تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     29-06-2021

جناب وزیراعظم! رکاوٹ کیا ہے؟

گزشتہ دنوں میرے بہت سے نوجوان قارئین نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ جناب! آپ سیاست کے حصار سے نکلیں۔ کبھی ہمارے دل کی کھڑکی کھول کر ہمارے مسائل اور مصائب سمجھیں اور ہماری دل جوئی اور چارہ گری کا کچھ سامان بھی کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہاں جو چارہ گر ہیں انہیں بھی چارہ گری سے گریز ہے۔ ایک نوجوان مصنف نے نوجوانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی جو کتاب مجھے ارسال کی اس پر میرے نام کے بعد جناب فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر بھی درج تھا کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے‘ بہت لا دوا نہ تھے
نوجوانوں کا اس لحاظ سے مجھ پر بہت حق ہے کیونکہ میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استاد رہا ہوں اور نوجوانوں کی سوچ اور فکر سے بڑی حد تک آگاہ ہوں۔ میں اپنے ذہن کو نوجوانوں کی ''چارہ گری‘‘ پر آمادہ کر چکا تھا اور قلم میرے اشارے کا منتظر تھا کہ اچانک میری نظر اتوار کے روز شائع ہونے والے جناب وزیراعظم کے بیان پر پڑی جس کی تفصیلات پڑھ کر میرا دل بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح جھوم اٹھا۔ جناب وزیراعظم باتیں ہی ایسی کرتے ہیں جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہوتی ہیں۔ یہی اُن کا کمال ہے‘ یہی اُن کا وصف ہے اور یہی اُن کی کشش ہے۔ بقول مرزا غالبؔ
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
وزیراعظم جناب عمران خان نے کہا کہ انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساسِ کمتری ہے‘ دوسروں کی نقّالی کر کے سافٹ امیج پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں سافٹ امیج کی نہیں پاکستانیت کی ضرورت ہے۔ جسے خود سے شرم آئے دنیا اس کی عزت نہیں کرتی۔ ہارنے سے ڈرنے والا شخص کبھی جیت نہیں سکتا۔ خطرات مول لینے سے ہی کامیابی ملتی ہے۔ جناب وزیراعظم نے فلم انڈسٹری سے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا کہ وہ فحاشی کے بجائے اپنا اصل مواد سامنے لائے۔
یوں تو جناب وزیراعظم کی ساری تقریر ہی بڑی دل لگتی ہے مگر گلوں کی مہک دیتی ہوئی اُن کی گفتگو میں سے ایک دو اہم ترین باتوں کا میں نے انتخاب کیا ہے۔ گزشتہ تین برس کے دوران جناب وزیراعظم نے ایک بار نہیں‘ متعدد بار بلکہ بار بار کہا ہے کہ ہمیں اردو زبان میں ہی گفتگو کرنی چاہئے تاکہ سامع ہمارے مدعائے کلام کو سمجھ سکے۔ جناب عمران خان نے کئی بار انگریزی بولنے والوں کا مذاق بھی اڑایا ہے اور کہا کہ یہاں یہ بدیشی زبان سمجھنے والے کتنے ہیں۔ چند روز پہلے تو جناب وزیراعظم نے یہ احکامات بھی جاری کیے ہیں کہ آئندہ ہر تقریب کی کارروائی اردو میں ہو گی۔ اس حوالے سے ہمیں اُن کی نیت پر کسی طرح کا کوئی شک نہیں؛ تاہم ہمیں بے حد حیرت ہوتی ہے کہ اپنی قومی زبان و ثقافت کے بارے میں ایسا برحق وژن رکھنے والے جرأت مند وزیراعظم اپنی قومی زبان کو عدالتوں‘ دفتروں اور تعلیم گاہوں میں نافذ کیوں نہیں کرتے۔ کیا وزیراعظم عوام الناس کی طرح بے اختیار ہیں؟ کیا جناب وزیراعظم کو معلوم نہیں کہ سائل اردو بولتا اور سمجھتا ہے مگر اس کے دردِ دل کا بیان اور اس کی شرحِ آرزو لاکھوں روپے لینے والا وکیل بزبانِ انگریزی کرتا ہے۔ آخر میں جج بھی فیصلہ زبانِ غیر میں ہی لکھتا ہے جسے اپنی قومی زبان بولنے والا پڑھ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح دفاتر میں ساری کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ اکثر دفاتر کی طرف سے جاری ہونے والی ہدایات انگریزی میں ہی ہوتی ہیں جن تک اکثر سائلین کی رسائی نہیں ہو پاتی۔
جناب وزیراعظم! کیا نفاذِ اردو کے بارے میں بابائے قوم کا فرمان آپ کی نظر میں نہیں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق 1988ء تک اردو رائج کرنے کا دستوری تقاضا بھی یقینا آپ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگا۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کا فیصلہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ اردو کو بلا تاخیر تمام سرکاری دفتروں‘ عدالتوں اور بینکوں وغیرہ میں رائج کیا جائے اور سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لیا جائے۔ بحیثیت وزیراعظم آپ کا اپنا وژن بھی یہی ہے۔ پھر قوم یہ جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ نفاذِ اردو میں جو رکاوٹ حائل ہے کیا وہ آپ کے اختیارات سے بالا اور پارلیمنٹ کی پہنچ سے ماورا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گی کہ آپ کے قول اور عمل میں نمایاں تضاد ہے۔
جناب وزیراعظم! اگر آپ اپنی زبان و ثقافت کے لہلہاتے اور برگ و بار لاتے ہوئے اشجار پر بہار کے مناظر دیکھنے کے متمنی ہیں تو پھر آپ کو اپنی قومی زبان کے فوری نفاذ کے ساتھ ساتھ اردو کو تمام سرکاری و نجی سکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کرنا ہو گا۔ شاید آپ کے علم میں نہیں ہو گا کہ آپ کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے قومی سطح پر کئی بار کمٹمنٹ کی کہ سکولوں کی حد تک اردو ہی ذریعہ تعلیم ہو گا مگر اب یہ دونوں وزراء اپنی کمٹمنٹ سے مکر گئے ہیں اور انہوں نے 2021ء میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری تک انگریزی میں کتابیں چھپوا کر کوہ ہمالیہ سے بڑی غلطی کی ہے۔ غالباً انہوں نے ایسا کچھ غیرملکی فنڈز کے حصول اور کچھ بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے کیا ہے۔
انگریزی ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کی یہ غلطی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی کی تھی جس کا پنجاب کی 90 فیصد آبادی کو بدترین خمیازہ بھگتنا پڑا۔ دیہاتی علاقوں میں فیل ہونے اور سکول چھوڑ جانے والے بچوں کی بہت بھاری تعداد سامنے آئی۔ اس پر اساتذہ اور والدین کی طرف سے شدید احتجاج ہوا تو اُس وقت کی حکومت نے عقل کے ناخن لیے اور اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کر لیا۔ جناب وزیراعظم کے اپنے وزرائے تعلیم اُن کے وژن کے خلاف جا رہے ہیں۔ جناب عمران خان نے پنجابی کا یہ محاورہ تو سنا ہو گا کہ ''اکّاں تے اَمب نئیں لگدے‘‘ یعنی آک کے پودے پر میٹھے رسیلے آم نہیں لگتے۔ کیا آپ کے وزرائے تعلیم کو یہ علم نہیں کہ دنیا کے چین جیسے بڑے سے بڑے ملک اور فن لینڈ جیسے چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی اپنی زبان میں تعلیم دے کر مثالی ترقی حاصل کی ہے۔ اس وقت ساری عرب دنیا میں ذریعۂ تعلیم عربی ہے اور ہر یورپی ملک اپنی زبان میں تعلیم دیتا ہے۔
جناب وزیراعظم! آپ نے قوم کی پلکوں میں کئی خوش رنگ خواب سجائے تھے اور اُنہیں بہت سے سہانے سپنے دکھائے تھے۔ اگر آپ اُن میں سے کسی ایک خواب کی تعبیر بھی نہ دے پائے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ اتنے وسیع وژن والا وزیر اعظم بھی کوئی جوہری تبدیلی نہیں لا سکا تو پھر کوئی اور کیونکر لا سکے گا۔ اس طرح قوم یاس و ناامیدی کا شکار ہو جائے گی۔آپ قوم کو عدالتی انصاف نہیں دے سکے تو نہ سہی‘ معاشی خوش حالی نہیں لا سکے تو نہ سہی‘ اور اجتماعی عدل نہیں قائم کر پائے تو نہ سہی مگر فرمانِ قائد کی تعمیل میں اتنا تو کیجئے کہ اردو کو بطور سرکاری زبان اور سکولوں میں ذریعہ تدریس کے طور پر نافذ کر دیجئے۔ نیز سی ایس ایس کے امتحان کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اردو میں لینے کا اعلان بھی کر دیجئے۔ کسی زمانے میں نفاذِ اردو کے سلسلے میں اردو ٹائپ رائٹروں کی کمیابی کا بہانہ بنایا جاتا تھا۔ اب تو کمپیوٹر پر ایک بٹن دبانے سے اردو پرنٹنگ کے وہ وہ پروگرام سامنے آ جاتے ہیں جو انگریزی میں بھی ناپید ہیں۔
جناب وزیراعظم! آپ نے قوم کو خودی اور خودداری‘ پاکستانیت اور اپنی زبان و ثقافت اختیار کرنے کا جو ولولۂ تازہ دیا ہے اس نے دلوں کو گرما دیا ہے۔ اب قوم اس پروگرام کے عملی نفاذ کے لیے آپ کی طرف سے ٹائم لائن کی منتظر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved