تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     27-06-2021

کاریزوں کے دیس میں

ہر شہر کی خوشبو دوسرے شہر سے جدا ہوتی ہے۔ کراچی کی نم آلود، سمندری مہکار لاہور کی میدانی، دریائی خوشبو سے الگ ہے۔ کوئٹہ کی خوشبو بھی الگ ہے۔ بنجر پہاڑوں، چٹیل میدانوں، ٹھنڈے صحراؤں، سیبوں کے باغوں سے ہوکر آتی بے نم کوہستانی خوشبو۔ نمی کہاں سے آئے کہ ہنہ جھیل بھی سوکھی پڑی ہے، بارشیں بھی نہ ہونے کے برابر ہوئیں اور برف باری بھی توقع سے کافی کم۔ سو لگتا ہے کہ کوئٹہ کی آب و ہوا میں صرف ہوا ہے۔ آب کا نام و نشان تک نہیں۔
یہ خشک خوشبو کوئٹہ ایئرپورٹ پر ایک زمانے بعد بغل گیر ہوئی تو کافی سال پیچھے لے گئی۔ بہت سال پہلے جب آخری بار کوئٹہ آیا تھا‘ تو اسی خوشبو نے استقبال کیا تھا۔ اب یہ کسی پرانے دوست کی طرح ملی تو جی خوش ہوگیا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ ہی نہیں کوئٹہ شہر بھی کافی بدل گیا ہے۔ عمارتیں، فلائی اوورز، نئی سڑکیں‘ نئے علاقے‘ بہت کچھ پہچان میں نہیں آتا لیکن وہ خدوخال جو کوئٹہ کے شہریوں کی مہمان نوازی اور گرمجوشی کی پہچان ہیں، وہی ہیں۔ بالکل نہیں بدلے۔ لاہور سے کوئٹہ کے سفر میں نامور کالم نگار جناب عامر ہاشم خاکوانی اور نامور صحافی غلام محی الدین ساتھ تھے اور ان کی پُرلطف ہمراہی نے سفر بہت خوشگوار بنائے رکھا۔ ایک تو جہاز دیر سے آیا‘ سو دیر سے روانہ ہوا۔ دوسرے تمام ایئرلائنز نے سفر میں کووڈ ایس او پیز کے بہانے ہر قسم کی خاطر تواضع سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ سو پی آئی اے پیچھے کیوں رہتی۔ پانی کی ایک چھوٹی بوتل ہی پر ٹرخا دیا۔ رات دیر سے فلائٹ کوئٹہ پہنچی تو دوست ہمارے منتظر تھے۔ ایئرپورٹ ہی سے زیارت کیلئے روانہ ہوگئے۔
سات آٹھ گھنٹے ہوگئے تھے گھر سے نکلے، سو کچلاک سے ہوتے ہوئے زیارت کراس کے علاقے تک پہنچے تھے کہ آنتیں قل ھواللہ پڑھنے لگیں؛ چنانچہ جب ایک روایتی بلوچی طعام گاہ پر گاڑیاں روکی گئیں تو میزبانوں کے بروقت فیصلے نے مسرور کیا۔ کھلے آسمان تلے بلند چبوتروں پر بچھے قالین اور لگے گاؤ تکیے آدھی تھکن ختم کردینے کے لیے کافی تھے۔ باقی تھکن بلوچی کھانوں خاص طور پر روش نے اتار دی۔ روش دنبے یا بکرے کے گوشت کا کھانا ہے۔ اسے بنانے کا خاص انداز ہے اور خاص لوازمات۔ مٹن کا ایک بڑا سا ٹکڑا جو خوب گلا ہوا ہوتا ہے لیکن مرچ مصالحے بہت کم‘ جیسے یخنی سی بنا کر ابال لیا جاتا ہے۔ پھر یخنی یا سوپ الگ پیالے میں پیش کیا جاتا ہے اور گوشت، بھنڈی یا کسی سبزی اور ماش کی دال کے ساتھ۔ ساتھ بلوچی روٹیاں اور نمکین لسی۔ کیا مزیدار کھانا ہے۔ روش ویسے تو پشاور اور کراچی میں بھی ملتا ہے لیکن ہر بار یہی محسوس ہوا کہ اس کھانے کے لیے بلوچستان کا ماحول اور آب و ہوا بھی لوازمات میں سے ہیں۔
کوئٹہ کا لفظ پشتو کے ایک لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں قلعہ۔ اس کا پرانا نام شال، یا شال کوٹ تھا۔1828 کے ایک یورپی سیاح کے مطابق مٹی کی دیواروں کا ایک قلعہ اور اس کے اطراف لگ بھگ تین سو مٹی کے گھروں کا جمگھٹ بس پورا شہر تھا‘ لیکن اس کی تاریخ بھی دلچسپ ہے جو پھر کبھی سہی۔ قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ افغان بارڈر پر پاکستان کے لیے ایک اہم شہر کی حیثیت اختیار کرگیا‘ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک اہم دروازہ بھی۔ ویسے بھی پاکستان کا واحد شہرہے جو بیک وقت دو سرحدوں کے قریب ترین ہے۔
زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی پہلی بار جانا ہوا۔ وہ یادگار عمارت جو قائد اعظم کے آخری دنوں کا مسکن رہی۔ دہشتگردوں نے اس کی علامتی اہمیت کے پیش نظر اسے خاص طور پر نشانہ بنایا لیکن اسے ہوبہو اسی انداز میں بناکر عوام کیلئے کھول دیاگیا ہے۔ یہ ریزیڈنسی خاموش ماحول میں اپنے آپ میں کھوئی ہوئی عمارت ہے۔ اس خاموشی کو توڑتی ہیں تو سیاحوں کی آوازیں یا خنک کہستانی ہوا کی سرگوشیاں۔ اس کے احاطے میں قدیم بلند قامت درخت ہیں جو بذات خود قابلِ دید ہیں۔ ریزیڈنسی اونچی کرسی والی دو منزلہ عمارت ہے۔ جب آپ کرسی کی سیڑھیاں چڑھ کر عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو زمینی منزل پر ڈرائنگ روم، کھانے کا کمرہ اور خدمت گاروں کے کمرے ہیں۔ بالائی منزل پر قائد اعظم کا ذاتی کمرہ‘ جو دراصل ایک سوئٹ کی شکل میں دو کمرے ہیں۔ قائد کے استعمال والے کمرے کے ساتھ ان کے معالج کرنل الٰہی بخش کا کمرہ تھا‘ جو ہر وقت دیکھ بھال کیلئے ساتھ موجود تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کا کمرہ۔ قائد کے ذاتی معتمد کا دفتر اور رہائشی کمرہ بھی اسی منزل پر ہیں۔ ایک دروازہ اس بالکنی کی طرف کھلتا ہے جو اس بلندی سے باہر کے سرسبز ماحول کو دل میں اتار دیتی ہے۔
ریزیڈنسی کے احاطے میں آنے والے راستے پر اب تعمیر نو کے ساتھ قائد کا ایک دھاتی مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے جو ہر لحاظ سے غیر موزوں اضافہ محسوس ہوا۔ اول تو یہ کہ اس عمارت کی حیثیت تاریخی ہے اور اسے قائد کے زمانے کے ماحول میں بحال کرنا مقصد تھا تو اس مجسمے کی کیا ضرورت تھی؟ اصل حالت میں رہنے دیتے۔ پھر یہ مجسمہ جو دراصل بالائی دھڑ پر مشتمل ہے مجسمہ سازی کا بھی بھدا نمونہ ہے۔ مجسمے کے چہرے پر جس تکلیف کے آثار ہیں وہ دیکھ کر تکلیف ہوئی‘ فنی لحاظ سے بھی برا انتخاب ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مجسمہ سازی ایک متنازعہ فن ہے۔ خود علامہ اقبال نے اسے پسند نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ انہی اقبال کا اپنا مجسمہ ان کی تعلیمات کے بر خلاف الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں جبریہ لگا کر اس کارنامے پر باقاعدہ ناز کیا گیا۔ بلوچستان اور کے پی کے جو چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ روایت پسند ہیں، وہاں مجسمہ سازی بلکہ مجسمہ بازی کی کوئی تُک محسوس نہیں ہوتی لیکن فیصلہ سازوں کو صحیح یا غلط کی پروا عام طور پر نہیں ہوا کرتی۔ ایک کج دماغ میں کوئی بات آ گئی تو وہ سوچے سمجھے بغیر اسے پورا کرنے پر تل جاتا ہے؛ چنانچہ اس زمانے میں بلوچستان میں یہ مجسمہ بازی بہت جگہ دیکھی جا رہی ہے اور میرے نزدیک یہ غلط فیصلوں میں سے ایک ہے۔سڑک کے سارے سفر گویا بلوچستان کی پرتیں کھولتے محسوس ہوتے تھے۔ شہر، بستیاں، گاؤں، باغات اور پہاڑ۔ زیادہ تر بنجر پہاڑ۔ کہیں کہیں دامن میں ہریالی۔ جیسے بلوچستان کی مجموعی ترقی کا استعارہ ہوں۔ فطری بنجر پن کا تو شاید کوئی علاج ہو، بے حسی کے بنجر پن کا کیا علاج؟ سچ یہ ہے کہ اس مجرمانہ بے توجہی پر دل کڑھتا رہا‘ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہرحال ہے۔ شاید اب حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور بلوچستان اپنے مشکل ترین دور سے نکل آیا ہے۔
لیکن کیا سخت دور گزرا ہے۔ جو ابھی گزر بھی رہا ہے۔ ایف سی کی چیک پوسٹیں کچھ کم ہوئی تو ہیں لیکن ابھی بہت دشواری ہے۔ ہر چیک پوسٹ پر لمبی قطاریں ہیں اور چیکنگ کا عملہ کم۔ پھر شہریوں کو یہ بھی بجا طور پر شکایت ہے کہ ان کا انداز بہت اکھڑ ہے۔ اس معاملے میں بہت سے لوگوں سے ہماری باتیں ہوئیں اور سب کو اس بات کا شاکی پایا۔ ضروری ہے کہ اس معاملے کو جلد بہت بہتر کیا جائے۔ کوئٹہ کا پرانا علاقہ اسی طرح ابتری کا شکار ہے بلکہ یہ ابتری بڑھ گئی ہے۔ وہ کوئٹہ جو ایک خاموش اور پُر سکون شہر تھا، ٹریفک سے چھلکتا ہوا شہر ہے۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہر بڑی سڑک پر دیکھی جا سکتی ہیں اور چند ایک کو چھوڑ کر ہر سڑک دھول مٹی پھانک رہی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو صوبے کے باقی علاقوں میں کیا حال ہو گا۔
کوئٹہ کے شہریوں کی محبت‘ خلوص اور مہمان نوازی کو تا دیر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تمام مدتِ قیام میں میزبان جناب عبدالرحمن عثمانی اور جناب خیر محمد کاکڑ نے اپنی تھکن کا خیال کیے بغیر ہماری سفر کی تھکن کو سمیٹے رکھا۔ سفر تھے بھی بیک وقت شاداب کر دینے اور تھکا دینے والے۔ کاریزوں کے دیس میں سفر کے یہ دو پہلو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved