تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     29-06-2021

افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستان

وزیر اعظم عمران خان نے ایک غیر ملکی ٹی وی نیٹ ورک اور دو امریکی اخبارات یعنی واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں اپنے ایک آرٹیکل اور انٹرویو میں صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے تناظر میں انسدادِ دہشت گردی کے نام پر امریکی سی آئی اے کو طالبان کے خلاف کارروائی کیلئے اڈے فراہم نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ہم نے افغانستان میں یکطرفہ فوجی کارروائی کی مخالفت کی ہے اور طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ کابل پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں؛ تاہم اگر وہ یلغار جاری رکھتے ہیں اور جس طرح یکے بعد دیگرے افغانستان کے دیہی علاقے ان کے قبضے میں آ رہے ہیں‘ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پاکستان ان کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کرے گا‘ کیونکہ اس صورت میں پاکستان خود دہشت گردوں کے حملے کا شکار ہو جائے گا۔ اس لئے قیامِ امن کی ہر قسم کی کوششوں میں ہم امریکیوں کا ساتھ دیں گے‘ لیکن ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے پاکستان‘ افغانستان میں کسی دھڑے کا ساتھ نہیں دے گا۔
1979ء کے آخری دنوں میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کر کے ملک پر قبضہ کر لیا تھاتو اس قبضے کے خلاف تحریکِ مزاحمت میں پاکستان نے افغان مجاہدین کا ساتھ دیا تھا۔ امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے دیگر ممالک کی طرف سے افغان مجاہدین کو جو امداد فراہم کی جاتی تھی وہ پاکستان کے ذریعے ہی تقسیم کی جاتی تھی‘ اس لئے امریکہ یا مغربی دنیا میں بطور ''فرنٹ لائن‘‘ سٹیٹ پاکستان کے اس کردار کو سراہا جاتا تھا‘ بلکہ اس کے عوض پاکستان کو امریکہ کی طرف سے امداد اور بہت سی رعایات بھی دی جا رہی تھیں۔ ان میں پاکستان کے ذمہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی سہولت اور ایٹمی پروگرام سے متعلقہ اقتصادی پابندیوں میں نرمی بھی شامل تھی‘ لیکن اکتوبر 2001ء میں جب امریکیوں نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے ذریعے طالبان کی حکومت ختم کر کے کابل میں شمالی اتحاد کی حکومت قائم کر دی تو افغانستان میں ایک بالکل مختلف صورتحال نے جنم لیا۔ افغانستان کی جنگ میں امریکہ اب خود ایک بڑے فریق کی حیثیت سے حصہ لے رہا تھا۔ اس کیلئے اس نے پاکستان سے سہولت کاری کی درخواست کی‘ جسے پرویز مشرف کی حکومت نے فوراً قبول کر لیا اور گرائونڈ لائنز آف کمیونی کیشن (GLOC) ایئر لائنز آف کمیونی کیشن (ALOC) کے ذریعے بالترتیب پاکستان کی سڑکوں اور شاہراہوں کو افغانستان میں لڑنے والی امریکی اور نیٹو افواج کیلئے اسلحہ‘ گولہ بارود سپلائی کرنے کی اجازت دے دی۔ ان رعایات کے عوض امریکہ پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ادائیگی کے علاوہ اقتصادی اور فوجی امداد بھی فراہم کرتا رہا۔ پاکستان کے ذرائع کے مطابق ان حوالے سے پاکستان کو ملنے والی کل امریکی امداد 20 بلین ڈالر تھی جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم جنوری 2018ء کو اپنے مشہور ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 2002ء کے بعد پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی امداد کی اصل مالیت 34 بلین ڈالر تھی۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی کے باوجود امریکہ کو شروع سے ہی شکایت تھی کہ پاکستان طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ اور افغان حکومت کی مدد کیلئے جو کچھ کر سکتا تھا‘ اتنا نہیں کیا۔ اسی کو پاکستان اور دنیا بھر میں امریکہ کی طرف سے پاکستان سے ''ڈو مور‘‘ کے مطالبے کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن اب وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان نہ ڈو مور کے مطالبے کو انٹرٹین کرے گا اور نہ امریکہ کو افغانستان میں فوجی کارروائی کے لئے اڈا فراہم کرے گا۔
پاکستان میں وزیر اعظم کے اس موقف کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے‘ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان امریکہ کو بائی بائی ‘ٹاٹا کہہ رہا ہے؟ اور کیا پاکستان افغان معاملات سے الگ تھلگ رہ سکتا ہے؟ دونوں سوالات کا جواب ایک بڑا No ہے۔ دوسرے سوال کا پہلے جائزہ لیتے ہوئے تین اہم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ افغانوں کو حل کرنا چاہئے۔ باہر سے کوئی قوت افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتی۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان نہ امریکہ کو اڈے دے گا اور نہ افغان طالبان کے خلاف قوت استعمال کرے گا اور اگر طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو پاکستان افغانستان کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد کو سیل کر دے گا‘ لیکن گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان افغانستان میں اتنی پولیٹکل انویسٹمنٹ کر چکا ہے کہ اس کیلئے افغانستان کے معاملات سے الگ تھلگ رہنا تقریباً نا ممکن ہے۔ اگر وزیر اعظم کے بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ پاکستان نے افغانستان سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو وزیراعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معید یوسف نے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں کیوں کہا کہ پاکستان افغانستان کی سرزمین کو اپنے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان کیلئے افغانستان میں موجود صورتحال پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ افغانستان کے تمام دھڑوں کے درمیان اتفاق کی بنیاد قیام امن کی کوششوں کو ڈی ریل نہ کیا جا سکے۔ اس لئے جہاں تک افغانستان میں امن‘ سلامتی اور استحکام کا سوال ہے پاکستان کا اس میں ایک اہم کردار رہا ہے اور یہ کردار رہے گا۔ مشکل صرف یہ ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کے بعد اور افغان حکومت کے حالیہ معاندانہ بیانات کی روشنی میں افغانستان میں امریکہ اور صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنا پاکستان کیلئے ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب روس‘ چین‘ ترکی اور وسطی ایشیا کے ریاستوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی موجودہ صورتحال کو ایک خطرناک خانہ جنگی میں تبدیل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا پاکستان نے امریکہ سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے وزیراعظم یا حکومت کے کسی اہم عہدے دار نے اپنے کسی بیان میں اس کا عندیہ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً 70 سالوں سے قائم پاک امریکہ تعلقات وسیع اور گہرے ہیں۔ اتنے گہرے کہ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے Disengage ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ البتہ ان تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ 1970 ء کی دہائی میں پاکستان سے امریکی سرپرستی میں قائم دفاعی معاہدوں سے علیحدگی اختیار کر کے غیر جانب دار تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی‘ مگر امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات قائم رہے۔ اس وقت امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ معیشت‘ تعلیم‘ توانائی‘ پانی کے ذخائر کی دیکھ بھال اور صحت جیسے شعبوں میں اس وقت بھی پاکستان اور امریکہ کے مابین انتہائی سود مند تعاون جاری ہے‘ البتہ تعلقات کی سطح وہ نہیں ہو گی جو گزشتہ 20 سالوں میں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی عالمی اور علاقائی ترجیحات میں اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ امریکہ کیلئے چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے آگے بند باندھنا اولین ترجیح ہے۔ افغانستان سے فوجیں نکال کر اور مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجوں کی تعداد میں کمی کر کے امریکہ اپنی تمام تر توجہ‘ توانائیاں اور وسائل چین کے مسئلے پر فوکس کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کیلئے اب افغانستان کے بجائے یہ نئے جیوپولیٹکل حقائق اور اس میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ سب سے بڑا چیلنج ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved