تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     26-06-2021

نئی سرد جنگ اور پاکستان

سب سے پہلے تو اس بات کا تعین ضروری ہے کہ سرد جنگ ہے کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا کی دو بڑی طاقتیں برطانیہ اور جرمنی تھیں۔ دونوں میں شدید مخاصمت اور مقابلہ تھا اور پھر بلقان میں ایک شرارہ پھوٹا اور پوری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آ گئی۔ اسے ہم پہلی عالمی جنگ کہتے ہیں۔ تو جس جنگ میں تیر و تفنگ استعمال ہوں اسے ہم گرم جنگ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے مقابلے میں وہ جنگ جو توپوں اور بندوقوں کے بجائے تجارت، جاسوسی اور پروپیگنڈا سے لڑی جائے وہ سرد جنگ کہلاتی ہے۔ ایسی ہی سرد جنگ گزشتہ صدی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین لڑی جاتی رہی۔ بہت سے ممالک اس کی لپیٹ میں آئے۔ ان ممالک کے داخلی اور خارجہ معاملات پر اس جنگ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جو یہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی خاصا عرصہ قائم رہے۔ ایک لحاظ سے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ سرد جنگ ختم ہونے کے تین دہائیاں بعد بھی یہ اثرات اب تک چلے آ رہے ہیں۔
یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ یہ سرد جنگ شروع کیسے ہوئی۔ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو دنیا میں دو نئی عظیم قوتیں ابھریں اور یہ تھیں امریکہ اور سوویت یونین۔ امریکہ ایک بڑی اقتصادی اور عسکری قوت کے طور پر ابھرا۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے۔ سوویت یونین رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور جلد ہی اس نے بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے۔ خلا نوردی کا پروگرام اس نے امریکہ سے پہلے شروع کیا۔ نظریاتی طور پر دونوں بڑی طاقتیں بالکل مختلف نظام فالو کر رہی تھیں۔ سوویت یونین سوشلسٹ نظام کے تابع تھا اور وہاں صرف ایک سیاسی جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی تھی‘ جس کا کہنا تھا کہ مکمل اقتصادی مساوات لائی جائے گی۔ یہاں معیشت ریاست کے مکمل طور پر تابع تھی۔ امریکہ آزاد معیشت اور جمہوریت کا علم بردار تھا۔
دونوں ممالک میں سخت مقابلہ تھا۔ سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے کئی ممالک اپنے زیر اثر کر لیے تھے۔ مغربی ممالک نے نیٹو کی عسکری تنظیم بنائی تو سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ساتھ مل کر وارسا پیکٹ بنا لیا۔ دنیا کے سیاسی اور اقتصادی ادارے بشمول اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں امریکی اثر و رسوخ واضح تھا۔ اس جنگ میں سی آئی اے اور کے جی بی میں شدید مقابلہ تھا۔ ویت نام اور افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین مد مقابل تھے‘ لیکن ڈائریکٹ جنگ دونوں کے درمیان نہیں ہوئی۔ دونوں نے شدید دشمنی کے باوجود ایک دوسرے پر بم نہیں برسائے، پراکسی جنگیں ضرور لڑیں۔ دونوں بڑے ملک ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ دونوں پوری دنیا میں اپنا حلقۂ اثر بڑھانے میں مصروف رہے۔ اسے ہم پہلی سرد جنگ کہہ سکتے ہیں جو 1990-91 میں سوویت یونین کے خاتمے پر اختتام پذیر ہوئی۔
اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو دنیا کی دو بڑی طاقتیں‘ امریکہ اور چین تھیں۔ دونوں میں مقابلہ بھی تھا اور تعاون بھی۔ گلوبلائزیشن کے تحت بے شمار امریکی کمپنیاں اپنا مال چین میں تیار کر رہی تھیں۔ امریکہ کا خیال تھا کہ چین کمیونسٹ اقتصادی نظام کو چھوڑ کر سرمایہ داری کی جانب آ گیا ہے تو جمہوریت کی طرف بھی راغب ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کا آغاز صدر ٹرمپ کے عہد میں ہوا‘ جب چین کی امریکہ کو برآمدات پر کسٹم ڈیوٹی دو گنا کر دی گئی۔ چار سو کے قریب چینی کمپنیوں پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ امریکہ سے ہائر ٹیکنالوجی پر مبنی اشیا درآمد نہیں کر سکتیں۔
