گل پھول
گلاب سے لے کر گوبھی تک‘ پھول کئی قسموں کے ہوتے ہیں، اسی لیے اسے پھول گوبھی کہتے ہیں، البتہ بند گوبھی پھول کے بجائے وہ غنچہ ہوتاہے جو ابھی کِھلا نہ ہو حتیٰ کہ حقے کی چلم کو بھی پھول کہا جاتا ہے۔ موتیا کے پھول کی افادیت یہ بھی ہے کہ اسے مار کر سوئے ہوئے محبوب کو جگایا جا سکتا ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا بھر کے محبوب سوئے ہی رہتے۔ موتیا آنکھ میں بھی اتر آتا ہے لیکن اس موتیے کا ہار نہیں پر ویا جا سکتا۔ پھول میٹھے بھی ہوتے ہیں اور کڑوے بھی، مثلاً کریلے کا پھول کڑوا ہوتا ہے جبکہ میٹھے پھول کو گلقند کہتے ہیں، کسی موٹے تازے اور پھولے ہوئے شخص کو بھی پھول کہہ سکتے ہیں۔ پھولدار کپڑا وہ ہوتا ہے جو پھولوں سے بنا ہوا ہو لیکن بعض آنکھوں میں جو پھولا ہوتا ہے، اسے پھول نہیں کہہ سکتے۔ جو جیت جائے اسے پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں حالانکہ ہار‘ ہارنے والے کا حق ہوناچاہیے۔ خود رو پھولوں کی طرح خود رو کانٹے بھی ہوتے ہیں اس لیے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، باغ باغ ہونے کا پھولوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھول کاڑھے بھی ہوتے ہیں اور کڑھا ہوا پھول باسی کڑھی سے بہتر ہوتا ہے۔ گلاب کو پھولوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اس لیے رات کی رانی کو اس کی ملکہ ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں! کلیوں اور پھولوں کے ہار خوب بکتے ہیں جبکہ گوبھی کے پھولوں کے ہار بھی فروخت ہونا چاہئیں تا کہ جب جی چاہا ہار میں سے ایک پھول نکالا اور پکا لیا۔ بڑا پھول اس کو کہتے ہیں جو پھول کر کپّا ہو چکا ہو۔ کلہاڑی کے دستے کی طرح پھولوں کا بھی دستہ ہوتا ہے جسے گل دستہ کہتے ہیں۔
چہرہ مہرہ
اوپر سے شروع کریں تو سب سے پہلے بال آتے ہیں، بال بیکا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان میں جوئیں بھی پالی جا سکتی ہیں جو کانوں پر رینگنے کا نام تک نہیں لیتیں۔ اس کے بعد ماتھا ہے جو ٹھنکتا ہے، اسے ٹیکا بھی جاتا ہے اور اس پر بل بھی لایا جا سکتا ہے تاکہ آدمی کے کس بل کا اندازہ ہو سکے۔ آنکھ مارنے اور مٹکانے کے کام آتی ہے۔ یہ پھیری بھی جاتی ہیں اور ٹسوے بہانے کے بھی کام آتی ہیں جبکہ اس سے مگر مچھ کے آنسو بہانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ پلکیں صرف جھپکنے اور جھپکانے کے لیے ہوتی ہیں۔ بعض ضروری کام پلک جھپکنے میں بھی کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ کسی ہلکے پھلکے شخص کو پلکوں پر بٹھایا بھی جا سکتا ہے؛ البتہ بھنوئوں کا کوئی مصرف ہماری سمجھ میں نہیں آتا ماسوائے ناک بھوں چڑھانے کے۔ گال پھلائے جاتے ہیں تا کہ ناراضی کا اظہار کیا جا سکے، ان میں گڑھے بھی پڑتے ہیں جنہیں کھودا نہیں گیا ہوتا۔ ٹھوڑی منت سماجت کرتے وقت ہاتھ لگانے کے کام آتی ہے۔ شیو نہ کرنے کی صورت میں نتیجہ داڑھی کی صورت میں نکلتا ہے جسے فرنچ کٹ بنانے کے لیے فرانس کا چکر لگانا ضروری ہوتا ہے۔ مونچھیں صرف تائو دینے کے لیے ہوتی ہیں اور ہونٹ محض ہلائے جاتے ہیں۔ ناک نکیل ڈالنے کے کام آتی ہے۔ اس سے زمین پر لکیریں بھی نکالی جاتی ہیں۔ یہ طوطے جیسی بھی ہوتی ہے اور کٹوائی بھی جاتی ہے اور بعض اوقات اس کو اونچا رکھنے کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ کان‘ کانوں کان خبر دینے اور کترنے کیلئے ہوتے ہیں، یہ پکڑے اور مروڑے بھی جاتے ہیں۔ دو کان اس لیے ہوتے ہیں تا کہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑائی جا سکے۔ یہ دیواروں کے بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ کانوں کے کچے ہوتے ہیں انہیں اپنے کان پکوانے بھی پڑتے ہیں۔ دانت ہنستے وقت نکالے جاتے ہیں یا خراب ہونے پر، عقل داڑھ عقلمندی ظاہر کرنے کے لیے ہوتی ہے جبکہ داڑھ کو گرم بھی کیا جاتا ہے۔ دودھ کے دانت دودھ سے تیار کیے جاتے ہیں۔ گلا دبانے کے لیے ہوتا ہے؛ البتہ گلے لگنے میں گلا ہرگز استعمال نہیں ہوتا، کسی کے گلے پڑا بھی جا سکتا ہے۔
زمین و آسمان
زمین پر ہم رہتے ہیں جو آسمان سے اتارے ہوئے ہیں اور دوبارہ جانے کے لیے طوعاً و کرہاً تیار بھی ہوتے ہیں، رات کو چاند ستارے بھی ظاہر ہوتے ہیں جبکہ ہم فلمی ستاروں پر گزارہ کرتے ہیں یا اپنی بیویوں پر۔ کبھی آپ کا سر چکرا رہا ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمیں ہر وقت سورج کے گرد گھومتی اور چکر کاٹتی رہتی ہے۔ زمین دوز کا مطلب زمین دوز ہی ہوتا ہے جبکہ زمین دوز اور آبدوز میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جس پانی میں ہوتی ہے وہ بھی زمین ہی پر ہوتا ہے۔ کہکشاں کو مِلکی وے بھی کہتے ہیں حالانکہ اس کا دودھ کے ساتھ کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ بارش کے بعد قوسِ قزح کا ظہور ہوتا ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بارش سے پہلے اور بعد میں کہاں ہوتی ہے۔ آسمان کا رنگ بھی ہوتا ہے حالانکہ زمین کا رنگ بھی ہونا چاہیے لیکن نہیں ہوتا۔ غزل کی بھی ایک زمین ہوتی ہے لیکن اس کا کوئی آسمان نہیں ہوتا۔ بارش کے دوران بجلی کسی نشیمن پر بھی گر سکتی ہے جبکہ اس بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی، نہ ہی اس کا کوئی میٹر ہوتا ہے جسے آگے پیچھے کرنا پڑے۔ زمین پر دریا اور سمندر ہوتے ہیں جن میں کود کر جان بھی دی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پہاڑ پر چڑھ کر بھی کودا جا سکتا ہے، اول تو پہاڑ کی چڑھائی کے دوران ہی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور کودنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ آسمان سر پر بھی اٹھایا جاتا ہے، اور اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی بھی پائی گئی ہیں۔ زمین پر شہر ہوتے ہیں جن پر شہرِ آشوب لکھے جاتے ہیں جبکہ خاک اڑانے کے لیے ریگستان اور گھوڑے دوڑانے کے لیے میدان ہیں، جبکہ ہمارے بزرگ بحرِ ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑا چکے ہیں!
اور‘ اب آخر میں محمد اظہار الحق کی یہ غزل:
سنہری پارچے سے ڈھانپ کر بھیجے گئے تھے
ٹرے میں رکھ کے شہزادوں کے سر بھیجے گئے تھے
جنازہ گاہ میں کچھ لوگ بالکل اجنبی تھے
زمیں کے پار بھی پیغام بر بھیجے گئے تھے
کوئی بھی منزلِ مقصود پر زندہ نہ پہنچا
یہ قاصد کون سے دے کر خبر بھیجے گئے تھے
ہمیں معلوم تھا ناکام ہونا ہے مہم نے
ہمیں معلوم ہے جو معتبر بھیجے گئے تھے
ابھی تک میرے نخلستان بھی ٹھہرے ہوئے ہیں
حلب سے قافلے جو کاشغر بھیجے گئے تھے
اسے اڑتا ہوا اک ایلچی بھیجا تھا ہم نے
ہمیں اس کے دریدہ بال و پر بھیجے گئے تھے
ہمیں عبرت دلانا تھی کہ خاک اڑتی ہے کیسے
ہمارے درمیاں اہلِ بدر بھیجے گئے تھے
آج کا مطلع
یوں تو ہے زیرِ نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
پھر نہیں دیکھا ہے وہ رنگِ ہوا دیکھا ہوا