تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     27-06-2021

امریکہ اور افغانستان کا مستقبل

افغانستان کو عظیم سلطنتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ 20ویں صدی میں اس وقت کی سپر پاور‘ روس‘ نے اس سرزمین کو فتح کرنا چاہا لیکن ناکام رہی بلکہ خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ 19ویں صدی میں اپنے وقت کی سپر پاور برطانوی سلطنت نے بھی اس خطے کو فتح کرنا چاہا، ناکام رہی۔ اس سے پہلے مغل حکمرانوں کو بھی اس خطے پر حکمرانی کے دوران مختلف چیلنجز کا سامنا رہا۔ ماضی کا سفر کرتے جائیں تو اس فہرست میں کئی اور سلطنتوں کے نام شامل ہوتے جائیں گے۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی‘ افغانستان پر حملہ کیا اور اس وقت کی طالبان حکومت کو شکست دی۔ اب وہ 20 سال بعد 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس نکال رہا ہے۔ امریکہ کی واپسی کسی کی ہار جیت پر ختم نہیں ہورہی۔ امریکی فوجوں کی واپسی سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اس کا نتیجہ صرف اموات کی صورت میں نکلتا ہے۔ طالبان کو اس جنگ میں جانی اور مالی نقصان ہوا۔ امریکہ نے بھی اس نقصان کو جھیلا۔ سب سے زیادہ عام افغان شہری اس جنگ سے متاثر ہوئے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کمزور ہوئے۔ دہشتگردی کے خلاف 20سال سے جاری جنگ میں پاکستان نے بھی بڑا جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ اب امریکہ اس خطے سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے تو ایسے میں نئے زمینی حقائق جنم لے رہے ہیں۔ طالبان امریکہ کی واپسی کو اپنی فتح سے تعبیر کر رہے ہیں۔ انخلا کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ مختلف علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کے اس مسئلے میں جتنے بھی فریق ہیں ان سب کے سامنے ایک ہی سوال کھڑا ہے۔ امریکہ کے خطے سے چلے جانے کے بعد کابل حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا ایک جواب تو کانگریس کی پچھلے ہفتے ہونے والی بریفنگ میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن اور امریکی فوج کے سربراہ مائیک مائیلی نے خود ہی دے دیا۔ لائیڈ آسٹن کہتے ہیں: امریکی افواج کے انخلا کے 2 سال بعد افغان خطے میں بین الاقوامی دہشتگرد زور پکڑ چکے ہوں گے۔ 2 سال بعد دہشتگرد تنظیمیں اتنی قوت رکھتی ہوں گی کہ امریکہ یا یورپ پر حملے کر سکیں۔ جنرل مائیک مائیلی نے بھی وزیر دفاع کی بات کی توثیق کی اور 2 سال بعد جنم لینے والے خطرے کی نشاندہی کی۔ اقوام متحدہ بھی کچھ ایسے ہی سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کر چکا ہے۔ مئی کے بعد سے طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان ایسا کیوں کررہے ہیں؟ اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں۔ ایک تو فتح کا احساس کہ ایک عظیم طاقت کو 20 سال جنگ کے بعد خالی ہاتھ خطے سے واپس بھیج دیا۔ دوسرا‘ طالبان دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کو بھی حملوں کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان اور خطہ دوبارہ عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔ اس کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ امریکہ اور عالمی طاقتیں‘ دونوں اس مقصد کیلئے مختلف لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ خطے سے فوجی انخلا کے بعد بھی اتنی موجودگی رکھی جائے جس سے یہاں ہونے والی پیشرفت پر مکمل نظر رہے۔ امریکہ کا بظاہر یہ سادہ سا مقصد انتہائی پیچیدہ ہے۔ امریکہ خطے میں اپنی موجودگی رکھنے کیلئے اڈے چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کا نام لیا جاتا رہا‘ لیکن وزیراعظم عمران خان اس ضمن میں واشگاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین ایسے کسی مقصد کے لیے نہیں دے گا۔ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے خلاف جنگ نہیں لڑیں گے‘ دوسرے آپشن استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے‘ افغانستان کے مسائل کا صرف سیاسی حل ہے، ورنہ سول وار کا خدشہ ہے، افغانستان میں سول وار سے پاکستان متاثر ہو گا جو امریکہ اور پاکستان کے حق میں نہیں، پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اثرورسوخ استعمال کیا۔ وزیراعظم پاکستان جنگ کو کسی مسئلے کا حل قرار نہیں دیتے اور مختلف فورمز پر انہوں نے افغان مسئلے کے سیاسی حل پر ہی زور دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان بھی کسی ملک یا فریق کا نام لیے بغیر پیغام دے چکے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد خطے میں کسی نے غیرملکی فوجوں کو اڈے فراہم کیے یا ان کی سہولت کاری کی تو انہیں دشمن تصور کیا جائے گا۔ اس تناظر میں خطہ ایک نئی کشمکش اور کشیدگی کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ جیت کے احساس سے سرشار طالبان پھر افغانستان پر اپنا اثرورسوخ چاہتے ہیں۔ اس کیلئے طاقت کو استعمال کرنے سے گریز بھی نہیں کریں گے۔ طاقت کے استعمال سے افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔
حالات یہ ہیں کہ باقاعدہ فوج رکھنے کے باوجود افغانستان میں طالبان سے لڑنے کیلئے مقامی رضاکاروں کو ہتھیار دئیے جا رہے ہیں۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر اشرف غنی کی مرضی سے یہ کام ہوا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابق سوویت مخالف اور طالبان مخالف قوتوں سے بھی صدر غنی ملاقات کر چکے ہیں اور انہیں طالبان کے خلاف افغان فوج کی حمایت اور مدد کی درخواست کی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے اپنے اندازوں پر نظرثانی کی ہے اور اب وہ سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت امریکی انخلا کے 6 ماہ کے اندر گر جائے گی جبکہ کچھ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغان حکومت 3 ماہ بھی نہیں نکال پائے گی۔
ایسی صورتحال میں افغان صدر اشرف غنی کے اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ افغان حکومت کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد کا لائحہ عمل طے کرنے سے متعلق افغان صدر اشرف غنی اور افغان اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ جمعرات کو امریکہ پہنچے۔ افغان سربراہان کے دورہ امریکہ کے موقع پر پوری دنیا کی نظریں ان کی امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات پر تھیں کیونکہ یہ ناصرف جوبائیڈن کی بطورِ صدر افغان رہنماؤں سے پہلی ملاقات تھی بلکہ اس ملاقات میں افغانستان کے مستقبل کا بھی لائحہ عمل طے ہونا تھا۔ ملاقات میں امریکی صدر نے کہاکہ افغانستان سے فوجی انخلا کا مطلب امریکہ افغان شراکت داری کا خاتمہ نہیں ہے‘ شراکت داری برقرار رہے گی۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی مدد میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی‘ ناصرف افغان فورسز کی حمایت بلکہ افغانستان کی اقتصادی اور سیاسی حمایت بھی جاری رہے گی‘ لیکن افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان شہریوں کو کرنا ہے۔ افغانستان میں کشیدگی کو روکنا بہت مشکل ہے لیکن امریکہ افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے جوبائیڈن کے اس فیصلے کو تاریخی دیا۔ افغان صدر نے کہاکہ امریکہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑ رہا بلکہ ہمارے مشترکہ تعلقات کا نیا باب شروع ہورہا ہے، جہاں ہماری پارٹنرشپ فوجی نہیں بلکہ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہوگی۔ ہم تمام مشکلات کا مقابلہ کریں گے۔ جنگ ختم کرنے کا طریقہ ہے کہ دشمن کو دوست بنالیا جائے۔ افغان اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہاکہ افغانستان میں قیامِ امن کیلئے اس وقت تک کوششیں جاری رکھنی چاہئیں جب تک طالبان تمام دروازے بند نہ کر دیں۔ آخری شخص کے مارے جانے تک جنگ جاری رکھنا کوئی حل نہیں۔ کیا ہم ہمیشہ لڑتے رہیں گے؟
افغان اور امریکی سربراہان کے درمیان ہونیوالی ملاقات سے متعلق واشنگٹن تھنک ٹینک، ویلسن سینٹر برائے ایشیا پروگرام کے سربراہ نے کہا کہ کابل یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ امریکی فورسز ملک سے جارہی ہیں؛ تاہم یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ طالبان کی جارحانہ کارروائیوں کے بعد فوجی انخلا جاری ہے۔ دوسری طرف طالبان تادم تحریر اس ملاقات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved