تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     28-06-2021

قومی سیاست اور عالمی حالات کا تناظر

پیپلز پارٹی کی علیحدگی کے باعث اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی رفتار کو لگنے والی بریک سے جس قسم کا سیاسی خلا پیدا ہوا تھا‘ اسے پُرکرنے کی کوشش ابھی تک بارآور نہیں ہو سکی اوراپنی تمام تر مساعی کے باوجود سویلین بالادستی کی خاطر جاری سول سوسائٹی کی وہ خاموش مزاحمت بھی جمود کا شکار ہے جس کا بنیادی مقصد قومی سیاست میں غیر منتخب قوتوں کا کردار محدود کرنا تھا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے اس کشمکش کے سارے سٹیک ہولڈرز کنفیوژن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فریقین کے پاس کلیئرٹی ہے نہ وقت، اور نہ ہی حالات اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے والی وہ زندہ و توانا سوچیں جن سے سیاست کے افسانے میں رنگ بھرا جا سکے۔ پچھلے تین سالوں کے دوران گورننس کے بحران کے باعث قومی معیشت روبہ زوال رہی، بنیادی پیداواری یونٹس، جیسے بجلی، تیل اور پانی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے زرعی و صنعتی شعبے کو مضمحل کر دیا۔ اس کساد بازاری نے پیداواری عمل میں حصہ لینے والے مزدورکی زندگی اجیرن بنا دی۔ وسیع پیراڈائم شفٹ کی بدولت خارجہ پالیسی اپنے روایتی محور سے باہر نکلی تو ہماری ہیت مقتدرہ بھی نئے افق تلاش کرنے میں سرگرداں ہو گئی۔ دوسری جانب اپوزیشن میں بھی گورنمنٹ کی ناقص کارکردگی کے خلاف ابھرنے والی ناراضی کی لہرکو کسی مربوط سیاسی بیانیے میں ڈھالنے کی صلاحیت مفقود نظر آئی۔ گویا قوم کا مجموعی فکری رجحان بھٹکے ہوئے کارواں کی طرح نامعلوم منزلوں کی جانب محوِ خرام ہے۔ اب لمبے وقفہ کے بعد پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتیں چار جولائی کو سوات میں احتجاجی جلسے کا انعقاد کرنے جا رہی ہیں جس میں جے یو آئی اور نواز لیگ پوری تنظیمی قوت کو بروئے کار لا کر حکومت مخالف تحریک میں پھر سے جان پیدا کرنے کی کوشش کریں گی لیکن جنوبی ایشیا کی تیزی سے بدلتی صورتِ حال میں اپوزیشن کے روایتی نعروں کی گونج اور حکومتی مساعی‘ دونوں رائیگاں ہوتی نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کے سیاسی غلبے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ممکنہ بحران ایک بار پھر خطے میں سکیورٹی فورسز کے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتا ہے؛ چنانچہ حالیہ بجٹ کی منظوری کے بعد سیاسی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی چند تبدیلیوں کے علاوہ قبل از وقت انتخابات کے امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کے مطابق‘ ارباب بست و کشاد 2022ء میں عام انتخابات کرانے پر متفق ہیں لیکن اپوزیشن 2021ء کے آخر میں جنرل الیکشن کرانے پہ اصرار کر رہی ہے۔
اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ پچھلی دو دہائیوں میں پہلی بار پاکستان نئی امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ 7 اکتوبر 2001ء سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا مرکز بنا رہا لیکن اب خطے میں سکڑتی امریکی فورسز کا وجود واشنگٹن کی سٹریٹیجک سوچ کو نئی شکل دینے والا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ انخلا کے بعد پاکستان امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کا ذریعہ نہیں بنے گا؛ اگرچہ بظاہر ہنگامی نوعیت کی موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ کورونا وبا اور امریکا کے معاشی مسائل پاکستان کو امریکی ترجیحات کی فہرست سے نکالنے کا جواز بتائے جا رہے ہیں؛ تاہم اس وقت امریکا کے لئے سب سے اہم مسئلہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن لانا ہے اور اسی نئی حقیقت نے پھر یہ سوال کھڑا کر دیا کہ امریکا کو پاکستان سے تعلقات بارے ازسر نو سوچنا چاہئے۔ 200 ملین سے زیادہ آبادی کا حامل پاکستان‘ جغرافیائی لحاظ سے خلیج فارس کے دھانے پہ واقع ہونے کے علاوہ زمینی طور پہ ایران، بھارت اور چین سے مربوط ہونے کی وجہ سے پڑوسی ممالک کے استحکام اور وسطی ایشیائی مارکیٹ تک ان کی رسائی کا اہم وسیلہ ہے۔ یہی زمینی حقائق مغربی اور جنوبی ایشیا میں وسیع تر امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس لئے بائیڈن انتظامیہ کو قومی سلامتی کی حکمت عملی تیار کرتے وقت مغربی ایشیا میں وسیع تر سٹریٹیجک مفادات کے اندر نئی پاکستان پالیسی ضرور مرتب کرنا پڑے گی، شاید اسی لئے صدرجوبائیڈن نے اپنی انتظامیہ کو اسلام آباد کو سفارتی طور پہ انگیج رکھنے کی اجازت دی ہے، جو جغرافیائی سیاسی حقائق اور نئے اقتصادی امکانات پر دوطرفہ تعاون کے راستے تلاش کرے گی‘ علیٰ ہذاالقیاس۔ یہاں اگرچہ واشنگٹن کیلئے پاکستان کو انگیج رکھنے کے وسیع مواقع موجود رہیں گے لیکن اب پاکستان کا سٹریٹیجک رجحان بدل رہا ہے۔ معاشی دباؤ اورمغربی اتحادیوں کے نامہربان روّیوں نے پاکستانی سوچ میں تبدیلی کے عمل کو مہمیز دی ہے۔
اس وقت مغربی طاقتوں کا مخمصہ یہ ہے کہ امریکا نے پچھلی دو دہائیوں میں براعظم ایشیا میں جنگ و جدل کو ترجیح دے کر تلخیوں کی ناقابل برداشت فصل کاشت کی لیکن اس کے برعکس چین نے ایشیا میں منظم طریقے سے کاروبار اور اپنے سفارتی تعلقات کو گہرا کر کے مغربی قوتوں کے نفسیاتی اثر و رسوخ کو کند کر دیا۔ پاکستان کئی ایسے چینی منصوبوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے جو وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں توانائی کے ذخائر اور خاص کر نئی منڈیوں تک چین کی رسائی کا مؤثر ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اب تک چین نے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت پاکستان میں بنیادی ڈھانچے، بجلی اور بندرگاہ کی ترقی میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، چین نے پاکستان کو مراعاتی قرضے بھی دیے حتیٰ کہ تین ارب ڈالر کے ان قرضوں کی جگہ بھی لی جو گزشتہ سال سعودی عرب نے اچانک منسوخ کردیے تھے۔ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط سٹریٹیجک شراکت داری کا تسلسل تھی لیکن اب یہ چین کو بندرگاہوں اور سڑکوں تک رسائی دینے کی اُس اضافی جغرافیائی جہت کو بھی نمایاں کرتی ہے جو خلیج عمان اور بحیرہ عرب سے لے کر مغربی چین، وسطی ایشیا اور افغانستان تک پھیلی ہوئی ہے اور جسے پاکستان اورخطے کے وسیع ترمفادات بارے امریکی نقطہ نظرسے جانچنا درست نہیں ہو گا۔پاکستان نے معاشی تحفظ پر مبنی ایک نیا نقطہ نظر پیش کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں، ٹیکنالوجی اور دیگر غیر سکیورٹی امور کے سلسلے میں امریکا کے ساتھ تعاون پہ مشتمل ہو گا، جس کی تفہیم وزیراعظم عمران خان کے مغربی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز اور حالیہ ٹویٹس میں کی گئی۔ اس نئے تصورکو حقیقت بنانے کی خاطر دونوں ممالک کو بہت زیادہ کام کی ضرورت پڑے گی کیونکہ یہی نئی سوچ بنیادی نوعیت کی کئی دیگر تبدیلیوں سے بھی منسلک ہے۔ خلیج تعاون کونسل کی معیشتوں کے خاتمے کے باعث غیرملکی امداد میں کمی، بیرونِ ممالک سے ترسیلات میں کمی اور پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات گھٹ جانے سے ملک اقتصادی مشکلات میں گِھر گیا، پاکستان موجودہ قرضوں کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر طویل عرصے سے ادھار لے رہا ہے لیکن اب یہ ممکن نہیں کہ مختصر سی درمیانی مدت کے قرضوں کے ذریعے ادائیگیوں کا سلسلہ بحال رکھا جائے۔ بلاشبہ پاکستان کو بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے لیکن اس کی ترجیحات میں قرضوں اور معاشی امداد کے ذریعے اپنی معیشت کو بڑھانے کیلئے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا زیادہ اہم ہوگا۔ اسی لئے امریکی اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ حالات کا جبر پاکستان کو ان ممالک سے پالیسی سمجھوتوں پر قائل کر لے گا جو معاشی محاذپر اسے ریلیف دے سکتے ہیں؛ چنانچہ ان حالات میں امریکی پالیسی پاکستان یا خطے میں چین کی معاشی سرمایہ کاری سے ہم آہنگ نہیں ہو پائے گی؛ تاہم وہ پاکستان کی سمت بدلنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ ماضی کے مقابلے میں اس تغیر وتبدل کو ممکن بنانے کے لئے دبائو کے حربے استعمال کرنے کا امکان کہیں زیادہ ہے کیونکہ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں اہم تبدیلیاں ہورہی ہیں جنہوں نے طویل عرصے سے پاکستان کے سٹریٹیجک تعاون کی تعریف کی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved