گزرے ہوئے سات دنوں میں بھوک افلاس نے ایک سے سات سال عمر کے بارہ سے زائد پاکستانی بچے اپنے والدین کے ہی ہاتھوں ذبح کر ا دیے ہیں ۔غربت اور افلاس کے ہاتھوںاجتماعی خود کشیوں کا بڑھتا ہوا یہ رحجان پاکستان میں25 سال قبل اس وقت سے شروع ہوا جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستان کے مالیاتی وسائل پر قبضے کرنے کا آغاز کیا ۔ آئی ایم ایف کے کہنے پرجب ارجنٹائن کے ضعیف العمر ریٹائرڈلوگوں کی پنشن میں کمی کی گئی تو سب سے پہلے ارجنٹائن کی دو ریٹائرڈ بوڑھی عورتوں نے بھوک کے ہاتھوں مجبور سر عام گردن میں پھندے ڈال کر خود کشی کرلی ۔اسی طرح قرضوں کی وصولی کے لیے زمبابوے حکومت کے صحت کے بجٹ میں30فیصد کمی کروا کر بچوں کی اموات کی شرح پانچ گنا بڑھا دی گئی ۔ کینیامیں مفت پرائمری تعلیم کی سہولت کو ختم کروا کر وہاں تعلیم کے شعبے کو تباہ کر دیا۔ آئی ایم ایف نے فلپائن کو مجبور کیا کہ وہ اپنی زرعی زمینوں کو صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کرے جس سے اس کی زرعی معیشت تباہ ہو گئی ۔پاکستان کے حالیہ بجٹ میں بچوں کی فیس پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے تاکہ ہونہار پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روک کر اچھی اور اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے کا رستہ مسدود کیا جائے۔ غریب ممالک کو امداد اور قرضوں کے نام پر بے بس کر کے اپنے شکنجے میں جکڑنے والے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بنیاد جولائی 1944ء میں رکھی گئی ۔دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی تو اس وقت امریکہ اور برطانیہ سمیت دوسرے شمالی ملکوں نے فیصلہ کیا کہ یورپی ممالک کی تباہ حال معیشت سنوارنے کے لیے مالیاتی ادارے قائم کیے جائیں اور اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ عالمی مالیاتی بینک، گیٹ اورآئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جنگ سے متاثرہ مغربی اقتصادیات کو دوبارہ منظم اور مستحکم کریں ۔اس کانفرنس کے فیصلے کے مطا بق امریکی ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت دے دی گئی جس کی بنیاد سرمائے اورا شیاء کی آزادانہ نقل و حرکت پر رکھی گئی۔ اس طرح اس کانفرنس کے نتیجہ میں پوری بین الاقوامی تجارت امریکی ڈالر سے منسلک ہو گئی۔ ان مالیاتی اداروں نے بہت جلد یورپی ممالک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا کیونکہ وہاں کرپشن نہیں تھی اور ان کا کوئی ترقیاتی منصوبہ بے مقصد بھی نہیں تھا۔ یورپی ممالک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے بعد ان مالیاتی اداروں نے تیسری دنیا کا رخ کیا تاکہ تیسری دنیا کے ملکوںکی اقتصادی حالت کو مضبوط کیا جائے ۔بظاہر ان کا یہ نعرہ خوش کن او ر غریب ممالک کیلئے ہمت افزا تھا لیکن اس کے پیچھے نیت ان ممالک کے تمام وسائل پر قبضہ کر نے کی تھی اور یہ بد نیتی اس طرح ظاہر ہوئی کہ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے منہ سے ایک دن اچانک یہ جملہ نکل گیا’’ غریب ملکوں کی امداد کا اصل مفہوم ان ملکوں کی مدد کرنا نہیں ہوتا بلکہ خود اپنی مدد کرنا ہے‘‘۔ لوگ دیکھتے ہی ہوں گے کہ ان مالیاتی اداروں نے تیسری دنیا کے ملکوں کی مدد کے نام پر غریب ممالک کو تباہ کن اور فنڈ ضائع کرنے والے منصوبوں کے لیے قرضوں کی بھر مار کر دی جسے ان ملکوں کے حکمرانوں نے اپنے اللوں تللوں پر خرچ کر دیا ۔یہ بات اب راز نہیں رہی کہ جب بھی کوئی ملک ان عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتا ہے ،وہ اپنی خود مختاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔اس کے سول اور دیوانی معاملات پر وہاں کے حکمرانوں کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے ۔بڑا مشہور واقعہ ہے جب کئی سال پہلے جمیکا کے صدر نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی تقریبِ دستخط کے بعد دستاویزآئی ایم ایف کے نمائندے کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اب ارجنٹائن میں ہماری حکومت نہیں رہی ۔ہماری حکومت تو آپ کی نگران حکومت ہے اورآج سے میں جمیکا کا نگران صدر ہوں‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے غریب ملکوں پر حکومت کرنے والے ،ان کی معاشی داخلی اور دفاعی پالیسیاں بنانے والے یہ عالمی مالیاتی ادارے تیسری دنیا کی مدد کے نام پر اپنے بڑے بڑے سرپرست ملکوں کی جیبوں سے دوسروں کی جیبوںکو زیا دہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ ان عالمی مالیاتی اداروں کے وسائل کی طرف دیکھیں تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ پاکستان پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قبضے کا با قاعدہ آغاز1972-77 ء کے دوران اس وقت ہوا جب OPEC کے تیل پیدا کرنیو الے ملکوں نے خطیر منافع حاصل کرنا شروع کیا ۔دیکھا جائے تو تیل کے اس خطیر منافع کی گردش نے دنیا بھر میں بہت سے نئے بحرانوں کو اس طرح جنم دیا کہ تیل پیدا کرنے والے چھوٹے چھوٹے ممالک اور ریاستوں نے تیل سے حاصل ہونے والی رقوم کو اپنے پاس رکھنے کی بجائے امریکہ ، برطانیہ ،فرانس ، جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں جمع کرا دیا۔ یہ اس قدر بھاری رقوم تھیں کہ ان ممالک کے بینک سوچ میں پڑ گئے کہ اتنی رقم کا کیا کریں ۔ایسے وقت امریکی سرکاری ادارے اپنے منصوبے کے تحت آگے بڑھے اور ان بینکوں کو استعمال کرتے ہوئے تیل کی یہ ساری دولت تیسری دنیا کے تیل نہ پیدا کرنے والے ان ملکوںکو مختلف قسم کے قرضوںکے نام پر دینی شروع کر دی جو آئے روز تیل کی قیمتوں میں ہونیو الے اضافوں اور اپنے غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور ان کی آڑ میں لوٹ مار کے لیے مزید قرضوں کے شدید ضرورت مند تھے ۔اس کانیتجہ یہ ہوا کہ1973-1982ء کے دوران تیسری دنیا کے تیل پیدا نہ کرنیو الے ممالک نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قیمت کم کرنی شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جیسے ممالک پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے بھی پانچ گنا زیا دہ ہو کر612ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ پھر1980ء کے عشرے کے وسط میں اور پھر گاہے بگاہے سود کی جو بلند شرح مقرر کی جانے لگی اس نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ دوسری طرف قرض کے طور پر ملنے والی ان رقوم کا بڑا حصہ تیسری دنیا کے ان ممالک نے یا تو ضروری غور وخوض کے بغیر تیار کئے گئے منصوبوں پر ضائع کر دیا یا ان ممالک کے حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے ذاتی کھاتوں میں منتقل ہو کر ترقی یافتہ ممالک کے انہی بینکوں میں واپس جا پہنچا جنہوں نے یہ رقوم ان غریب ملکوں کو قرض کے طور پر جا ری کی تھیں۔کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ ان بینکوں میں پیسہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کا،قرض لینے والے ممالک کا اور یہی پیسہ دوبارہ پاکستان جیسے ان ترقی پذیر اور غریب ممالک کو سخت شرائط پر بطور قرضہ دے کر ان کو پابند کیا جاتا ہے کہ بجلی سستی نہیں کرنی، پانی کے بل کم نہیں کرنے ،گیس سستی نہیں کرنی ،آٹے، گھی اور دوسری اشیائے خوردنی پر عوام کو سبسڈی نہیں دینی ،تیل کو سستا نہیں کرنا بلکہ ایک نیا ٹیکس لگا کر اسے مہنگا کرنا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس کا دائرہ پانچ مرلے کے گھروں تک بڑھا ناہے اور جو ہم کہیں کوئی چوں چرا کیے بغیر وہی کرنا ہے اور غلامی کے طوق کو انعام سمجھ کر قبول کرناہے۔ یہ سب کچھ پاکستان جیسے غریب ممالک کے حکمرانوں، سیا ستدانوں اور بیورو کریسی کے ہاتھوںہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی ہر نئی قسط کے ساتھ یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ یہ رقم ہمارے بنائے گئے منصوبوں کی تکمیل اور حاصل کیے گئے قرضوں اور ان پر واجب سود کی ادائیگی کیلئے ہے اور خبردار اپنے ملک کے انتہائی ضرورت مند اور مفلوک الحال لوگوں کی فلاح و بہبود، تعلیم ، اچھی اور سستی خوراک اور صحت عامہ جیسے منصوبوں پر خرچ نہیں کر نی۔ پاکستان جیسے ملکوں کو آئی ایم ایف سے جو قرضے اب ملتے ہیں وہ ’’ مرتے ہوئے مریض کو آکسیجن دے کر زندہ رکھنے کیلئے ہے کیونکہ اگر ’’مریض‘‘ مرگیا تو پھر وصولیاں اور من مانیاں کیسے ہوں گی ؟‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved