تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-06-2021

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کسی بھی دور میں آسان کام نہیں رہے۔ اور فی زمانہ تو انہیں چند بڑی آزمائشوں میں تصور کیجیے۔ ایک دور تھا کہ بچوں کی پرورش محبت طلب تھی مگر یہ بوجھ تھی نہ تعلیم و تربیت۔ سستا زمانہ تھا۔ ایک گھرانے میں سات آٹھ بچے بھی پل جاتے تھے۔ والدین کے لیے بچوں کی پرورش تب بھی آزمائش تو تھی مگر معاملہ اِتنا پیچیدہ نہیں ہوا تھا کہ ذرا سی توجہ ہٹنے سے بہت کچھ داؤ پر لگ جائے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ سوشل میڈیا کے ہاتھوں رُل سا گیا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا کی معروف ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی ہے۔ پی ٹی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ اس ایپ کو فوری معطل کردیا جائے۔ پشاور ہائیکورٹ نے بھی اس سے قبل ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی تھی۔ اس ایپ پر ملک گیر پابندی کے لیے سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے بھی پہلے بھی عدالتی سطح پر امتناعی احکام آتے رہے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت نے بہت کچھ الٹ، پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کبھی کبھی تو معاملات اتنی پیچیدہ شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کہاں ‘کیا خرابی ہے اور کہاں‘ کیا درست چل رہا ہے۔ ٹیلی مواصلات کے شعبے نے معاملات کو ایسا الجھایا ہے کہ اب کم و بیش ہر گھر میں الجھنوں نے ڈیرا جمالیا ہے۔ بحیثیت انسان ہمارے لیے جو کچھ بہت نیا ہے وہ بھی اپنی اصل میں تو نیا ہے ہی نہیں۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیوں کی گنجائش لاتا ہے۔ جب تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو بہت سے معاملات میں اکھاڑ پچھاڑ کی سی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی تبدیلی واقع ہو اور اُس کے نتیجے میں بہت کچھ الٹ، پلٹ کر نہ رہ جائے۔ ٹیلی مواصلات کے شعبے میں دل و دماغ کی چُولیں ہلادینے والی پیش رفت نے انسان کو شدید نوعیت کی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ جتنی معلومات ہمیں درکار ہیں اُن سے کہیں زیادہ معلومات میسر ہیں۔ مواد کی زیادتی نے ذہن کو الجھادیا ہے۔ ایسے میں انسان ڈھنگ سے فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ٹیلی مواصلات کے شعبے کی حیران کن ترقی نے انسان کو بہت سے آسانیاں تو فراہم کی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سی مشکلات کا بھی بندوبست کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے عروج نے آج کے انسان کو بہت سے معاملات میں خطرناک بلکہ تباہ کن حد تک الجھادیا ہے۔ نئی نسل کے لیے اپنے جذبات اور خیالات کو متوازن رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے نئی نسل کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اُس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔
کسی بھی معاشرے میں حقیقی معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ توجہ کی مستحق نئی نسل ہوتی ہے۔ نوجوان تیزی سے بگڑتے ہیں۔ خرابی پیدا کرنے والی چیزیں اُن پر بہت تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ جذبات سے زیادہ جذباتیت کے حصار میں رہتے ہیں۔ اُن میں سوچنے کی صلاحیت محدود اور تجزیے کی صلاحیت محدود تر ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی معاشرے کو خرابیوں سے دوچار کرنے کے لیے سب سے پہلے نئی نسل کو نشانے پر لیا جاتا ہے۔ نوجوانوں یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کے خیالات میں کجی پیدا کرکے اُن کے رویوں میں بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے تاکہ معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو۔ فی زمانہ سوشل میڈیا نے ہر معاشرے میں والدین کے لیے حقیقی چیلنج کھڑا کیا ہے۔ والدین ہی نئی نسل کے خیالات و رجحانات کی تطہیر و تہذیب میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کہاں کھڑے ہیں؟ کیا وہ اپنا کردار پوری دیانت اور سنجیدگی سے ادا کر رہے ہیں؟ کیا آج والدین نئی نسل کے مزاج و کردار کی تطہیر و تہذیب کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں؟ یہ تمام سوال بہت اہم ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں سب سے زیادہ اہم کردار والدین ہی کا ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنا کردار پوری دیانت اور سنجیدگی سے ادا نہ کریں تو کسی اور سے اس معاملے میں کوئی خاص توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ کسی دوسرے کی اولاد کے بہتر مستقبل کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہو؟ سکول اور کالج کی سطح کے اساتذہ کے بارے میں یہ عمومی تصور پایا جاتا ہے کہ وہ نئی نسل کو عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزار کر تابناک مستقبل کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔ یہ تصور بے بنیاد تو ہرگز نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں نے اساتذہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں اور یوں اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں۔
نئی نسل خواہ کسی معاشرے کی ہو، اُس کا قبلہ درست رکھنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری تو اول و آخر والدین ہی پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس میں غلط بھی کیا ہے؟ کسی بھی بچے کو زندگی بھر کام آنے والی تعلیم و تربیت سے مزین کرنا انہی کی تو ذمہ داری ہے جن کی وہ اولاد ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یعنی ہمارے معاشرے میں والدین اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کا اطمینان بخش حد تک احساس و ادراک رکھتے ہیں یا نہیں؟ یہ حقیقت انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں والدین اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو بھول بیٹھے ہیں۔ والدین کے ذہنوں میں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ ان کا بنیادی فریضہ بچوں کی پرورش ہے یعنی اُن کے لیے خوراک، رہائش اور دیگر سہولتوں کا بندوبست کرنا۔ اور یہ کہ بچوں کو بہتر انداز سے تعلیم دینا، اُن کی اچھی تربیت یقینی بنانا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ اساتذہ تعلیم و تربیت کے معاملے میں ایک خاص حد تک ہی جاسکتے ہیں۔ ان کا مجموعی کردار ایک خاص فریم ورک کے تحت ہے۔ بہت سے اساتذہ نئی نسل کو بہتر مستقبل کی تیاری میں غیر معمولی مدد دیتے ہیں مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ اُن کی ذمہ داری اور کردار کی بہرحال ایک حد ہے۔ وہ اُس حد سے آگے نہیں جاسکتے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کی طرف لے جانے والے حالات فراہم کرنے میں اہم ترین کردار والدین ہی کا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین اپنی ذمہ داری بھول چکے ہیں۔ پہلے مین سٹریم میڈیا اور اب سوشل میڈیا کے عروج نے والدین کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا ہے۔ وہ بھی میڈیا کے سمندر میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ والدین اور بالخصوص جواں سال والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہٗ احساس نہیں۔ ایک عمومی تاثر اور تصور یہ بھی ہے کہ چھوٹے بچوں کو تربیت کی کچھ خاص ضرورت نہیں اس لیے بہتر یہ ہے کہ انہیں سکول میں داخل کراکے سکون کا سانس لیجیے۔ والدین جب اپنے کردار کو سمجھنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے تو معاشرے میں بگاڑ کیونکر نہ پھیلے گا؟ نئی نسل کو بیشتر معاملات میں اپنی حدود پہچاننے پر مائل کرنا والدین کا کام ہے۔ اگر والدین سوشل میڈیا کی لہروں میں بہہ جائیں گے تو معاشرے کا کیا ہوگا؟ آج نئی نسل موبائل ایپس اور دیگر علتوں کا شکار دکھائی دے رہی ہے تو اِس کے لیے بنیادی طور پر والدین ہی ذمہ دار ہیں۔ اُن کا کام روٹی، کپڑا اور مکان کا بندوبست کرنے تک محدود نہیں۔ اولاد کی معقول تعلیم و تربیت اور کردار سازی اُن کا بنیادی فریضہ ہے جس سے کسی بھی طور صرفِ نظر کی گنجائش نہیں۔
نئی نسل کے حوالے سے والدین کو ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ عصری تقاضوں کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں۔ نئی نسل کو سوشل میڈیا کے گہرے پانیوں میں غرق ہونے سے بچانے کے لیے پہلے والدین کو اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے غیر معمولی سطح پر کوچنگ کی ضرورت ہے۔ والدین کو اپنا کردار شناخت کرنے اور عمدگی سے ادا کرنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ اس ضرورت کو وہ جس قدر جلد محسوس کریں اُتنا ہی نئی نسل کے لیے بہتر ہوگا۔ حکومت بھی ایک خاص حد تک کچھ کرسکتی ہے اور تعلیمی نظام کی بھی حدود ہیں۔ والدین کی ذمہ داری لامحدود ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved