تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     30-06-2021

ٹھنڈی مرغی سے ٹھنڈے ضمیرتک

اس کالم کو گزشتہ کالم کا تسلسل یا گزشتہ سے پیوستہ کہا جاسکتا ہے جس کی اشاعت کے بعد قارئین سمیت قریبی حلقہ احباب کی طرف سے آنے والے رد عمل اور فیڈ بیک نے مجبور کیا کہ ٹھنڈی مرغی کا ناجائز کاروبار تو ہمارے سماج کا ایک بدصورت اور مکروہ چہرہ ہے جبکہ ایسے انگنت دھندے ہماری گورننس اور اخلاقی قدروں کا منہ چڑا رہے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ریڑھی بان سے لے کر دکاندار تک ‘آڑھتی سے لے کر کارخانہ دار تک سبھی کے درمیان ہوسِ زر کی دوڑ کا سماں ہے۔سبھی اپنی اپنی پہنچ کے مطابق معاشرے کو نوچ رہے ہیں۔جس کے جتنے بڑے دانت ہیں وہ اتنی ہی بڑی بوٹی اڑا رہا ہے۔ شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کی اولین اور بنیادی خوراک‘ دودھ بھی انہیں پلانے کے قابل نہیں۔ جان بچانے والی ادویات بھی جہاں اپنے رسک پر کھانا پڑیں وہاں ٹھنڈی مرغی جیسی بے حسی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بیرونی ممالک سے بین الاقوامی برانڈز کے زائد المیعاد خشک دودھ کے ڈبے سکریپ کے نام پر منگوائے جاتے ہیں‘ جن کی تاریخِ میعاد دوبارہ پرنٹ کر کے انہیں تازہ اور قابلِ استعمال ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹن پیک مشروبات‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ سمیت دیگر اشیائے خورو نوش کے حوالے سے بھی سوچ اور اپروچ یہی ہے کہ بس دھندا چلنا چاہیے۔کوئی جیئے یا مرے ان کی بلا سے۔ جبکہ زیادہ کمانے کی دھن میں کاسمیٹکس سے لے کر ملکی و غیر ملکی برانڈز کے جعلی سگریٹس تک ملک بھر میں سپلائی کیے جاتے ہیں جو بڑے بڑے سٹورز سے لے کرگلی محلے کی دکانوں تک فروخت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح چائے کی پتی سے لے کر اسپغول کے چھلکے تک‘ مرچ مسالوں سے لے کربیسن تک‘ دالوں اور خوردنی تیل سے لے کر گھی سمیت نجانے کس کس چیز میں کیا کیا زہر کس دیدہ دلیری اور سفاکی سے ملایا اور عوام کو کھلایا جارہا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے نام پر ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث عناصر عوام کو موذی بیماریوں اورموت سے دوچار کر کے اپنی اپنی دنیا سنوارنے میں مگن ہیں۔ ان چشم کشا حقائق کی تصدیق کے لیے کسی راکٹ سائنس یا ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہرشہر میں ایسی چور مارکیٹیں ان اشیا کے سٹاک سے بھری پڑی ہیں۔ جب جب ان سفاک اور جعلساز تاجروں پر کڑا وقت آیا ان کے لیڈر اِن کی امداد اور پشت پناہی کے لیے آن کھڑے ہوتے ہیں۔کارروائی کرنے والے سرکاری ادارے کو مجبور اور قائل کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے باز رہیں بصورتِ دیگر مزاحمت کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سمگل شدہ آئٹمز میں کپڑے سے لے کر ضروریاتِ زندگی کی سبھی اشیا کی کھلے عام فروخت حکومتی اداروں اور سمگلرز کے گٹھ جوڑ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جعلی اور ممنوعہ ادویات کی پیکنگ‘ پرنٹنگ اور سٹوریج پر بھی ان مارکیٹوں میں کوئی ممانعت نہیں۔ انسانی جانوں سے کھیلنے کے لائسنس یہاں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ ایک مفت مشورہ پیش خدمت ہے کہ ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے معیار کا جائزہ لے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔دکانوںکی ملکیت سے لے کرنقشوں کی منظوری تک ہر معاملے میں دھونس‘ دھاندلی اور داداگیری کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔ راہداریوں سے لے کر گلیوں تک‘ گندے نالوں سے لے کر سرکاری اراضی تک‘ سبھی پر برابر ہاتھ صاف کیا گیا ہے اور رہا تعمیرات کا معاملہ تو نقشہ تو درکنار تہہ خانوں کی تعمیر پر پابندی کے باوجود تعمیر شدہ پلازوں میں تہہ خانے نکالے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں عوام کے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کا ضیاع بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کارِ بد میں ملوث لوگوں کو نہ تو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا سامنے آیا ہے۔ سبھی حکمرانوں نے انہیں من مانی کا لائسنس جاری کیا اور مال بنانے کی کھلی چھٹی دیے رکھی۔
یہ سارا کچھ رہنماؤں کی اشیرباد اور پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشی بدحالی کا رونا رونے والے کاروباری اداروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد‘ اور برانچوں کی بھرمار اور گاہکوں کا ہجوم دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ مہنگائی اور گرانی ان کا بھی مسئلہ ہے۔ اسی طرح پوش علاقوں میں واقع ریسٹورنٹس میں ہاؤس فل اور باہر کھڑی بیش قیمت گاڑیوں کی قطاریں بے اختیار یہ کہنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ان ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھانے والوں کی شکم سیری کے بعد بچ جانے والے کھانے کی قیمت کسی کے مہینہ بھر کے راشن کے مساوی ہوتی ہے۔ اشرافیہ کے کتوں کی خوراک کابجٹ نجانے کتنے خاندانوں کے ماہانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ ثانوی سے بھی کم سماجی اور مالی پس منظر رکھنے والے بیشتر کردار کئی پلازوں‘جائیدادوں اور بیش قیمت گاڑیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور ان کے کاروبار کا ہوشربا حجم ہی ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ خود کو حکومتی پکڑ اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچانے کے لیے یہ رہنما اپنی کمیونٹی کو دفاعی لائن کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔اپنے محبوب رہنماؤں کے مفادات کے تحفظ کی بھینٹ چڑھنے کو تیار یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ کس کس طرح اور کہاں کہاں استعمال ہو رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اثاثوں‘ کاروبار‘ لگژری گاڑیوں اور غیر معمولی ترقی کی منی ٹریل طلب کی جائے اور ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ ان کا شاہانہ ٹھاٹ باٹ ان کے ماضی سے متصادم کیوں ہے۔ راتوں رات اور قلیل ترین عرصے میں کون سا تیل نکلا ہے‘ ہیرے جواہرات کی کون سی دیگ اُن کے ہاتھ لگ گئی ہے؟ جس دن ان لوگوں سے ان کی ترقی خوشحالی اور ٹھاٹ باٹ کا حساب طلب کر لیا گیا ٹیکس چوری کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔
مخصوص مفادات رکھنے والے لوگوں کی ڈوریاں کہاں سے اور کیسے ہلائی جاتی ہیں اور اس حوالے سے واقفانِ حال بخوبی آگاہ ہیں اور ان کی پشت پر موجود قوتوں کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے سبھی حکمرانوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ حکمرانوں کی سہولت کاری کے عوض ان لوگوں نے بھی لمبا مال بنانے سے لے کراثر و رسوخ تک‘ سبھی مراعات اور اختیارات سے لطف اٹھایا اور مقتدر حلقوں تک رسائی بھی حاصل کی۔ ایسے میں عوام ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک‘ اوزان و پیمائش میں ڈنڈی مارنے سے لے کر ملاوٹ تک‘ مکروفریب سے لے کر حق مارنے تک‘ لوٹ کھسوٹ سے لے کرمار دھاڑ تک‘ اس کارِ بد میں سبھی شریک اور ذمہ دار ہوں تو معاشرے کا اجتماعی مکروہ چہری کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کہ؎
مرچ میں اٹھاؤں تو اینٹ کا برادہ ہے
دودھ پانی پانی تو شہد لیس چینی کی
وردیوں میں ڈاکو ہیں عصمتوں پہ بولی ہے
بھوک مرنے والوں کی دیر تک رُلاتی ہے
رش تماش بینوں کا بے زبان لاشوں کا
جس جگہ میں رہتا ہوں‘ بے حسوں کی جنت ہے
چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ جس معاشرے میں ٹھنڈی مرغی کو باقاعدہ تجارت سمجھا جاتا ہو وہاں ضمیر بھی ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے اور گورننس کسی مردہ خانے کے فریزر میں دکھائی دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved