حکومت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آ گیا: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آ گیا‘‘ اگرچہ دیگر بہت سے اصل چہرے بہت پہلے ہی سے عوام کے سامنے آ چکے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب انہیں اس کی عادت پڑ چکی ہے اور اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر سے کام لے رہے ہیں نیز کچھ لوگوں نے جو نقاب اوڑھا ہوا تھا وہ بھی اپنے آپ ہی اتر گیا ہے اور عوام کو یقین ہو گیا ہے کہ یہ وہی کام کر رہے ہیں جو انہیں آتا ہے اور جس کیلئے یہ سیاست میں آئے تھے جبکہ جس مشین کا پتا نہ ہو اس کے کام میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہیے، ہمیں ایک ہی مشین چلانا آتی تھی جو ہم نے خوب چلائی ہے اور دنیا بھر سے خراجِ تحسین وصول کر رہے ہیں۔ ماسوائے احتساب والوں کے۔ آپ اگلے روز کوٹلی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بلاول کا بیان بچگانہ، وزیراعظم ملکی مفاد
میں فیصلے کرتے ہیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''بلاول کا بیان بچگانہ، وزیراعظم ملکی مفاد میں فیصلے کرتے ہیں‘‘ تاہم، یہ فیصلے چونکہ خود مختار ہوتے ہیں اس لیے یہ اگر کسی اور طرف نکل جائیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس لیے ملکی مفاد میں رہنا خود ان فیصلوں پر منحصر ہے جبکہ کرپشن کے خلاف فیصلہ بھی ملکی مفاد ہی میں تھا، اگر اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے تو اس میں قصور فیصلوں کا نہیں کرپشن کا ہے، اسی طرح مہنگائی کے خلاف بھی ان کا فیصلہ عین ملکی مفاد میں تھا، لیکن مافیاز کا مفاد چونکہ اس کے برعکس تھا اس لیے یہ ختم یا کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی۔ خدا ان مافیاز کا خانہ خراب کرے، آمین! آپ اگلے روز بلاول بھٹو کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
حکومتی صفوں میں سے کافی لوگ پی پی میں شامل
ہونے کے لیے بیقرار ہیں: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومتی صفوں میں سے کافی لوگ پی پی میں شامل ہونے کے لیے بیقرار ہیں‘‘ کیونکہ غالباً وہاں انہیں وہ کچھ کرنے کا موقع نہیں مل رہا جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے ہاں نہ صرف کھلی چھٹی ہے بلکہ یہ مضمون اختیاری بھی ہے اور لازمی بھی کیونکہ دوسرے امتحانات کی طرح اس میں بھی نقل کی سہولت عام ہے اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سارا کام چلتا رہتا ہے اور پکڑے جانے کا بھی زیادہ خطرہ نہیں ہوتا اور اگر پکڑے جائیں تو بھی کچھ عرصے کے بعد سب کچھ بحال ہو جاتا ہے۔ آپ اگلے روز پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود سے ملتان میں ملاقات کررہے تھے۔
ہر شہری کو منشیات کے خاتمے کیلئے مہم چلانا ہوگی: اعجاز شاہ
وفاقی وزیر انسدادِمنشیات سید اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ ''ہر شہری کو منشیات کے خاتمے کے لیے مہم چلانا ہوگی‘‘ کیونکہ ہم خود دوسرے کاموں میں مصروف ہیں اور منشیات چونکہ عوام ہی استعمال کرتے ہیں اس لیے یہ عوام ہی کا مسئلہ ہے جسے حل کرنا بھی عوام ہی کا کام ہے جو سارا دن مکھیاں مارتے رہتے ہیں حالانکہ انہیں حکومت کے ساتھ مل کر ملکی کاموں میں بھی حصہ لینا چاہیے کیونکہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے عوام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور حکومت بیچاری اکیلی سر کھپاتی رہے جو کہ حکومت کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کیونکہ حکومت کو اور بہت سے ضروری کام کرنا پڑتے ہیں۔ آپ اگلے روز عالمی انسدادِ منشیات کے موقع پر منعقدہ واک کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
سرکاری اراضی مافیا سے چھڑانا ضروری ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''سرکاری اراضی مافیا سے چھڑانا ضروری ہے‘‘ اگرچہ یہ سارے کے سارے لوگ ہمارے دور ہی میں سرکاری اراضی پر قابض ہوئے تھے اور انہیں اب اس سے محروم کر دینا پرلے درجے کی زیادتی اور نا انصافی ہو گی؛ تاہم میرا یہ بیان صرف بیان ہی کی حد تک ہے اس لیے ان حضرات کو اس کا برا نہیں ماننا چاہیے جبکہ عوام کے اندر یہ تاثر پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم انصاف پسند لوگ ہیں، اور جو کچھ ہم پہلے کر چکے ہیں اس کی تلافی کے لیے بھی ایسے بیانات ضروری ہیں؛ اگرچہ سرکاری وسائل پر قابض ہونا سرکاری اراضیات پر قابض ہونے سے کہیں زیادہ سنگین حرکت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کے
سامنے کھڑے ہو گئے: شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہو گئے‘‘ اور اب تک کھڑے ہیں جبکہ آئی ایم ایف بار بار کہہ چکا ہے کہ سامنے سے ہٹ جائیں، ہم نے آگے بھی جانا ہے لیکن وزیراعظم مسلسل انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مستقل مزاج آدمی ہیں اور ایک بار جس کام کا ارادہ کر لیں یا اسے شروع کر دیں تو تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود قائم رہتے ہیں؛ چنانچہ آئی ایم ایف نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے اور کافی عبرت حاصل کر رہا ہے کیونکہ ہمارا کا مؤقف یہ ہے کہ اگر ہم نے سارا بجٹ ہی آپ کے کہنے پر بنا دیا ہے تو آپ کو کہیں آگے جانے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں بجٹ پر بیان دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل
یہ دل پڑا ہوا خواب و خیال سے خالی
کہ جیسے دشت ہو کوئی غزال سے خالی
کسی نے رخ نہ کیا اس کے بعد جنگل کا
ہوئے ہیں جب سے مرے مور چال سے خالی
ابھی مجھے نہیں پہچان پائے گا کوئی
ابھی ہے چہرہ مرا خد و خال سے خالی
رہی ہو عشق میں جو کیفیت ہماری تو
ہوا تھا حال تمہارا بھی حال سے خالی
جو تم نہ تھے تو کوئی اور بوجھ تھا دل پر
کہ جتنے روز رہے اس وبال سے خالی
گزر گئے جو زمانے اسی محبت میں
کہ تھا معاملہ ہجر و وصال سے خالی
ہم اُس پہ بیٹھے رہے سانپ بن کے اور خوش تھے
جو اک خزانہ تھا مال و منال سے خالی
ہمارا نالہ ہی نغمہ کبھی نہ بن پایا
کہ سُر سے دور رہے اور تال سے خالی
تمام بے خبری میں گزر گئی ہے، ظفرؔ
ہماری عمر جو تھی ماہ و سال سے خالی
آج کا مقطع
جو نئی طرز و روش مجھ کو دکھاتے ہو ظفرؔ
وہ تو میری جان سب کچھ ہے مرا دیکھا ہوا