ایک بار پھر شدید نوعیت کے مخمصے نے سر اٹھایا ہے۔ افغانستان میں امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی افواج نے بوریا بستر باندھ لیا ہے اور انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ یہ عمل مکمل ہونے تک کیا ہوگا‘ اِس کا اندازہ سبھی کو ہے۔ طالبان نے افغانستان کے طول و عرض میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ ایسی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں افغان فوج کے سپاہیوں کو طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ کا دعویٰ ہے کہ افغان فوج اس قابل ہے کہ ملک میں سلامتی برقرار رکھنے کی ذمہ داری نبھاسکے۔ یہ دعویٰ کس حد تک بجا ہے‘ اِس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت سے استفادہ کرنے والے میدان میں آگئے ہیں۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں علاقائی ممالک کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ افغانستان کو ایک بار پھر کمزور کیا جارہا ہے۔ افغان فوج کا مورال گرا ہوا ہے اور اس معاملے میں افغانستان کے صدر پاکستان پر الزام تراشی کا موقع ضائع نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ بیس سال تک امریکا اور اُس کے اتحادیوں سے بھرپور امداد پانے کے باوجود افغان فوج کو اب تک اتنا مضبوط کیوں نہیں کیا جاسکا کہ وہ اتحادی افواج کے بعد ملک کو بہتر طور پر سنبھال سکے؟ پاکستان کے لیے ایک بار پھر فیصلے کی گھڑی آگئی ہے۔ اہم ''پیش رفت‘‘ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے میڈیا کا محاذ بہت عمدگی سے سنبھال لیا ہے۔ پہلے انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا کو ایئر بیس دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان پہلے ہی خاصا نقصان اٹھاچکا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی بے ڈھنگا فیصلہ ملک کو ایک بار پھر شدید بحران سے دوچار کرے گا۔ قومی معیشت ویسے ہی کمزور ہے۔ کورونا وائرس نے بھی حالات کی خرابی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اب اگر افغانستان کے حوالے سے کوئی مہم جوئی کی گئی تو پاکستان کے لیے معاملات کو سنبھالنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔
اب وزیراعظم نے اسلام آباد میں مختصر فلموں کے فیسٹیول کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور یورپی طاقتوں کا ساتھ دیا مگر اس کے بدلے میں کیا ملا؟ بُرا بھلا ہی سُننے کو ملا۔ ہماری نیت پر شک کیا گیا، ہمارے کام کو ناکافی قرار دیا گیا۔ ہم نے بہت کچھ کیا مگر پھر بھی ''ڈو مور‘‘ کی فرمائش کی جاتی رہی۔ اتحادی افواج کا ساتھ دینے کے نتیجے میں پاکستان شدید بحرانوں سے دوچار ہوا، معیشت بھی داؤ پر لگی اور معاشرت بھی۔ عالمی سطح پر ملک کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوگئی۔ افغانستان سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے۔ نائن الیون نے پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بہت کچھ کیا مگر آخر میں جو کچھ سُننے کو ملا اُس نے یاد دلایا ؎
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
اب پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ معمولی سی غلطی ایک بار پھر ہمیں داخلی سلامتی کے بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔ لازم ہوچکا ہے کہ ہر پالیسی بہت سوچ سمجھ کر اپنائی جائے اور کسی بھی فریق کو بے جا طور پر نوازنے یا اُس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ رکھنے سے گریز کیا جائے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اب امریکا سے تعلقات سُود مند ہوں۔ ایک طرف تو وہ سفارتی یا سیاسی سطح پر احترام دے اور دوسری طرف تجارتی روابط بھی موافق ہوں۔ امریکا ہماری اس خواہش کا کس حد تک احترام کرے گا اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ امریکا جس طور بھارت سے روابط رکھتا ہے بالکل اُسی طور پاکستان کو بھی جگہ دے۔ وزیراعظم شاید بھولتے ہیں کہ بھارت نہ صرف یہ کہ بڑی منڈی ہے بلکہ دنیا کو بڑی تعداد میں ورک فورس فراہم کرنے والا ملک بھی ہے۔ بھارت کسی بھی طاقت سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہے‘ ہم نہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اندرونی اختلافات اور تضادات سے جان چھڑانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں بہت کچھ کرنا چاہا۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی چاہتے تھے کہ بندوق وہ چلائیں مگر کاندھا پاکستان کا استعمال ہو۔ پاکستان نے اس دوران جو کچھ پایا‘ وہ کچھ بھی کام نہ آیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرنے پر پاکستان کو جو کچھ ملا اُس سے کم و بیش آٹھ گنا زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سوال صرف معاشی یا مالی نقصان کا نہ تھا‘ جانی نقصان بھی اچھا خاصا ہوا۔ ملک بھر میں دھماکے اور خود کش حملے ہوئے۔ معاشرے کا پورا نظم ہی داؤ پر لگ گیا۔ اب افغانستان میں ایک بار پھر خلا پیدا ہونے کو ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے رخصت ہونے سے معاملات غیر یقینی کیفیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
موجودہ افغان قیادت (حکمران) کسی بھی لحاظ سے اس قابل دکھائی نہیں دیتی کہ مغربی افواج کے مکمل انخلا کے بعد ملک کو ڈھنگ سے سنبھال سکے۔ طالبان کی قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف وہ دارالحکومت کابل کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں اور دوسری طرف افغان قیادت امریکا کے در پر گری ہوئی ہے۔ معاملات بالکل واضح ہیں۔ افغان قیادت چاہتی ہے کہ امریکا اپنی افواج کا انخلا مکمل ہو جانے کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے ضامن کا کردار قبول کرے۔ طالبان پر قابو پانا تنہا افغان قیادت یا فوج کے بس میں نہ ہوگا۔ ایسے میں صدر اشرف غنی امریکا اور یورپ سے کوئی باضابطہ ضمانت چاہتے ہیں کہ طالبان کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کی جاتی رہے۔ امریکا کیوں چاہے گا کہ فوج نکالنے کے بعد بھی اس کا افغانستان کے معاملات سے کچھ تعلق رہے؟ اور بالخصوص ایسا تعلق جس میں ذمہ داری بھی نمایاں ہو؟ افغانستان میں خانہ جنگی امریکا چاہتا ہے نہ پاکستان۔ امریکا اس لیے نہیں چاہتا کہ اُس کی سُبکی ہوگی کہ دو عشرے گزارنے کے بعد بھی ایک تباہ حال ملک کے معاملات درست نہ کرسکا۔ اِدھر پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ افغانستان میں معاملات اِتنے نہ بگڑیں کہ اُسے میدان میں اترنا پڑے۔ وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ کابل پر طالبان کا تصرف قائم ہو جانے پر پاکستان سرحد بند کردے گا۔ افغان حکومت کے ناکام ہو جانے کی صورت میں پناہ گزینوں کا سیلاب پاکستان کا رخ کرسکتا ہے۔ ایسے میں سرحد بند کردینا ہی معقول ترین اقدام ہوگا۔ سب سے زیادہ معنی خیز اور پریشان کن بیان امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ہم افغانستان سے جارہے ہیں۔ اب اپنی تقدیر کا فیصلہ افغانوں کو خود کرنا ہوگا۔ افغان قیادت کے لیے یہ ٹکا سا جواب راتوں کی نیندیں اڑانے دینے کو کافی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے الجھن کا سامان ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں حالات دگرگوں ہیں۔ اشرف غنی کی قیادت میں وہاں کی سیاسی قیادت شدید بے یقینی کا شکار ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ مغرب کے مکمل انخلا کے بعد طالبان سے کیونکر نمٹا جاسکے گا۔ پاکستان پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ منیرؔ نیازی خوب یاد آئے ؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
پاکستان کے لیے بھی افغانستان ایک نئے دریا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بار دانش مندی کا مظاہرہ لازم ہے۔ امریکا کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگا اُسے پُر کرنے کی کوشش کے نام پر اپنی سلامتی و ترقی کو داؤ پر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ہر قدم پُھونک پُھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کی جنگ لڑنے کی گنجائش نہیں رہی۔ ایسا کرنے سے اب اپنا ہی وجود داؤ پر لگ جائے گا۔