میرے عزیز ہم وطنو! حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے آپ کو ہم وطن قرار دیا ہے تو یہ نہ سمجھیے کہ کِسی مُغالطے کا شکار ہوا ہوں۔ یہ بات میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ شرمندہ بھی نہ ہوں کہ میں آپ کا ہم وطن ہوں۔ بات یہ ہے کہ ساری دُنیا گھوم کر دیکھ چکا ہوں۔ جب پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اندازہ ہوا کہ صحیح جگہ پہنچا ہوں۔ جو کچھ میں نے دیکھا اُس کی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ آپ کے ساتھ رہنے کو مقدر سمجھوں۔ سو میں نے پاکستان کو اپنا مستقل مستقر بنالیا۔ اِس خط کے لِکھنے کی غایت یہ ہے کہ میں اب کوئی بھی الزام اپنے سَر لینا نہیں پسند نہیں کروں گا۔ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب میں ایک ماہ کے لیے قید کیا جاچکا ہوں۔ یہ قید بھی غنیمت ہے۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان پر کچھ ایسی گزری ہے کہ اب تو کوئی مُشکل مُشکل نہیں لگتی، کِسی اُلجھن میں اُلجھن دکھائی نہیں دیتی۔ میں قید ہوکر بھی مطمئن ہوں۔ اطمینان کیوں نہ ہو؟ اب ایک ماہ کے لیے جو کچھ بھی ہوگا یا کیا جائے گا اُس کے لیے مُجھے تو مُوردِ الزام ٹھہرانا ممکن نہ ہوگا۔ اب تین عشروں تک جو کچھ ہوگا اُس کی پوری ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی یعنی ہر عمل کا حساب اُس کے کرنے والے سے لیا جائے گا۔ میں قید میں ہوں۔ اب کوئی مُجھے قربانی کا بکرا نہیں بناسکے گا۔ اب کوئی کیسے کہہ سکے گا کہ اُسے تو شیطان نے بہکا دیا تھا۔ ہر سال رمضان کی آمد پر مسلمان بے حد مَسرّت محسوس کرتے ہیں۔ عبادت کے ذریعے رب کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس بات پر بھی خاصی مَسرّت محسوس کی جاتی ہے کہ مُجھے ایک ماہ کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔ میں تو سُکون کا سانس لیتا ہوں کہ چلیے، ایک ماہ کے لیے ہی سہی، اہلِ پاکستان کے اعمال کا الزام میرے سَر تو نہیں تھوپا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب اِس مُلک کے لوگ کِسی بھی معاملے میں مُجھ سے تحریک پانے کے محتاج نہیں رہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کے لیے مُجھے مُوردِ الزام ٹھہرانا تھوڑا بہت نہیں، اچھا خاصا مضحکہ خیز ہے۔ مگر خیر، آپ میری بات کہاں مانیں گے؟ اب ایک ماہ تک میں باضابطہ مُقیّد رہوں گا۔ یہ گویا اِس امر کا اعلان ہے کہ اب اہلِ ایمان سنبھل کر رہیں۔ جو کچھ بھی وہ ایک ماہ تک کریں گے وہ اُنہی کے افکار اور نِیّت کا نتیجہ ہوگا۔ اب وہ اپنے کئے کے لیے کِسی شیطان کو تلاش کرکے الزام اُس کے سَر منڈھ نہیں سکتے۔ حیران ہوں کہ اہلِ پاکستان کِس مِٹّی کے بنے ہیں۔ ہر وہ کام کئے جاتے ہیں جس میں سراسر خرابی ہو، بگاڑ ہو۔ کِسی کام کا نتیجہ چُھپا ہوا ہو تو اُس کام کے کرنے والے دھوکا کھا سکتے ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ جس کام کا نتیجہ سب پر عیاں ہو اُسے بھی بصد شوق کئے جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ اُلٹا فخر کیا جاتا ہے۔ زمانے بھر کے حرام کام کرنے میں توقیر کا پہلو تلاش کرنا کوئی میرے ہم وطنوں سے سیکھے۔ ہر غلط کاری کو پورے اہتمام کے ساتھ انجام تک پہنچاتے ہیں اور پھر اُس کا ’’کریڈٹ‘‘ لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں! رمضان رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ ہر سال رمضان کے آغاز پر میں یہ سوچتا ہوں کہ شاید اِس قوم کے لوگ اپنی اصلاح پر کچھ توجہ دیں۔ مگر افسوس کہ ہر بار میں اپنی اِس سوچ پر شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ شیطان بھلا کیوں اِنسانوں کی بھلائی سوچنے لگا! دِل خراش حقیقت یہ ہے کہ اِس سرزمین کے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر میں اُلجھتا جاتا ہوں۔ میرے بہکانے کی کوئی حد ہوسکتی ہے مگر یہاں کے لوگوں کے بہکنے کی کوئی حد نہیں۔ اِنسان غلط راہ پر بھی چلتا ہے تو کچھ نہ کچھ سوچ سمجھ کر۔ کوئی حساب ضرور طے کیا جاتا ہے کہ کہاں تک اور کِس طرح جانا ہے۔ اب ایسی بھی کیا بے اختیاری کہ چل پڑے تو بس چل پڑے! رات دن حیرت میں غلطاں رہتا ہوں کہ لوگ ایک کے بعد ایک غلط کام کئے جاتے ہیں اور جھجھکتے ہیں نہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ جیسے اُنہیں کِسی بات سے کچھ غرض ہی نہ ہو۔ آپ سوچیں گے شیطان کو کیا پڑی ہے کہ اِنسانوں کا بھلا سوچے۔ آپ کا حیران ہونا اور ایسا سوچنا غلط یا حیرت انگیز نہیں۔ مگر یہ بات آپ ہرگز نہ بُھولیں کہ شیطان کے سینے میں بھی دِل تو ہوتا ہے۔ اُس کے بھی جذبات ہوتے ہیں، احساسات ہوتے ہیں۔ ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب شیطان بھی رُک کر سوچتا ہے، کُڑھتا ہے۔ مجھے بہکانے میں بہت لطف محسوس ہوتا ہے۔ میں نے اِنسانوں کو ہمیشہ بے حساب بہکایا ہے مگر لوگ مزاحمت بھی تو کرتے ہیں۔ یہاں تو مزاحمت نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی۔ اب کیا بتاؤں کہ اِس حالت میں تو بہکانے کا مزا ہی جاتا رہا ہے! ایک زمانہ تھا جب میں اِنسانوں کو بہکایا کرتا تھا۔ جب میں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو دیکھا کہ یہاں لوگ پہلے ہی مائل بہ عِصیاں ہیں۔ یعنی بہکانا آسان ہے۔ میں نے سوچا اِسی سرزمین پر مستقل سُکونت اختیار کرلوں کہ یہاں کام کرنا آسان ہے۔ آسانی تلاش کرنے کی خواہش نے میرے لیے بے حساب مُشکلات پیدا کردیں۔ اب کیا بتاؤں کہ اہلِ پاکستان تو میری ہر تحریک پر آمنّا و صدقنا کہنے کو تیار رہتے ہیں۔ ابتدا میں اچھا لگا کہ چلو، کام آسان ہوگیا ہے۔ مگر اب سوچتا ہوں تو کُڑھن بڑھتی جاتی ہے۔ آپ لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی چلا جاتا ہوں۔ آپ بھی کیا لوگ ہیں! جو طے کرلیا، بس طے کرلیا۔ کبھی انجام کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ کُھلا خط صرف اِتنی سی گزارش کے لیے لکھا گیا ہے کہ جس طرح میرے بہکانے کی ایک حد ہے بالکل اُسی طرح آپ کے بہکنے کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ میں شیطان ہوکر جب کبھی کبھی ضمیر کی خلش محسوس کرتا ہوں تو آپ انسان ہوکر اپنی اصلاح پر مائل ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ میں اگر آپ کا بھلا سوچ رہا ہوں تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ قعرِ مَذلّت میں گرنے کی بھی بہر حال کوئی تو حد ہوتی ہے۔ میں بھی ذِلّت کے گڑھے میں گِرا مگر خیر، اپنا وقار بھی سلامت رکھا ہے۔ آپ کی طرف دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ جن پر بنانے والے کو بھی ناز ہے وہ کِس طرف رواں ہیں، کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ کل تک میں بہکانے کی صلاحیت پر فخر کیا کرتا تھا مگر اب تو اپنے ہی ہُنر پر نادم ہوں کہ آپ لوگ میری بتائی ہوئی راہوں پر چل چل کر کہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ اب تو میرے قدم بہکنے لگے ہیں۔ سوچتا ہوں بہکانے سے توبہ کرلوں! دِل کی گہرائی سے یہ گزارش کر رہا ہوں کہ ایک ماہ تک تو ہر بُرے کام سے مُجتنب رہیں تاکہ میری بندش کا فیصلہ برحق ثابت ہو۔ رب نے مُجھے باندھ کر آپ کو کُھلا چھوڑ دیا ہے مگر یہ آزادی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور کاروبار کے نام پر نفع خوری کے لیے ہرگز نہیں۔ رمضان برکتوں کا مہینہ ہے اور برکت ایک دوسرے کو لُوٹنے اور نوچنے میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے درد کو سمجھ کر اُسے بانٹنے میں ہے۔ آپ لوگ سال بھر ایک دوسرے کو لُوٹتے اور بھنبھوڑتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کم از کم ایک ماہ تک تو اِس روش پر چلنے سے گریز کریں تاکہ میری بندش بھی درست ثابت ہو۔ اِس کے بعد تو پھر وہی آپ ہیں اور پھر وہی میں ہوں۔ اچھی طرح سوچ لیجیے۔ اب ایک ماہ تک آپ جو کچھ کریں گے اُس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں تو بندھا پڑا ہوں۔ آپ کو اگر باندھا نہیں گیا ہے تو اِسے مادر پدر آزادی میں تبدیل نہ کریں۔ کچھ ایسا کیجیے کہ مُجھے آپ کے حالِ زار پر کُڑھنا نہ پڑے! جو کبھی کبھی پیدا ہو پاتا ہے اُس خُلوصِ نِیّت کے ساتھ، آپ کا شیطان
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved