تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-06-2021

’’ارے! پتا ہی نہیں چلا!‘‘

وقت بھی کیا غضب کا اداکار ہے کہ اِس کا کوئی بھی سوانگ ہماری سمجھ میں آتا ہی نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اِتنے رنگ بدلتا ہے کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کون سا رنگ کس رنگ سے بڑھ کر تھا۔ وقت سب کا ہے اور کسی کا بھی نہیں۔ یہ اپنے آپ میں اچھا ہے نہ بُرا۔ ہم جیسا چاہیں یہ ویسا دکھائی دیتا، محسوس ہوتا ہے۔ اگر ہم میں نظم و ضبط پایا جاتا ہو تو وقت بہت اچھی طرح گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ اور ہم اپنے پورے وجود کو انتشار کی نذر کرچکے ہوں تو کسی بھی مرحلے پر وقت ہمیں سکون فراہم نہیں کرتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ وقت کا کام اگرچہ گزر ہی جانا ہے مگر مزا تب ہے کہ یہ اچھی طرح گزرے اور ہم کسی بھی مرحلے میں غیر ضروری طور پر پچھتاوے کا شکار نہ ہوں۔ کوئی بھی پچھتاوا اپنے آپ میں غیر ضروری نہیں ہوتا مگر اپنی کوتاہیوں کے ذریعے کسی بھی معاملے میں پچھتاوے کی گنجائش پیدا کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟
زندگی کا ہر مرحلہ، ہر رنگ ہماری توجہ چاہتا ہے۔ اگر ہم کسی بھی معاملے کو نظر انداز کریں تو معاملات کے بگڑنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بہت چھوٹے معاملات بھی ہماری کوتاہی یا عدمِ توجہ کے ہاتھوں بہت بڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں تادیر خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ روئے ارض پر ہم جتنی مدت بھی رہتے ہیں وہ کئی حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ یہ تقسیم قدرت کی طرف سے ہے۔ قدرت ہی ہمیں اس تقسیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق بھی عطا کرتی ہے۔ جب ہم زندگی کو پوری توجہ کے ساتھ بسر کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں تب زندگی کے سارے رنگ کِھلتے چلے جاتے ہیں۔ اگر معاملہ اِس کے برعکس ہو تو کب کیا ہوگیا، ہمیں کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔
وقت کے گزرنے کی رفتار کا اندازہ حالات کی مناسبت سے بدلتا رہتا ہے۔ اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ہم منظم انداز سے جیتے ہیں، ہر اہم معاملے میں منصوبہ سازی کرتے ہیں، اپنی صلاحیت و سکت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں تب وقت کے گزرنے کا احساس خاصا خوشگوار ہوتا ہے۔ جب ہم نظم و ضبط کے پابند رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں تب کسی بھی معاملے کو غیر ضروری طور پر نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ یہ کیفیت ہمیں عجیب سے انبساط سے سرشار رکھتی ہے۔ یہی زندگی کا اصل حُسن اور لطف ہے۔ جو لوگ زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے وہ پریشان ہی رہتے ہیں۔ نظم و ضبط کا پابند رہنا زندگی کو کسی نہ کسی خاص ڈگر پر ڈالتا ہے اور یوں ہم بہتر انداز سے اپنے اور دوسروں کے لیے بہتری کی گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ زندگی مجموعی طور پر وقت کے مختلف ادوار کا نام ہے۔ اللہ کی طرف سے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ہم مختلف ادوار و مراحل میں جئیں۔ زندگی کا اصل حُسن اِس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہم کسی بھی کام کو اُس کے موزوں ترین وقت پر کریں۔ وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے جینا ہمیں بہت سے معاملات میں عجیب سی سرخوشی سے سرشار ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
فطری علوم و فنون کے ماہرین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ وقت کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ کائنات میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہیں۔ سُورج طلوع و غروب ہوتا ہے تو ہمیں دن کے گزرنے اور رات کے آنے کا احساس ہوتا ہے۔ اِسی طور سیارے اور ستارے گردش میں رہ کر ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اگر کہیں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو، ستارے اور سیارے ساکت ہو جائیں اور ہمیں اُن میں ذرا بھی حرکت محسوس نہ ہو تو؟ وقت کے گزرنے کا احساس کس طور ہوگا؟ اور کیا ایسے میں وقت رہے گا بھی یا نہیں۔ وقت سے متعلق علمی یا فلسفیانہ بحث اپنی جگہ۔ ہمیں تو وقت کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔ عام آدمی کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ وقت ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ وہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ وقت کسی نہ کسی طور اچھی طرح گزرے۔ اچھی طرح گزرا ہوا وقت ہی ہمیں زندگی کے روشن پہلو سے روشناس کراتا ہے۔ اگر ہم وقت کے حوالے سے لاتعلقی جیسی کیفیت سے دوچار رہیں تو معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
کامیاب انسان وہ ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدلتا جائے، زندگی کے خاکے میں زیادہ سے زیادہ رنگ بھرنے پر متوجہ رہے اور کسی بھی صورتِ حال کے حوالے سے اپنے آپ کو آزمانے سے گریزاں نہ رہے۔ وقت ہر موڑ پر ہم سے ایسی طرزِ فکر و عمل کا متقاضی ہوتا ہے جو صورتِ حال سے مطابقت اور موزونیت رکھتی ہو۔ جب ہم کسی بھی صورتِ حال کے مطابق اپنے فکر و عمل کی تطہیر و تہذیب کرتے ہیں تب معاملات ہمارے حق میں ہو پاتے ہیں۔ جینے کا مزا ایسی حالت ہی میں آتا ہے۔ جب ہم زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور بیشتر معاملات میں عدمِ توجہ کو ترجیحاً اپناتے ہوئے چلتے ہیں تب زندگی مجموعی طور پر عدم توازن کی نذر ہوتی جاتی ہے۔ کسی بھی موقع کی مناسبت سے موزوں ترین طرزِ فکر و عمل نہ اپنانا ہمارے لیے صرف الجھنوں کا سامان کرتا ہے۔ ایسی حالت میں گزرنے والا وقت ہمارے تمام معاملات کو بگاڑ دیتا ہے۔
جو لوگ بہت محنت کرتے ہیں اور زندگی کے ہر مرحلے کا حق ادا کرتے ہوئے چلتے ہیں اُن کے پاس خوش گوار یادوں کا خزانہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ یادوں کے سہارے بھی جی لیتے ہیں۔ وقت اچھی طرح گزارا گیا ہو تو خوش گوار یادوں کا اہتمام کر جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کسی بھی صورتِ حال کا حق ادا کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے اور کسی نہ کسی طور وقت کو دھکا مارتے ہوئے جیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس خوش گوار یادیں برائے نام بھی نہیں ہوتیں۔ وہ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ گزرے ہوئے وقت نے کسے کیا دیا ہے۔ انہیں جب اپنی زندگی کو خوش گوار یادوں سے مزیّن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تو پھر دوسروں کے بارے میں وہ کچھ بھی کیوں سوچیں گے؟ وقت اچھی طرح گزرا ہو یا بُری طرح، انسان کو آخرش یہ احساس ہوکر ہی رہتا ہے کہ ارے! کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ یعنی وقت کتنی تیزی سے گزر گیا حالانکہ وقت تیزی سے گزرتا ہے نہ سُست روی سے۔ اِس کی اپنی چال ہے جو تبدیل ہونے کا نام نہیں لیتی۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں دستیاب وسائل میں صرف وقت ہے کہ جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ جس چیز میں اضافہ ممکن نہیں اُس کا استعمال بھرپور توجہ اور سکت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ وقت دیکھتے ہی دیکھتے گزر جاتا ہے۔ اپنی زندگی ہی پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ بچپن اور لڑکپن کب گزرا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ عنفوانِ شباب کا زمانہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے اُڑن چُھو ہوجاتا ہے اور جب تک ہمیں ہوش آتا ہے تب تک جوانی کے دور کا بھی وسط گزر چکا ہوتا ہے۔ اِس کے بعد وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس توانا ہوتا جاتا ہے۔
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں معاملات کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے، اس حقیقت کو تو ماننا ہی پڑے گا کہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس پروان چڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں زیادہ چوکنّا رہتے ہوئے جینا لازم ٹھہرا۔ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ ہمارے حواس پر دن رات حملے ہو رہے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ تو ہم سے ہو نہیں پارہا اور لایعنی قسم کے معاملات ہمارا وقت بھی ڈکارتے جارہے ہیں اور صلاحیت و سکت کو بھی ضائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایک ایک لمحہ سوچ سمجھ کر گزارنا لازم سمجھیے۔ اس سے پہلے کہ دل و دماغ پر تبدیلیوں کی ضرب پڑے، زندگی بسر کرنے کا ایسا ڈھنگ اپنائیے کہ بعد میں یہ دکھ نہ ستائے کہ وقت تو دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا، کچھ پتا ہی نہیں چلا اور ہم سے تو کچھ ہو ہی نہیں پایا۔ قصہ مختصر، وقت کا ہر پہلو ہم سے بھرپور توجہ کا طالب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved