ہر روز بڑھتی مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا محال کر دیا ہے، لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں، سفید پوشوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں، جن گھروں میں کئی کئی پکوان پکائے جاتے تھے‘ اب اگر ان کے کچن میں دوپہر کو چولہا جلے تو شام کو بند رہتا ہے اور اگر شام کو جلانا ہو تو دوپہر کو بند رکھنا پڑتا ہے، بھوک نے چوری و ڈکیتی سمیت سٹریٹ کرائمز میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، بھوک مٹانے کیلئے لوگ ہر جائز و ناجائز کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، صرف یہی نہیں اب تو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آنے والے کئی افراد کے بچوں سمیت خودکشی کرنے کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس وقت ملکی معیشت کے زمینی حقائق بہت تلخ ہیں اور ایک عام شخص بھی یہ جانتا ہے کہ معاشی حالات جس قدر سخت اور مشکل ان تین برسوں میں ہو چکے ہیں‘ ماضی میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
عوام کی حالتِ زار تو بدل نہ سکی، لوگوں کی آمدن بڑھی اورنہ ہی قوتِ خرید بہتر ہوئی بلکہ موجودہ دور میں لاکھوں ڈیلی ویجز سرکاری ملازمین کی برطرفی اور نجی اداروں کی بندش سے بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ مہنگائی کا گراف اوپر سے اوپر ہی چلتا چلا جا رہا ہے۔ کسی بیروزگار شہری کی بات تو چھوڑیں‘ چھوٹے سرکاری ملازمین کا گزارہ بھی انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی کی آمدن تو صرف مکان کے کرائے، بجلی و گیس کے بلوں اور موٹر سائیکل کے پٹرول پر ہی خرچ ہو جاتی ہے اورگھر کاچولہا جلانے اور تن ڈھانپنے کیلئے پارٹ ٹائم جاب یا کوئی سائیڈ بزنس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جو موجودہ حالات میں ممکن ہی نہیں رہا، پھر غریب آدمی کہاں جائے‘ کیا کرے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار طلبہ کی قابلِ ذکر تعداد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کیلئے کام کرنے پر مجبور ہے، اس کے باوجود عام گھرانوں کی تنگ دستی جان چھوڑنے کا نام لینا تو کجا‘ لوگوں کی جان لینے پر تُلی ہوئی ہے۔
دوسری طرف وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی کی نظر میں ملکی معیشت بڑی تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو چکی ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے اپنی لا علمی کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ ملک میں کوئی غریب ہے ہی نہیں، انہوں نے اپوزیشن کو چیلنج کیا ہے کہ اگر ملک میں کہیں کوئی غریب ہے تو بتایا جائے کہ کہاں ہے؟ حکمرانوں کو اب غریبوں کی آہ و بکا بھی اپوزیشن کا ڈرامہ لگتی ہے لیکن انہیں اس بات کی حقیقت اس وقت معلوم ہو گی جب آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی، اور ان حکومتی وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کو دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا پڑے گا۔ تب مہنگائی سے عاجز اِن کے اپنے حلقوں کے عوام حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، پھر انہیں آٹے اور دال کا صحیح بھائو پتا چلے گا اورتب سمجھ آئے گی کہ معیشت تو ان حکمرانوں کی اپنی ہی ترقی کر رہی تھی اور باقی قوم تو بھوک و افلاس کے ہاتھوں مر رہی تھی۔
حکومت کی وفاق اور پنجاب میں سب سے اہم اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما و سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو کے دوران مختصر الفاظ میں موجودہ سیاسی و معاشی حالات کی تصویر کشی کی ہے۔ اگر اسے بھی حکمران نوشتہ دیوار نہ سمجھیں تو پھر شاید وقت ان کے ہاتھوں سے پھسل جائے کیونکہ اب عوام جن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور جتنی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں، اس کے بعد انہیں جھوٹے وعدوں اور سیاسی نعروں کے لالی پاپ سے ٹرخانا مشکل ہو جائے گا اور تبدیلی‘ تبدیلی کے گیت سننے والے ذہن ایسے بدل جائیں گے کہ اگلے انتخابات میں ووٹر تو دور کی بات شاید امیدوار بھی مشکل سے ملیں۔
بجٹ سیشن کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے اپنے ہی دو ارکانِ قومی اسمبلی کی تقاریر زمینی حقائق سے پردہ اٹھانے کیلئے کافی ہیں۔ غیر منتخب معاونینِ خصوصی اور مشیروں کی باتوں کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں تو عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزرا بھی نجی محفلوں میں اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت کی بعض پالیسیاں درست نہیں اور مہنگائی کا بے قابو جن معیشت کو نگل رہا ہے۔ چند ہفتے قبل راقم الحروف کی ایک صوبائی وزیر سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو حکومت میں ہیں‘ اس لئے اپنی پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید نہیں کر سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شہری اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی میں سے دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنے کیلئے بھی میدان میں آتا ہے تو تین ادارے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ یہ پیسہ تم نے کہاں سے لیا، کیسے کمایا، اس کی رسیدیں کہاں ہیں اور اگر بیرونِ ملک ساری زندگی بچوں سے دور رہ کر کمایا ہے تو پھر یہ بتائو کہ ملک میں لائے کس ذریعے سے ہو؟ وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ جو بھی چھوٹا موٹا سرمایہ کار میدان میں آتا ہے تو وہ ایسی تفتیش سے تنگ آ کر سوچتاہے کہ اپنی حق حلال کی کمائی سے ان کی مٹھی گرم کر کے کسی طرح اپنی جان چھڑا ئے۔ جب یہ حالات ہوں گے تو ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ اور جب تک انویسٹمنٹ نہیں آئے گی اس وقت تک نہ تو حقیقی معنوں میں معیشت ترقی کرے گی اور نہ ہی غربت و مہنگائی میں کمی آئے گی۔
گزشتہ تین برسوں میں چوتھے وزیر خزانہ کی بجٹ پٹاری سے بھی بلاواسطہ ٹیکسوں کے سوا کچھ نہیں نکلا اور وہ بھی ''نہیں چھوڑوں گا، کوئی نہیں بچ پائے گا، کسی ٹیکس چور کو این آر او نہیں دوں گا‘‘ جیسے بیانات سے اپنی بات شروع کرتے اور انہی پر ختم فرماتے ہیں۔ بجٹ سے پہلے وزیر خزانہ کی تبدیلی سے عوام اس خوش فہمی کا شکار ہوئے تھے کہ شاید پی ٹی آئی حکومت کو زمینی حقائق کا صحیح ادراک ہو چلا ہے اور اسے احساس ہوگیا ہے کہ تین سال کے بعد‘ اب عوام کے مسائل کو اپوزیشن اور ماضی کی حکومتوں کا شاخسانہ کہنے سے کام نہیں چلے گا، مہنگائی کوکم کرکے روزگار میں اضافہ کرنا ہو گا لیکن جب بجٹ پیش ہوا تو عوام کی ساری خوش فہمیاں دور ہو گئیں اور عام آدمی کو احساس ہوا کہ وزرا کی بار بار تبدیلی ہی شاید وہی 'تبدیلی‘ ہے جس کا نعرہ لگا کر تحریک انصاف نے ووٹ لیے تھے۔
ایک عام آدمی سے اگر ملک کی معاشی صورتحال بارے سوال کیا جائے تو وہ بلاشبہ دن دہاڑے چوری و ڈکیتی کی وارداتوں کی مثالیں پیش کرے گا۔ یہ لیاری جیسے یا دور دراز کسی علاقے کی بات نہیں ہو گی بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی شاہراہوں پر دن کی روشنی میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں کا ذکر ہوگا یا پھر جڑواں شہر راولپنڈی کی گنجان آباد گلیوں کے مناظر ہوں گے جہاں سر عام راہ چلتی خواتین سے بے دردی سے بیگ چھینے جا رہے ہیں، پستول دکھا کر شہریوں سے پرس اور موبائل فون چھین لیے جاتے ہیں اور چند ہزار روپے کی خاطر مزاحمت کرنے والے افراد پر گولی چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ چوریاں تو پہلے بھی ہوتی تھیں اور جیب تراش بھی سرگرم رہتے تھے مگر اسلام آباد؍راولپنڈی اور لاہور جیسے شہروں میں گن پوائنٹ پر سر عام لوٹ مار کا ایسا بازار کبھی گرم نہیں ہوا تھا۔ اس کی وجہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری کے ہاتھوں پریشان حال لوگوں کی وہ مجبوریاں ہیں جو انہیں جرائم پر اکساتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 'قوم گھبرا چکی ہے‘ اور اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت معاشی گورکھ دھندوں میں الجھنے اور ان کی اسیر ہونے کے بجائے زمینی حقائق پر توجہ دے۔ آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کو تمام غلطیوں اور خامیوں پر موردِ الزام ٹھہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عوام کو حقیقی ریلیف دیناہوگا اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب کابینہ کے منتخب سیاسی ارکان اور پارٹی کے مخلص و نظریاتی کارکنوں سے مشاورت کی جائے۔ وزیر خزانہ کو بھی یہ عہد کرنا ہو گا کہ ''مہنگائی کونہیں چھوڑوں گا‘‘۔ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید تبدیلی کیلئے وقت نہ بچے اور اس کی ابتدا آئندہ انتخابی مہم سے قبل‘ رواں سال میں ہی کی جانی ازحد ضروری ہو چکی ہے۔