تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     27-06-2021

سماجی فلاح اور مساوات کی منزل

اس وقت پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو تین الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: ششدر‘ متحیر‘ ڈگمگائی ہوئی۔ بجٹ پیش کیا گیا‘ اس دوران چیخ و پکار‘ ناروا الفاظ کا استعمال اور نعرے بازی جاری رہی۔ پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے کہ غریب آدمی بجٹ میں مارا گیا ۔ ایسا کرتے ہوئے اپوزیشن خود اپنا مذاق بن گئی ۔ جس دوران وہ چلاّ رہے تھے کہ غریب آدمی کو نظر انداز کیا گیا وزیرِخزانہ غریب افراد کے لیے ایک جامع سماجی معاشی پیکیج کا اعلان کررہے تھے ۔ بعد میں کھسیانی اپوزیشن نے کہنا شروع کردیا کہ بجٹ غیر حقیقی اہداف رکھنے والی دیومالائی داستان ہے ۔گویا انہوں نے تسلیم کرلیا کہ اس میں ہر شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ہے لیکن وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ قابل ِعمل نہیں۔ بدقسمتی سے اپوزیشن لیڈر نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ''غریب کے لیے کچھ نہیں ہے ‘‘ سے کیا ۔ تو کیا اسے ذہانت‘ استعداد اور فہم و فراست کا فقدان کہا جائے ؟
یہ ایک منفرد بجٹ ہے جو غریب اور درمیانے طبقے کی بات کرتا اور عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتا ہے ‘یہ زراعت‘ صنعت‘ سروسز‘ مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کااحاطہ کرتے ہوئے مختصر مدت اور طویل المدت منصوبوں کا ذکر کرتا ہے ‘ یہ تمام صوبوں اور ان کی انفرادی ضروریات کا خیال رکھتا ہے ‘ اس میں نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے‘ٹیرف کو نہیں بڑھایا گیا۔ چونکہ ایسا بجٹ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اس لیے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا جارہا ہے ۔ اٹھایا جانے والا واحد سوال یہ ہے کہ ان تمام منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟
لیکن جو چیز ہر شخص سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا یہ ہے کہ یہ تبدیلی لانے والا بجٹ ہے ۔ اس نے ملک کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے۔ روایتی طور پر بجٹ کھاتے بیلنس کرنے کا نام ہوتا تھا جسے اکائونٹ کے ماہرین جیسا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بنایا کرتے تھے ۔ وہ ہمیشہ لین دین کے اندراج کو بجٹ کانام دے دیتے تھے ‘ مگر حالیہ بجٹ چھ نکات کی بنیاد پر مختلف ہے :
1۔ تصور کی مالیاتی امور پر برتری : ماضی میں بجٹ مالیاتی امور کی اجارہ داری کا نام تھا ۔ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق ممکن حد تک محصولات کی وصولی ۔ یہ بیلنس شیٹ تیار کرنے کا حساب کتاب تھا ‘ لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وسائل مختص کرتے ہوئے تصورات سے راہ نمائی لی گئی ۔ پھر منصوبوں کی اقسام کا مشن نے فیصلہ کیا جو اس تصور کو عملی شکل دے گا۔ مثال کے طور پر ایک فلاحی ریاست کے تصور کا مطلب ہے کہ معاشرے کے انتہائی غریب افراد کا سب زیادہ خیال رکھا جائے ‘ جیسا کہ مکانات اور کاروبار کے لیے بلاسود قرضے ‘ ہیلتھ کارڈ اور مہارتوں میں اضافہ جو ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ چار کروڑ غریب ترین گھرانوں کو ان بنیادی سہولیات تک رسائی دینے کا منصوبہ ہے ۔ اس کا آخری حصہ منی بل تھا۔ احساس پروگرام کے لیے اب تک مختص کی جانے والی سب سے بڑی رقم 260ارب روپے تھی ۔ یہ ایک انقلاب آفریں سفر دکھائی دیتا ہے ۔ تصور‘ مشن اور پھر بجٹ۔اگر ایک فلاحی ریاست میں غریبوں کو ترجیح دی جانی ہے تو پھر غریب افراد کا بجٹ میں سب زیادہ خیال رکھا جائے گا۔
2۔ماضی میں پاکستان ساختہ اشیا پر توجہ : پاکستان تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ یہاں مصنوعات باہر سے منگوا کر مختلف مراحل میں فروخت کی جاتی تھیں ۔ زراعت اور صنعت کو اکائونٹنٹ کے بنائے ہوئے بجٹ نے سخت نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کی معاشی شرح نمو 2018ء میں 5.5 فیصد رہی لیکن اس کا درآمدی بل بہت بڑھ گیا ۔ جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے تو وہ 2013 ء سے بھی گر چکی تھیں ۔ اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 19.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ۔ پاکستان اشیائے خورو نوش جیسا کہ دالیں‘ چینی ‘ گندم وغیرہ بھی درآمد کرتا تھا حالانکہ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ موجودہ بجٹ اس سمت کو مکمل تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے ۔کیمیکل‘ ادویہ اور خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر درآمدی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے تاکہ مقامی طور پر ان کی مصنوعات کی تیاری کی حوصلہ افزائی ہو۔ یہ اقدام صنعت کاری کی طرف پیش رفت میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ۔ اس کی وجہ سے بیٹریاں اور الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والے پرزہ جات کی تیاری کے لیے چھوٹے کاروبار کو فروغ ملے گا۔
3۔ جغرافیائی وسائل : ماضی کے بجٹ میٹر و بس جیسے نمود و نمائش کے منصوبے رکھتے تھے ۔ طویل عرصے سے لاہور کو پنجاب کے کل بجٹ کا 58فیصد ملتا رہا ہے جبکہ جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا جاتا تھا ۔ موجودہ بجٹ غیر ترقی یافتہ علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہا ہے ۔ پنجاب کے علاوہ بلوچستان کے غریب ترین اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کی گئی ہے ۔ سندھ ترقیاتی منصوبے میں نہ صرف کراچی شامل ہے بلکہ سندھ کے چودہ غریب ترین اضلاع کے لیے ایک الگ منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ سابق فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کے بعد اسے گزشتہ تین برسوں کے دوران 130 فیصد مزید وسائل فراہم کیے گئے ۔ موجودہ بجٹ میں بھی اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے شامل ہیں ۔
4۔ مزارعوں اور ہاریوں کی آزادی: پاکستان کے زرعی شعبے میں سب سے زیادہ استحصال کسان کا ہوتا ہے‘ حالانکہ زرعی شعبہ ہماری معیشت کا 60 فیصد دیتا ہے ۔ اسے مناسب امدادی قیمت نہیں ملتی تھی ۔ جاگیر داروں اور مڈل مین کے ہتھکنڈے اُسے نچوڑ لیتے ہیں۔اس کی مالی وسائل اور قرض کی ضرورت کو بمشکل ہی کبھی ترجیح دی گئی تھی ۔ اس طرح وہ بینکوں‘ آرھتیوںاور خریداروں کا اسیر بن کررہ گیا ۔ اسے اپنی سرمایہ کاری اور محنت کا بہت کم پھل ملتا تھا ۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو اشیائے خورو نوش بھی درآمد کرنا پڑتی ہیں ۔ کسانوں کو معقول امدادی قیمت ملنے سے اس سال بھرپور فصلیں ہوئیں ۔ کسان کوقرض دینے والوں اور آڑھتی کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے حکومت نے ہرکسان کے لیے سالانہ تین لاکھ روپے تک کا قرض مختص کیا ہے ۔ ہر کسان زرعی آلات خریدنے کے لیے دولاکھ روپے مزید قرض لے سکتا ہے ۔ چھوٹے کاشت کارامدادی قیمت کے لیے کسان کارڈ کے حق دار ہوں گے ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ کہ ملک بھر میں سردخانے قائم کیے جائیں گے اور یہ اہتمام کیا جائے گاکہ کسان مڈل مین کی غلامی سے نجات حاصل کرکے مارکیٹ تک رسائی حاصل کرسکیں۔
5۔ سماجی ترقی ہی حقیقی ترقی ہے: یہی اصل کامیابی ہے ۔ تعلیم ‘ صحت اور ماحولیات۔ 2016-17ء میں سماجی شعبے کے لیے مختص کردہ رقم 11 فیصد تھی لیکن اب 2021-22ء میں اسے بڑھا کر 20 فیصد کردیا گیا ہے ۔ ہائرایجوکیشن کا بجٹ تین برسوں میں دگنا سے بھی بڑھا دیا گیا ہے ۔ سب سے واضح فرق ماحولیات کا ہے ۔ گزشتہ دوعشروں سے اس پر بمشکل ہی کبھی توجہ دی گئی تھی لیکن اب گزشتہ پانچ سالوں کے مقابلے میں اس میں 16گنا اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان میں کچھ علاقوں کو افسوس ناک حد تک نظر انداز کیا گیا تھا۔ ماحولیات پر توجہ دینے کی وجہ سے UN Environment Programme (UNEP) نے پاکستان سے ماحولیات کے عالمی دن کا شریک میزبان بننے کی درخواست کی ۔یہ دن پانچ جون 2021 ء کو منایا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس اجلاس کی صدارت کا شرف حاصل ہوا۔ اس اجلاس میں برطانوی وزیر اعظم اور چینی صدر جیسی عالمی شخصیات نے خطاب کیا ۔
6۔ اگلے انتخابات سے اگلی نسل تک: پاکستان میں ترقی کے عمل کو پانی اور بجلی کی قلت نے ادھ موا کردیا ہے ۔ منگلا اور تربیلا کے بعد کسی حکومت نے کوئی بڑا ڈیم نہ بنایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بڑے ڈیم کی تعمیر میں طویل عرصہ درکارہوتا ہے جبکہ سیاست دان سڑکوں اور ٹرانسپورٹ جیسے مختصر مدت کے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان تین بڑے آبی منصوبوں پر کام کررہا ہے ‘ جیسا کہ داسو‘ مہمند اور دیامیربھاشا۔ اس کے علاوہ دس چھوٹے منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے ۔ یہ مستقبل میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ جیمز فریمین کلارک کا کہنا ہے کہ سیاست دان اگلے انتخابات کا سوچتا ہے ‘ لیڈر اگلی نسل کا سوچتا ہے ۔ سیاستدان کا مطمح نظر اپنی جماعت کی کامیابی ہوتی ہے مگر لیڈر اپنے ملک کی کامیابی کے لیے سوچتا ہے ۔
عام افراد کے لیے بحران کمر توڑ موقع ہوتا ہے ‘ لیکن غیر معمولی افراد بحران میں آگے بڑھنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ جو ملک صحت اور تعلیم کے شعبے میں دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ‘ وہ کورونا اور معیشت کے مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹتے ہوئے عالمی لیڈر بن کر ابھرے گا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ امریکا اور بھارت جیسے طاقتور ممالک کو وائرس اور گرتی ہوئی معیشت کے مسائل کا سامنا ہوگا ؟ لیکن پھر ایک روایتی سیاست دان کی محدود سوچ اور ایک قائد کی بلند نگاہی میں یہی فرق ہوتا ہے ۔ جس دوران مودی اور دنیا کرفیو اور مکمل لاک ڈائون لگارہے تھے ‘ وزیر اعظم عمران خان نے سمارٹ لاک ڈائون کا سخت‘ غیر مقبول مگر منفرد فیصلہ کیا ۔اُن میں غیر معمولی فیصلے کرنے اور اپنی الگ راہ نکالنے کا حوصلہ ہے ۔ ابھی جنگ جاری ہے لیکن گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرنیں نمودارہونا شروع ہوگئی ہیں ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے ‘ کہ بصیرت یہ ہے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے بصارت کام کرے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved