تبدیلی کے دعووں کی بھرمار دکھائی دی تھی مگر کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ کوئی تبدیلی آئے بھی تو تب کہ جب نیتوں میں اخلاص ہو اور کام کرنے کی لگن بھی توانا ہو۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر اہم معاملے کو دلاسوں اور آسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ معاشرے کے ایک بڑے حصے کے سَر پر قیامت گزرتی ہے تو گزر جائے۔ جن کے کام چل رہے ہیں اُنہیں کسی کی پروا کب ہے؟ وہ صرف اُس وقت جاگتے ہیں جب خرابیٔ حالات کے ریلے اُن کا رخ کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں قوم کے معاملات ہیں اُن کے مفادات کی کشتی جب بھنور میں پھنستی ہے تب کچھ کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ تب تک اطمینان رکھا جائے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔
گزشتہ برس بارش نے ایسی تباہی مچائی تھی کہ کراچی واقعی غرقاب ہوگیا تھا۔ لوگوں نے پہلی بار دیکھا کہ ''شہری سیلاب‘‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ شہر کا شہر آسیب زدہ ہوچلا تھا۔ جولائی میں ایک دن تو ایسی بارش ہوئی تھی کہ لوگوں کو گھر واپس پہنچنے میں دس سے پندرہ گھنٹے لگے۔ سڑکیں پہلے تالاب ہوا کرتی تھیں‘ انتہائی بارش نے ایسی قیامت ڈھائی کہ تالاب نما سڑکوں کو دریا کی شکل اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ شہر کی حالت ایسی تھی کہ ملک بھر کے لوگ دیکھ دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود شہر کے مکینوں پر کیا گزری ہوگی۔ اور حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اہلِ کراچی پر تو اب تک گزر ہی رہی ہے۔ شہر کو بارش کے ہاتھوں تباہی سے دوچار دیکھنے کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف نے آکر شہر کے مکینوں کو عمومی طور پر اور کاروباری برادری کو خصوصی طور پر یقین دلایا تھا کہ کراچی کے حالات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے گی۔ برساتی نالوں کی صفائی نہ کیے جانے سے شہر سیلاب کی نذر ہوا تھا۔ یقین دلایا گیا تھا کہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ بہتر بنانے کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے 1100 ارب روپے کے ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ اہلِ شہر اب تک اس پلان کے درشن کے منتظر ہیں۔ اس پلان کے تحت جو کچھ کیا جانا تھا اس کی اب تک ابتدا نہیں ہوئی۔ شہر بھر کے برساتی نالوں کی صفائی تاحال ممکن نہیں بنائی جاسکی۔ کہیں اگر تھوڑی بہت صفائی کی بھی گئی ہے تو کچرا نالوں کے باہر ہی پھینک دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماحول مزید آلودہ ہوگیا ہے۔ رواں مالی سال کے یہ آخری لمحات ہیں اس لیے بعض علاقوں میں خاصی تیزی سے سرکاری منصوبے مکمل کیے جارہے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ فنڈز ٹھکانے لگادیئے جائیں۔ اس تیز رفتاری نے شہریوں کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ کہیں سڑکیں ادھیڑ دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں گاڑیوں کا گزرنا دشوار ہوگیا ہے اور پورے ماحول میں دُھول ہی دُھول دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورتِ حال شہریوں کو الجھنوں سے دوچار کر رہی ہے۔ کراچی بھر میں مسائل جوں کے توں ہیں۔ پانی کی موثر فراہمی کا مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ واٹر ٹینکر مافیا نے شہریوں سے یہ بنیادی ضرورت بھی چھین لی ہے۔ چند علاقوں میں پانی غیر معمولی مقدار میں دیا جارہا ہے اور باقی شہر کا یہ حال ہے کہ لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن جیسے نظر انداز کردیے جانے والے مضافاتی علاقوں میں بارہ پندرہ دن میں صرف ایک بار اور وہ بھی ایک ڈیڑھ گھنٹے کیلئے پانی دیا جاتا ہے! لوگ ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ واٹر ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے۔ اس کی تو پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہے۔
کراچی میں اب تک بجلی کی فراہمی کے نظام کو بھی درست نہیں کیا جاسکا۔ کئی علاقوں میں روزانہ تین بار ڈھائی ڈھائی گھنٹے کیلئے بجلی بند کردی جاتی ہے۔ لوگ شدید گرمی میں بجلی کی بندش کا عذاب بھی سہتے ہیں اور بل بھی بڑی رقوم کے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ بجلی کی آٹھ آٹھ گھنٹے کی بندش کے باوجود بل وہی کے وہی آتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع کردی گئی ہے۔ صبح کے اوقات میں پریشر بہت کم ہو جاتا ہے۔ گیس کے کم پریشر سے پیدا ہونے والی الجھن دور کرنے کیلئے بہت سی خواتین رات گئے یا علی الصباح کھانا پکانے اور ناشتہ تیار کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم نہ ہونے کے باعث لوگ روزانہ کام پر جانے اور واپس گھر آنے میں غیر معمولی دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو موثر طور پر حل کرنے میں وفاق دلچسپی لے رہا ہے نہ صوبائی حکومت۔ ان کی چپقلش ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کراچی میں ملک بھر کے ہنر مند ہی نہیں آتے بلکہ ملک کے ہر علاقے سے لوگ آکر یہاں سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں شہر کاروباری اعتبار سے پُرکشش بنا رہتا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں کے فروغ پانے سے حکومت کو محصولات کی مد میں بھی سب سے زیادہ وصولی کراچی سے ہوتی ہے۔ اگر کراچی سے کماتے رہنا ہے تو لازم ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے‘ زیادہ سے زیادہ فنڈنگ کی جائے۔
کراچی کے مسائل حل کرنے سے صرف مقامی لوگوں کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے افراد بھی بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ کراچی میں غیر مقامی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ایک طرف رہائشی مسائل بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف بنیادی سہولتوں کے نظام پر دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں شہرِ قائد کے بنیادی مسائل کو تادیر نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے گزشتہ برس بارش کی تباہی کے بعد خصوصی طور پر کراچی کی کاروباری برادری کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس حوالے سے جو وعدے کیے گئے تھے اب اُنہیں عملی جامہ پہنانے کا وقت آگیا ہے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان اب عملی شکل میں سامنے آنا چاہیے۔ کراچی کو واقعی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ شہر کے مسائل انتہائی پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ مزید نظر انداز کرنے سے پورا شہر ہی داؤ پر لگ سکتا ہے۔ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہیں اس حقیقت ہی پر غور کرلینا چاہیے کہ قومی معیشت کیلئے کراچی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس شہر کے مسائل حل کیے جانے سے پورے ملک کے معاملات بہتری کی طرف جائیں گے۔ اعلیٰ ترین سطح پر یقین دہانیاں کرائے جانے کے باوجود کراچی کے معاملات درست کرنے پر توجہ نہ دیئے جانے کے باعث اہلِ کراچی کی مشکلات بھی بڑھتی جارہی ہیں اور اُن کی مایوسی کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔
شہر کی وسعت دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملات کو درست کرنا کسی بھی مرحلے میں آسان نہ ہوگا۔ ایک طرف بنیادی ڈھانچے کی کمزوری ہے اور دوسری طرف تجاوزات کا بازار گرم ہے۔ مختلف شعبے اب مافیا کی نذر ہوچکے ہیں۔ شہر میں بسنے والوں کو کم و بیش ہر معاملے میں شدید نوعیت کی ناانصافی کا سامنا ہے۔ شہر مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ معاشی ہی نہیں‘ معاشرتی تقسیم بھی بڑھ چکی ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ شہر میں ایسے لاکھوں باشندے ہیں جنہیں ہر معاملے میں انصاف سے محرومی کا سامنا ہے۔ شہر کی معاشی سرگرمیاں بھی عجیب رنگ اختیار کر چکی ہیں۔ مقامی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ وفاق کچھ سوچے‘ معاملات درست کرے اور کراچی کی حقیقی ترقی کی راہ ہموار کرے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص منصوبے کے تحت ایک طرف تو کراچی کے مسائل حل کرنے سے گریز کیا جارہا ہے اور دوسری طرف معاملات کو جان بوجھ کر مزید بگڑنے دیا جارہا ہے۔ شہر بھر میں تجاوزات اب تک قائم ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکام ایک خاص حد تک ہی درستی کر پائے ہیں۔ نالوں سے لوگوں کو اٹھادینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ شہر کے بہت سے علاقوں میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی عمارتیں موجود ہیں۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی درست کرنا بھی لازم ہے۔ شہریوں کو معیاری ماس ٹرانزٹ سسٹم بھی میسر ہونا ہی چاہیے تاکہ اُن کا یومیہ سفر اضافی تکلیف و اذیت میں اضافے کا باعث نہ بنے۔