرت کی انتہا کینیڈا میں مقیم بھارتیوں کو کانٹوں پر لٹائے ہوئے ہے اور ہندوتوا کے لیڈر ران بینرجی کی اپیل پر کینیڈا میں مقیم بھارتی اس بیس سالہ ٹرک ڈرائیور‘ جس کی شناخت Nathaniel Vetman کے نام سے ہوئی‘ کیلئے چندہ اکٹھا کرنے میں لگے ہیں تاکہ وہ اپنے مقدمے کی بھرپور طریقے سے پیروی کر سکے۔ بھارت کی یہ ہندوتوا تنظیم کینیڈین عوام سے بھی اپیل کر رہی ہے کہ ماری گئی مسلم فیملی کیلئے آپ لوگ جو فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں‘ دراصل یہ نوجوان ٹرک ڈرائیور کی حوصلہ شکنی ہے۔
کینیڈین وزیراعظم نے اس واقعے کے فوری بعد ٹی وی پر اپنے دلی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مذہبی منافرت کینیڈا میں کیوں اور کیسے پروان چڑھ رہی ہے۔ اب جس شدت اور منصوبہ بندی سے بھارتی کمیونٹی اور ہندوتوا کے پرچارک کینیڈین ٹرک ڈرائیور کے حق میں آوازیں اٹھا رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ اس بیس سالہ نوجوان کا کہیں نہ کہیں اُس انتہا پسند ہندوئوں کے ٹولے سے رابطہ اور تعلق رہا ہے جو مذہبی منافرت کو ہوا دینے کیلئے ہمیشہ سر گرم رہتا ہے۔ ران بینرجی کے ٹویٹس اور اس کا وٹس ایپ گروپ ملزم کی حمایت میں سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ چلا رہا ہے‘ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کینیڈا کے تمام تفتیشی اداروں اور حکومت کو اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ اس ٹرک ڈرائیور کی گزشتہ چند ماہ سے مصروفیات کیا تھیں؟ اس کا زیادہ وقت کن لوگوں کے ساتھ گزر رہا تھا؟ اس کے موبائل فون کی فرانزک تحقیقات سے یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی شامیں کہاں گزرتی رہیں‘ کون لوگ اس سے سب سے زیادہ رابطے میں رہے اور یہ نوجوان کس تجارتی ادارے سے منسلک تھا۔
کینیڈا کے شہر لندن میں مسلم فیملی کو قصداً ٹرک تلے کچل کر ہلاک کرنے کے بہیمانہ اور وحشیانہ عمل کے خلاف جہاں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سمیت سول سوسائٹی کے لوگ سراپا احتجاج ہیں‘ وہیں کینیڈا میں بسنے والی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جو ٹرک ڈرائیور کی حمایت میں ریلی نکالنے کیلئے اعلانات کر رہی اور ویب سائٹ پر اشتہارات دی رہی ہے۔ یہ کمیونٹی سوائے ہندوتوا کے پرچاروں اور انتہا پسند بھارتیوں کے اور کون ہو سکتی ہے؟ ہندوتوا کی بے حسی اور مسلم معاشرے کیلئے اس کے دل میں گندھی نفرت اور دشمنی کا اندازہ اس امر سے کیجئے کہ سوشل میڈیا پر بھارت کے اس جنونی گروپ نے اُدھم مچا رکھا ہے اور ٹرک ڈرائیور کے اس وحشیانہ عمل‘ جسے کینیڈا کی پولیس نے جان بوجھ کر قتل قرار دیا ہے' کو ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کیلئے دن رات ایک کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے انتہا پسندوں پر مشتمل اس گروپ نے ران بینر جی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس ٹرک ڈرائیور کی آئندہ زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہے کہ اسے ایک عام حادثے سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔
ایک جانب ہندو تنظیمیں کچلے گئے افراد کے قتل کو اتفاقی حادثہ قرار دینے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے تو دوسری طرف کینیڈین پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقات کے بعد بتا دیا ہے کہ ان چاروں بے گناہوں کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا کیونکہ کینیڈین پولیس کو سی سی ٹی وی کی فوٹیج اور جائے وقوعہ سے کچھ فاصلے پر موجود ایک خاتون کار سوار کی گواہی سے جو کچھ علم ہوا‘ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس فیملی کے چاروں افراد کو باقاعدہ منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔ واضح رہے کہ خاتون کار ڈرائیور کی گواہی کا باقاعدہ سائنٹیفک طریقے سے انتہائی باریک بینی اور ہر ایک پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا گیا۔ پولیس سراغ رسانی کے افسر کے مطابق ٹیکنیکل زبان میں یہ ایک ٹارگٹ کلنگ تھی۔ سراغ رساں ادارے کے سپرنٹنڈنٹ پال ویٹ کا کہنا تھا:
There is evidence that this was a planned, premeditated act.
ہندوتوا کا اس ٹارگٹ کلنگ کو اتفاقی حادثہ قرار دیے جانے کا فلاپ بیانیہ ٹرک ڈرائیور کی گرفتاری کے وقت اس کی جامہ تلا شی کے بعد اپنی موت آپ مر جاتا ہے کیونکہ اس ٹرک ڈرائیور کو جب جائے وقوعہ سے لگ بھگ چارکلو میٹر دور ایک شاپنگ مال کی پارکنگ سے گرفتار کیا گیا تو وہ ''باڈی آرمر‘‘ پہنے ہوئے تھا۔ اپنی زندگی کا کچھ حصہ تفتیشی ادارے میں گزارنے کے بعد بحیثیت ایک پولیس افسر‘ میرے ذہن میں بھی کچھ سوالات آتے ہیں‘ کیا اس سے پہلے بھی ملزم ''باڈی آرمر‘‘ پہن کر ٹرک چلاتا رہا ہے؟ کیا کینیڈا میں دوسرے ٹرک ڈرائیور بھی یہ باڈی آرمر پہن کر سڑکوں پر آتے ہیں؟ یہ باڈی آرمر اس نے کب اور کہاں سے خریدا اور اس کو خریدنے کا مقصد کیا تھا؟ اس ٹارگٹ کلنگ سے کتنا عرصہ پہلے تک وہ باڈی آرمر پہنتا رہا ہے؟ اسے کسی نے اس دن کے لیے تو یہ پہننے کا مشورہ نہیں دیا تاکہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچ سکے؟ اس طرح کے سوالات کا جواب تلاش کیا جائے تو پتا چل سکے گا کہ اس پلاننگ میں اور کون کون شامل تھا اور یہ کہ مسلم فیملی کو کچلنے سے پہلے اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ اس واقعہ کو اگر ایک نوجوان کا انفرادی فعل سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تو خدشہ ہے کہ مزید کئی افراد بھی ٹارگٹ کیے جائیں گے۔ چند افراد کو پکڑنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سوچ کا خاتمہ کرنا مقصود ہے جس کی وجہ سے کوئی نوجوان ایک بے گناہ فیملی کو قتل کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ مقتول مسلم فیملی کے متعلق پولیس اور تفتیشی اداروں کو یہ تو پتا چل چکا ہے کہ ہر اتوار کی شام کو یہ تین جنریشنز پر مشتمل گھرانا واک کے لیے نکلتا تھا اور ان کا یہی روٹ ہوتا تھا، تو کیا ان کی ٹارگٹ کلنگ کی پہلے سے ہی پلاننگ کی گئی تھی؟ سادہ سی بات ہے کہ ملزم کی اس زاویے سے بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ اس روٹ پر سے کس مقصد کے تحت گزر رہا تھا؟ کیا مال برداری کیلئے اس کا یہ روٹ بنتا ہے؟ ٹارگٹ کلنگ سے پہلے وہ کہاں سے آ رہا تھا؟ اس کی اگلی منزل اپنی ڈیوٹی یا اپنے کام کے اعتبار سے کون سی تھی؟
مذکورہ مسلم فیملی اپنی عادات و اطوار کی وجہ سے علاقے میں انتہائی عزت سے دیکھی جاتی تھی۔ ایک طرح سے یہ تین جنریشنز کا قتل ہے جس میں دادی، بیٹا اور پوتی شامل ہیں۔ یہ انتہائی تعلیم یافتہ اور سوشل فیملی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے بہیمانہ قتل کے بعد ان سے اظہارِ تعزیت کیلئے ہزاروں کی تعداد میں‘ ہر رنگ و نسل کے لوگ ان کی قتل گاہ سے قریبی مسجد‘ جس کا فاصلہ وہاں سے ساڑھے چار کلومیٹر تھا‘ احتجاجی مارچ کرتے ہوئے گئے۔ کینیڈین پولیس اور اس کے تمام سراغ رساں اداروں سے اس نوجوان ٹرک ڈرائیور کی گزشتہ تین ماہ کی مصروفیات کا جائزہ لینے کی اپیل اس لیے کی جا رہی ہے کیونکہ کچھ اطلاعات ہیں کہ ملزم کے فلیٹ سے اس ٹارگٹ کلنگ سے چند روز پہلے رات گئے عجیب قسم کی آوازیں سنائی دی تھیں جن کی تصدیق پاس پڑوس اور اردگرد کے رہائشی افراد نے بھی کی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ کسی معاملے پر فلیٹ میں موجود افراد میں لین دین پر کوئی بحث و تکرار ہو رہی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم فیملی کو قتل کرنے کے لیے ٹرک ڈرائیور محض ایک آلہ کار ہو اور پس پردہ کوئی اور لوگ ہوں۔