نئی سرد جنگ کے بارے میں مبصرین کی آرا مختلف ہیں۔ چند ایک یہ کہہ رہے ہیں کہ سرد جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی۔ دنیا میں کسی جگہ امریکہ اور چین کے مابین پراکسی جنگ نہیں ہو رہی۔ امریکہ اور چین میں تجارت جاری ہے۔ جرمنی سالانہ ہزاروں کاریں چین کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ امریکہ کے دنیا میں سینکڑوں عسکری اڈے ہیں اور چین کے پاس صرف جبوتی میں ایک سہولت ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں سرد جنگ کے حوالے سے کوئی واضح صف بندی فی الحال نظر نہیں آتی۔
دوسری جانب متعدد مبصرین کہہ رہے ہیں کہ دوسری سرد جنگ کا طبل بج چکا ہے مگر اس کی آواز ابھی مدھم ہے۔ یہ سرد جنگ بحری طاقت اور ہائر ٹیکنالوجی کے گرد گھومے گی۔ امریکہ سائوتھ چائنا سی (South China Sea) میں اپنی بحری قوت بڑھا رہا ہے اور اس حوالے سے اصولی طور انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان کی حمایت حاصل کر چکا ہے۔ اس علاقے میں بالآخر بحری جھڑپیں بھی ہو سکتی ہیں گو کہ چین اور امریکہ دونوں ڈائریکٹ جنگ کے خلاف ہیں۔ اس سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سخت مقابلہ ہو گا۔ چین کی ہواوے (Huawei) کمپنی کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔
سوویت یونین کے سرد جنگ ہارنے سے لے کر منتشر ہونے تک کی وجوہات عسکری نہیں بلکہ اقتصادی تھیں۔ اس بات کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ سوویت یونین کی فی کس آمدنی امریکہ کے مقابلے میں 40 فیصد تھی۔ یہی وہ میدان ہے، جہاں چین نے بے مثال ترقی کی ہے۔ آج چین کی فی کس آمدنی امریکہ میں فی کس آمدنی کا 65 فیصد ہے اور چین میں ترقی کا سفر امریکہ سے تیز تر ہے۔ اب امریکہ کو یہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں چین آگے نہ نکل جائے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ بین الاقوامی منصوبہ (BRI) کئی مسلم ممالک تک جائے گا۔ ہمارا سی پیک بھی اسی بڑے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک یہ پروپیگنڈا زور و شور سے کر رہے ہیں کہ سنکیانگ میں اوگر (Uighau) مسلم اقلیت پر بڑے مظالم ہو رہے ہیں۔ میں دو مرتبہ سنکیانگ گیا ہوں‘ کاشغر کی گلیوں، بازاروں میں گھوما ہوں۔ وہاں بے مثال ترقی ہوئی ہے۔ 2016ء تک وہاں دہشت گردی کے واقعات ضرور ہوئے لیکن اب صورت حال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے، چینی حکومت سنکیانگ کے پس ماندہ صوبے کو کامیابی سے باقی ملک کے برابر لا رہی ہے۔ اس صوبے میں متعدد پروفیشنل انسٹیٹیوٹ کھولے گئے ہیں جہاں مقامی نوجوان ماڈرن ٹیکنیکل ہنر سیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مغربی ذرائع ابلاغ انہی اداروں کو عقوبت خانے بنا کر پیش کر رہے ہیں‘ مقصد چین کو مسلم ممالک میں بدنام کرنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیشنل ذرائع ابلاغ پر مغرب کا قبضہ ہے اور چین اس ضمن میں ابھی پیچھے ہے۔
مکمل کولڈ وار کا سماں فی الحال نظر نہیں آ رہا لیکن حالات اس جانب جا رہے ہیں۔ اگر پانچ یا دس سال بعد سرد جنگ عروج پر پہنچتی ہے تو پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں۔ ہمیں ایک بات کلیئر ہونی چاہیے کہ ہمارا مستقبل کا دوست چین ہے، امریکہ کی سٹریٹیجک پارٹنر شپ اب انڈیا کے ساتھ ہے، دونوں مل کر چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا ہمارا مستقبل چین کے ساتھ تعاون میں ہے۔ چین ہی ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہو گا البتہ امریکہ کے ساتھ فنکشنل تعلقات ضروری ہیں کیونکہ ہماری سب سے زیادہ برآمدات امریکہ جاتی ہیں وہاں سے ترسیلات زر بھی آتی ہیں۔ ہماری سفارت کاری کا بہت بڑا امتحان چند سالوں میں آنے والا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved