کشمیر جنت نظیردنیا کی ایک خوبصورت وادی اورپاکستان کی شہ رگ ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلی جموں و کشمیر کی ریاست تقسیم ہند کے وقت خود مختار تھی‘جس کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب‘ مغرب میں شمال مغربی سرحدی صوبہ اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی تھیں۔ جموں و کشمیر جموں‘ وادی کشمیر ‘ لداخ اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں منقسم تھا۔بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام آزادریاست کا کیپٹل مظفر آباد ہے۔یہ وادی اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے جبکہ لداخ جسے''تبت صغیر‘‘بھی کہا جاتا ہے اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث مشہور و معروف ہے۔ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو‘ بدھ اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔
مسلم اکثریتی کشمیر کا فیصلہ تقسیم ہند کے اصول کے تحت اکثریت آبادی کی بنا پر ہونا ہے لیکن سیاسی تنازعات اور مہاراجہ کشمیر کی بھارت کے ساتھ ساز باز نے اخلاقی اور بنیادی حق خود ارادی کو الجھا دیا‘ مگر مہاراجہ کشمیر کی ساز باز اور بھارتی قبضے کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں عوامی تحریک آزادی بدستور جاری ہے جس میں اب تک لاکھوں‘جانوں اورعصمتوں کی قربانی دی گئی۔ قربانیوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین سب سے بڑے تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف تقسیم ہند کے اصولوں پر مبنی ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث یہ اس ریاست کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے۔ کشمیری عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے جبکہ بھارت
بزورقبضے اور فوجی طاقت کے ذریعے اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے‘ مگرعلاقہ عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ اور دیگر بڑی اور اہم عالمی تنظیموں نے کشمیریوں کے حق ِآزادی کو تسلیم کیا ہے اور سلسلے اپنی ثالثی کی پیش کی ہے۔پاک وہند کے بچے بچے کے ساتھ پوری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر مسئلہ کشمیرحل ہوجاتا تو شایددونوں ہمسایہ ممالک کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کی جگہ دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ سرحد کے دونوں پار عوامی فلاح وبہبود پر خرچ ہورہاہوتا لیکن موجودہ حالات میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے دفاعی ضروریات کوپورا کرنا اشد ضروری ہے۔ پاکستان تو شروع دن سے ہی امن کاخواہاں ہے اورہم نے ہمیشہ مذاکرات میں پہل کی لیکن دوسری طرف مکار ہندو ذہنیت کونہ تو اپنے عوام کا سکون چاہئے اورنہ ہی خطے کے امن سے کوئی غرض ہے۔ یوں تو تقسیم ہند سے لے کر آج تک کسی بھی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق کاخیال نہیں رکھا‘ وہاں گردنیں کٹتی ہی رہیں اورعصمتیں لٹتی ہی رہیں مگر موجودہ مودی سرکار نے تونہ صرف مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑ دیے بلکہ کشمیر کی الگ ریاستی حیثیت کے آرٹیکل 370 کوختم کرکے وادی جموں وکشمیر کے مقبوضہ علاقے کو غیرقانونی طور پر بھارت کاحصہ بنانے کی ناکام کوشش کی‘ جس کانتیجہ گزشتہ دو سال سے کشمیری عوام بھگت رہے ہیں۔ ظالم مودی حکومت اقتدار سنبھالنے سے لے کر اورخصوصاً گزشتہ دو برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی طورپر اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس آبادی کی اکثریت کو تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہے مگر اسے کامیابی نہیں مل رہی اورنہ ہی کشمیری عوام اپنے حق سے دستبردار ہونے کوتیار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں خوراک کی شدید قلت ہے‘ لوگ گھروں سے دوائی لینے کیلئے بھی نہیں نکل سکتے‘ مگر اب خود بھارتی فوج بھی تنگ آچکی ہے اور کئی بھارتی مذاکرات کے ذریعے خطے کے پرامن حل کی بات کر چکے ہیں مگر مودی سرکار اپنی تباہ شدہ سیاسی ساکھ بچانے کیلئے کوئی محفوظ راستہ چاہتی ہے۔
سرحد کی اُس جانب بھارتی حکومت کا ظلم و تشدد عام ہے جبکہ سرحد کے اس پار پاکستان کے زیرانتظام آزاد ریاست جموں وکشمیر کے عوام نہ صرف خوشحال زندگی گزاررہے ہیں بلکہ اب یہاں کرکٹ کا ایک بہت بڑا میلہ بھی سجنے کوتیار ہے۔کشمیر پریمیر لیگ(کے پی ایل) کی تیاریاں مکمل ہیں۔آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کا کرکٹ سٹیڈیم دنیا بھر سے کرکٹ کے ستاروں کی میزبانی کے لیے خوبصورتی سے سجایا جارہاہے ‘ چھ سے سولہ اگست تک دنیا آزادکشمیر سے براہ راست کرکٹ میچز دیکھے گی جس سے دنیا میں ایک واضح پیغام جائے گاکہ سرحد کے اُس پار انڈیا نے کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن کررکھاہے جبکہ اِس پار امن‘ سکون اورسلامتی ہے۔یہ بات بھی بھارتی سرکار کے لیے بہت پریشان کن ہے اورانہیں سمجھ نہیں آرہی کہ نام نہاد جمہوریت کے پیچھے اپنے مکروہ چہرے کوکیسے چھپائیں کیونکہ کے پی ایل کے کامیاب انعقاد سے مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں بہتر طور پر اجاگر ہوگا اور بھارتی حکومت کااقدام مزید تنقید کا نشانہ بنے گا۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے اس پریشانی کے عالم میں اگلے روز دہلی میں کشمیری قیادت کی ایک نام نہاد اے پی سی بلائی جس میں مودی نے صرف انہی پارٹیوں کومدعو کیا جن سے انہیں حمایت کی کچھ توقع تھی مگر مقبوضہ کشمیر کے14 سیاسی رہنمائوں کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ یہ بیٹھک بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی‘ کشمیری قیادت نے مودی سے آرٹیکل 370کی بحالی کا مطالبہ کیا اور محبوبہ مفتی نے مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا۔یوں بھارت کا یہ ڈرامہ بھی فلاپ ہوگیا۔ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں شرکا نے آرٹیکل 370کے خاتمہ پر بھارتی وزیر اعظم پر خوب تنقید کی ‘ جس پر نریندر مودی نے کہا کہ مناسب وقت پر مقبوضہ وادی کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔اے پی سی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ پانچ اگست 2019ء سے مقبوضہ کشمیر کی عوام تکلیف میں ہیں‘ بی جے پی نے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کی جدو جہد کی‘ مگر کشمیری بھی ریاستی حیثیت بحال کروا کر دم لیں گے۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ مقبوضہ وادی میں بسنے والوں کے معاشی حالات بہتر ہوں۔مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی تک لڑائی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور رہے گا‘ دوست بدلے جاسکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے مودی سرکار کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370کے خاتمہ سے دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کیوں ختم کی گئی ‘ اس اقدام سے بھارت کوکوئی فائدنہیں ہوا۔اس میٹنگ میں مقبوضہ کشمیر کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے 14 رہنما شریک تھے جبکہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی موجود تھے۔ مودی سرکار نے کشمیری قیادت سے مقبوضہ وادی میں نام نہادڈھونگ انتخابات کے لیے تعاون کرنے اپیل کی جو کشمیریوں نے مسترد کردی۔
یہ بات توواضح ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بری طرح پھنس چکاہے اور اب وہ دن دور نہیں جب مسئلہ کشمیرحل ہوگا اورکشمیریوں کو آزادی نصیب ہوگی ‘تاہم اس مقصد کے جلد حصول ‘ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حوصلہ افزائی اوربھارتی سرکار کی پریشانی میں مزید اضافہ کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو کشمیرپریمیرلیگ کی کامیابی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئیں اورجس طرح اس ایونٹ کوپاک فوج نے سراہاہے اسی طرح تمام فریقین کواس کی کامیابی کیلئے دن رات ایک کردیناچاہئے تاکہ دنیا میں پرامن آزادکشمیر کا واضح پیغام پہنچ سکے اوربھارت بھی کشمیریوں پرگولیاں برسانے کی بجائے وہاں آزاد ریاستی حیثیت بحال کرنے پرمجبورہوجائے۔