جون کے مہینے میں کئی عالمی دن منائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے دو بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا عالمی دن بچوں سے جبری مشقت کے خلاف یعنی اینٹی چائلڈ لیبر ڈے ہے اور دوسرا مہاجرین کا عالمی دن ہے۔ بچے‘ ان دونوں صورتوں میں استحصال کا زیادہ شکار ہوتے ہیں چاہے اس کو جبری مشقت کرنا پڑے یا انہیں جنگ اور بے امنی کی صورت میں دربدر ہونا پڑے۔ ان دونوں حالات میں بچے بہت زیادہ تکلیف اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی بچے کے لئے بچپن بہت خوشگوار ہونا چاہیے‘ اس کو اچھی خوارک‘ مناسب رہائش‘ کھلونے‘ کھیل کے مواقع اور اچھی تعلیم جیسی تمام بنیادی سہولتیں ملنی چاہئیں؛ تاہم بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بچے ان سہولتوں سے یکسر محروم ہیں۔ غربت اور زیادہ آبادی کے باعث چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام کاج پر لگادیا جاتا ہے اوریہاں سے شروع ہوتا ہے بچوں کے استحصال کا سلسلہ۔ بچپن میں ہی کام پر ڈال کر ان پراَن گنت مظالم کے پہاڑ توڑدیے جاتے ہیں۔
بچوں سے شدید مشقت والے کام لیے جاتے ہیں، ہم نے اپنے معاشرے میں بہت سی ورکشاپس، ہوٹلز، پٹرول پمپس اور دکانوں وغیرہ میں ''چھوٹوں‘‘ کو کام کرتے دیکھا ہو گا، درحقیقت یہ چھوٹے اپنے گھروں کے ''بڑے‘‘ ہیں۔ سارے گھر کی ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے بھی نظر آتے ہیں‘ دراصل یہ بھی ایک جبری مشقت ہے اور اس کے پیچھے ایک پورا مافیا ہے جو ننھے منے بچوں سے یہ کام کراتا اور پیسے کماتا ہے۔ یہ گروہ چند ٹکوں کی خاطر بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور بھی بنادیتا ہے۔ دوسرا مافیا وہ ہے جو بچوں کواغوا کرکے ان کے اعضا نکال کر بیچ دیتا ہے۔ ان مافیاز کا نشانہ زیادہ تر وہ بچے بنتے ہیں جو یتیم و بے گھر ہوں یا جو غربت کے باعث باہر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ بچے سڑکوں پر غبارے بیچتے ہیں، گلیوں میں نمکو‘پاپڑ‘ لچھے‘ گرم انڈے‘ قلفیاں اور بھٹے وغیرہ بیچتے ہیں، بازاروں میں گاڑیاں دھوتے ہیں، جوتے پالش کرتے ہی، ردی جمع کرتے ہیں، کھیتوں‘ کارخانوں میں کام کرتے ہیں، قالین بافی کی صنعت ہو یا اینٹوں کے بھٹے‘ بچوں کو غلام بناکر کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں بچے گھروں میں ملازم کے طور پر کام کررہے ہیں، یہ چائلڈ لیبر کی بہت عام اور نہایت سنگین قسم ہے کیونکہ اکثر گھروں میں ملازم بچوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے، کتنے ہی معصوم بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان سے سارا سارا دن کام کرایا جاتا ہے‘ کھانا بھی کم دیا جاتا ہے‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی‘ ان کو رہنے کی اچھی سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔ بات بات پہ ان کو مارا جاتا ہے‘ سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ماں باپ غربت کے باعث ان کو کام پر رکھواتے ہیں مگر مالک ان بچوں کو غلام بنالیتے ہیں۔ پاکستان کا امیر اور متوسط‘ دونوں طبقات اس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اکثر امرا اپنے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ان سے عمر میں چند سال بڑے بچے کو ملازمت پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ 24 گھنٹے کی بیگار ہے اور بچے کی ذرا سی غلطی پر اس کو ڈنڈوں‘ پائپوں اور بیلٹوں سے مارا جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ چند پیسوں کے عوض غریب لواحقین امیر مالکان کو معاف کر کے خون بہا پر راضی ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ریاست کا فرض ہے کہ ایسے جرائم پر مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوائے۔
مارپیٹ کے علاوہ اکثر بچے‘ بچیوں کو ورک پلیس پر جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ یقینا بہت بڑا جرم ہے۔بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق 2019ء سے 2020ء تک‘ بچوں سے زیادتی کے واقعات میں چار گنا اضافہ دیکھا گیا۔ کئی منظم گروہ بچوں کو دہشت گردی‘ سمگلنگ‘ چوری اور دیگر جرائم میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں بچوں کیلئے آواز اٹھانا ہوگی‘ ان کے لئے کام کرنا ہوگا‘ ان کیلئے تعلیم‘ صحت‘ رہائش اور اچھی زندگی کی سہولتوں کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کی زد میں ہے۔ یونیسف کے مطابق ان بچوں کی عمریں 5 سے 17 سال کے درمیان ہیں اور مشقت سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔ ویسے تو بچوں کا حق ہے کہ وہ اپنے بچپن کو بھرپور انداز میں گزاریں لیکن اگر ان کے والدین غریب ہیں اور ان کے پاس کھانے کو پیسے نہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ایسے بچوں کو سکول میں ہی کوئی ایسا ہنرسکھانے کا اہتمام کرے تاکہ بچے پڑھائی بھی کرلیں اور کچھ پیسے بھی کمالیں؛ تاہم یہ ہنر ایسا ہونا چاہیے کہ بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت پر اس کا اثر نہ پڑے۔ اگر حکومت یہ کام نہیں کررہی تو یہ کام ہم سب بھی کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ غربت کی وجہ سے آپ کے گھر آجائے تو اس سے کام کروانے کے بجائے اس کی اپنے بچے کی طرح پرورش کریں۔ اس کی تعلیم‘ خوراک‘ رہائش اپنے ذمہ لیں یا اس کو والدین کے ساتھ واپس بھیج کر اس کا وظیفہ مقرر کردیں۔ اس طرح ہم کتنے ہی بچوں کو جبری مشقت کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ بڑے بڑے سکولز شام میں ان بچوں کو مفت تعلیم دے سکتے ہیں‘ بڑے برانڈز کھانے پینے کی اشیا‘ لباس اور سٹیشنری بچوں کو مہیا کر سکتے ہیں، حکومت کے پاس ووکیشنل ادارے ہیں جہاں ان بچوں کو مفید ہنر سکھائے جا سکتے ہیں، ان کو کمپیوٹر سیکھانا چاہیے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی کو بہتر کر سکیں اور تمام عمر یونہی گھسٹ گھسٹ کر زندگی نہ گزاریں۔
جون میں مہاجرین کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، بہت سے لوگ جنگوں کی وجہ سے دربدر ہو جاتے ہیں اور ان کو دوسرے ملکوں میں پناہ لینا پڑتی ہے جس سے وہ بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ محفوظ جگہوں پر منتقل ہوتے ہوئے وہ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اکثر ممالک میں مہاجرین کو باڈرز پر ہی گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ پناہ گزینوں کو کمیپوں میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ترکی اور پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزین موجود ہیں اور یہ دونوں ممالک مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی جنگ سے متاثرہ افراد کو پناہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی پھر سے شروع کر سکیں۔اس وقت کورونا کی وبا میں دنیا بھر پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مہاجرین کی بحالی پر یکسوئی سے کام کرے، ان کی بحالی، خوارک اور رہائش کا مناسب اہتمام کرے۔ میرے نزدیک جو پناہ گزین پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘ ان کو فوری طور پر شہریت دے دینی چاہیے تاکہ وہ بھی میزبان ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور باعزت روزگار کما سکیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق‘ ہر منٹ تقریباً بیس افراد جنگ کی وجہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر ہوجاتے ہیں۔ کچھ مارے جاتے ہیں‘ کچھ خوش قسمت پناہ گزین کیمپوں تک پہنچ جاتے ہیں‘ کچھ اسائلم لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اندرونِ ملک بھی بے گھر ہو جاتے ہیں اور کچھ خانہ بدوش ہوتے ہیں‘ جن کا تعلق کسی قومیت اور ملک سے نہیں ہوتا؛ تاہم ان سب کو ایک اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے‘ جس کے تحت یہ اپنا کام کر سکیں، تعلیم حاصل کر سکیں، اپنی مذہبی سرگرمیاں ادا کر سکیں اور اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دے سکیں۔ اس وقت دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد پناہ گزین موجود ہیں جن میں سے آدھے بچے ہیں۔ جنگوں میں خاص طور پر بچے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ بم دھماکوں‘ بارودی سرنگوں میں ان کے اعضا ضائع ہو جاتے ہیں۔ غربت و افلاس کی وجہ سے وہ غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کا تعلیمی سفر رک جاتا ہے، وہ متعدد جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اے کاش کہ جنگیں اس دنیا سے ختم ہو جائیں اور ہر طرف امن ہی امن ہو۔ بچے اپنا بچپن بھرپور انداز سے گزاریں، ان کو تعلیم‘ صحت اور اچھی رہائش کی سہولتیں ملیں۔ ان کے پاس بم اور راکٹ کے خول نہیں‘ کھلونے ہوں اور وہ پڑھائی مکمل کرکے ایک اچھی زندگی بسر کریں۔ اگر ہر صاحبِ استطاعت شخص ایک ایسے بچے کا ہاتھ تھام لے جو جبری مشقت یا جنگ سے متاثرہ ہو اور اس کی بحالی پر کام کرے تو دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