کون سا معاملہ ہے جو ''بے غوری‘‘ کو جھیل سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ ہر معاملے میں ہمیں کسی نہ کسی حد تک تو غور کرنا ہی پڑتا ہے۔ یومیہ معمولات بھی اگر غور و فکر سے محروم ہوں تو زندگی کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ دانش کا تقاضا ہے کہ کسی بھی معاملے کو غیر اہم سمجھتے ہوئے غور و فکر سے محرومی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ اور اہم معاملات میں تو کماحقہ غور کرنا لازم ہی ہے۔ غور و فکر ہر انسان کے لیے لازم ہے مگر ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کس حد تک لازم ہے۔ بہت سے معاملات ہم سے جتنی توجہ چاہتے ہیں ہم اُس سے کہیں کم یا کہیں زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ سارا بگاڑ اس ایک بات ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ بعض معاملات ہم سے غیر معمولی توجہ چاہتے ہیں مگر ہم ذرا سا غور کرنے کے بعد حتمی نوعیت کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ ایسی حالت میں کیے جانے والے فیصلے بالعموم غلط ثابت ہوتے ہیں اور اُن کے بطن سے محض الجھنیں ہویدا ہوتی ہیں۔ اہم معاملات میں ہمیں کچھ دیر ٹھہر کر پوری متانت کے ساتھ‘ سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اہم ترین معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ جیون ساتھی کے انتخاب جیسے انتہائی اہم معاملے کو بھی بہت سے لوگ بہت ہلکا لیتے ہیں اور معقول حد تک غور و خوض کے بغیر ہی فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ جذباتیت کے عالم میں یا بے دِلی کے ساتھ کیے جانے والے ایسے فیصلے زندگی کا تیا پانچا کردیتے ہیں۔
زندگی ایسا معاملہ ہے جو ہمارے پورے وجود کا طالب رہتا ہے۔ جب ہم اپنے پورے وجود کے ساتھ زندگی کو اپناتے ہیں تب ڈھنگ سے جینے کی راہ آسان ہو پاتی ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں کہاں تک غور و فکر لازم ہے۔ بہت سوچنا سُود مند ہے یا نقصان دہ؟ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ ہر معاملہ توجہ کے معاملے میں ہم سے توازن چاہتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ بعض معاملات اس قابل ہوتے ہیں کہ اُن پر سرسری سی نظر ڈال کر آگے بڑھ جائیے۔ ہمیں یومیہ معمولات کے طور پر جن معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بالعموم ہماری توجہ تو ضرور چاہتے ہیں مگر اتنی زیادہ نہیں کہ اہم معاملات پس منظر میں چلے جائیں۔ فکری عدم توازن کا عالم یہ ہے کہ لوگ اہم ترین معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور عمومی سطح پر ایسی حسّاسیت اور جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ زیادہ کیا ہونا چاہیے ... حیرت یا افسوس۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں انتہائی سطحی نوعیت کی حسّاسیت اور جذباتیت کا راج ہے۔ لوگ اپنے معاملات کی درجہ بندی کا شعور بھی نہیں رکھتے۔ شعور تو اُس وقت پیدا ہو جب معاملات کی درجہ بندی کی ضرورت محسوس ہو۔ جب کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تب لوگ اُس کے حوالے سے سوچنا شروع کرتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ یا تو بالکل غور نہیں کرتے یا پھر غور ہی کرتے رہتے ہیں۔ فکر و نظر کے حوالے سے پایا جانے والا یہ عدم توازن انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ جب سوچ ہی عدم توازن کا شکار ہو تو عمل کا کیا بنے گا؟ سیدھی سی بات ہے‘ غور و فکر سے محروم معاملات میں عمل بھی مطلوب نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
بہت سوں کو ہم اس حالت میں پاتے ہیں کہ وہ عمل کی منزل تک پہنچنے کا نام نہیں لیتے اور معاملات پر غور و خوض ہی کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ضرورت سے کہیں زیادہ سوچ بچار کرنے کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو چائے میں بہت زیادہ چینی ڈالنے کا نکلتا ہے۔ ہمارے احباب میں ایک صاحب تھے جو دفتر میں چائے پیش کیے جانے پر چینی کا انتہائی نوعیت کا استعمال جائز سمجھتے تھے۔ آفس بوائے جب اُن سے پوچھتا تھا کہ چائے میں چینی کتنی ڈالی جائے تو وہ کہتے تھے اِتنی کہ چمچ کھڑا ہو جائے! لوگ سمجھا سمجھاکر تھک گئے کہ چینی مفت ہے مگر پیٹ تو اپنا ہے مگر وہ نہ مانے اور چائے میں چمچ کھڑا کرنے کی روش ہی پر گامزن رہے۔ ہمارے ہاں بیشتر لوگوں کا یہی معاملہ ہے۔ کہیں تو وہ کسی معاملے کو پھیکی چائے کے طور پر لیتے ہیں یعنی اُس میں چینی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ جن معاملات پر غیر معمولی توجہ درکار ہو اُنہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے یعنی چائے میں چینی کا ایک دانہ تک نہیں ڈالا جاتا۔ اور جہاں غور و فکر کی زیادہ ضرورت نہ ہو وہاں اس قدر غور کیا جاتا ہے کہ چائے میں چمچ کھڑا ہو جاتا ہے۔ غیر ضروری گاڑھی سوچ عمل کو غیر نتیجہ خیز بنادیتی ہے۔ فرانس کے عظیم جرنیل نپولین نے کہا تھا کہ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کیجیے اور سو بار سوچیے مگر جب عمل کا وقت آجائے تو سوچنے کا عمل ترک کرکے میدان میں قدم رکھیے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور عمل کا وقت گزر جاتا ہے۔
اہلِ پاکستان میں قومی سطح پر ایک شدید خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ اس ایک خوش فہمی نے بہت سے معاملات کو الجھاکر رکھ دیا ہے۔ یہ خوش فہمی یا سادہ لوحی یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر پریشان رہنے اور دن رات ذہن کو الجھائے رکھنے کو غور و فکر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں غور و فکر کی راہ پر گامزن ہونے اور محض پریشان ہو رہنے میں بہت فرق ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں بدحواس ہو جاتے ہیں اور خوش فہمی یہ ہوتی ہے کہ غور و فکر کے ذریعے کوئی حل تلاش کیا جارہا ہے۔ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر مثبت رویے کے ساتھ غور و فکر کرنے اور محض پریشان ہونے کا فرق سمجھنا ہر اُس انسان پر لازم ہے جو اپنے تمام معاملات میں توازن چاہتا ہے۔ اگر غیر ضروری طور پر سوچنے کی بیماری کو زیادہ پروان چڑھایا جائے تو معاملات اُس نہج تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے ؎
کیا بتائیں کیا دیا احساس اور ادراک نے
سب مرادیں پاگئے‘ ہم غور فرماتے رہے!
بات کچھ یوں ہے کہ احساس اور ادراک کے نام پر ہمارے ہاں فکر و نظر کا انتشار عام ہے اور اسی پر اکتفا کرنے کا چلن اپنالیا گیا ہے۔ ہر صورتِ حال ہم سے سنجیدگی چاہتی ہے۔ مثبت فکر ہی کے نتیجے میں ہم ڈھنگ سے کچھ سوچنے‘ منصوبہ سازی کرنے اور اپنے عمل کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ معیاری انداز سے جینا ہے تو ہر طرح کے معاملات میں اپنے رویے کو متوازن رکھنا ہوگا۔ اگر کوئی بحران سر اٹھائے تو بدحواس ہونے اور فکر و نظر کے انتشار کو گلے لگانے کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ اس کا سامنا کرنا چاہیے اور تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے تاکہ کوئی معیاری حل سامنے آئے۔ ہر مسئلہ اپنا کوئی نہ کوئی حل ضرور رکھتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اُس حل کو یقینی بنانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہاں تو پھر معاملات کو دیکھنے کا انداز بدلنا ہوگا۔ جہاں غیر ضروری حسّاسیت اور جذباتیت کی گنجائش نہ ہو وہاں سے گزر جانے ہی میں عافیت ہے۔ جو معاملات ہم سے ٹھہرنے‘ غور کرنے اور منصوبہ سازی کے ذریعے حل کی طرف جانے کا تقاضا کرتے ہوں اُن کے حوالے سے ہماری سوچ مستحکم ہونی چاہیے۔
اب اسی بات کو لیجیے کہ نئی نسل کو بہتر زندگی کی ابتدا کرنے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ بنیادی مرحلے میں تو اُن کی سوچ کا مثبت ہونا لازم ہے۔ اس کے بعد یہ لازم ہے کہ ماحول پر نظر رکھی جائے‘ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس کے بعد کسی ایک شعبے کا انتخاب کرکے اُس کے بارے میں تمام بنیادی معلومات کا حصول یقینی بنایا جانا چاہیے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہے جب غیر ضروری معاملات پر غور و فکر کی عادت سے چھٹکارا پایا جائے۔ عمر کے جس مرحلے میں جو کچھ کرنا لازم ہو تب وہی کیا جانا چاہیے۔ غیر ضروری معاملات پر غور کرنے سے وقت‘ موقع اور وسائل تینوں ہی کا ضیاع یقینی ہوتا ہے۔ غیر ضروری غور فرمانے والے تہی دست رہ جاتے ہیں اور دوسرے مرادیں پا جاتے ہیں۔