تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     13-07-2013

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

لوگوں کو سوچنے، سمجھنے اور خود متحرک ہونے سے دور رکھنے والے سیاست دان، دانشور یا ڈکٹیٹر عموماً اتھاہ مایوسی کے عالم میں ایک فقرہ ایسا بولیں گے کہ سارا غصہ، نفرت اور حالات بدلنے کی خواہش مایوسی میں بدل جائے گی اور وہ لوگ جو کل تک اس ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم اور ارادہ رکھ کر باہر نکلنا چاہتے تھے، دھڑام سے گر جاتے ہیں، ہمت ہار جاتے ہیں۔ یہ فقرہ عجیب ہے: ’’یار، انقلاب کبھی لیڈر کے بغیر آیا ہے، ہمارے ملک میں کون ہے ایسا جو پاک صاف ہو۔ سب ایک جیسے ہیں، کوئی انقلاب نہیں آنے والا یہاں، یہ دھرتی ہی بانجھ ہے‘‘۔ ایسا فقرہ بولنے کے بعد وہ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ان جذباتی افراد کے گروہ کی جانب دیکھتے ہیں جو انقلاب یا تبدیلی کے لیے مرنے مارنے پر تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ قنوطیت پسند اور مایوسی کے علمبردار لوگ دنیا کے ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن دنیا کے ہر معاشرے پر ایک ایسا وقت ضرور آیا جب اس نے موجودہ نظام کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ ایک زمانے میں نظام کی بساط صرف بادشاہ الٹا کرتے تھے۔ ایران نے روم پر قبضہ کرلیا۔ یونان کو روم نے فتح کرلیا۔ ہندوستان پر مسلمان قابض ہوئے، ساری چھوٹی چھوٹی ریاستیں اپنے وجود میں سمٹ کر رہ گئیں۔ کبھی کبھی لوگ تنگ آئے، انہیں اپنے حکمرانوں سے نفرت ہوئی تو وہ پڑوس یا دوردراز کے حکمرانوں کو خاموشی سے دعوت دے آئے کہ ہمارے ملک پر ٹوٹ پڑو۔ لیکن دنیا کی تاریخ میں 1848ء ایک ایسا سال ہے جب ان بادشاہتوں اور آمروں کے ظلم و ستم کے ستائے لوگ پورے یورپ اور جنوبی افریقہ کے ممالک میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ان تمام ممالک کے عوام میں ایک خفیہ رابطہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خبر کا ذریعہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے لوگ ہوا کرتے تھے۔ انسانوں نے ایک دوسرے کے معاشروں اور وہاں کے سیاسی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور خاندانی حالات کا پتہ چلانے کے لیے مسافروں سے سفر کی داستان سننے کی روایت ڈال رکھی تھی۔ بلوچوں میں آج بھی یہ روایت قائم ہے جسے ’’حال‘‘ کہتے ہیں۔ آج بھی اگر کوئی دور سے آیا ہوا مسافرکسی سے ملاقات کرے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے ’’مجھے حال دو‘‘ اور وہ اس کے جواب میں تمام راستے میں گزرے واقعات، درختوں، پرندوں، جانوروں کی معلومات، وہاں ہونے والی کوئی تقریب یا حادثہ سب کا تفصیلاً حال بتاتا ہے، جس سے لوگوں کو علم ہو جاتا ہے کہ وہاں کی طرز معاشرت کیسی ہے اور آج کل یہ لوگ کیسی سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ طریقہ دنیا کے ہر قدیم معاشرے میں موجود تھا اور اسی سے سرائے میں ٹھہرنے والے مسافروں کی داستانیں وجود میں آئیں۔ 1848ء کے یورپ میں جب یہ ہنگامے پھوٹے جنہیں قوموں کی بہار یعنی ’’Spring of Nations‘‘ کہا جاتا ہے تو لوگ حیران اور ششدر رہ گئے۔ یہ سوئے ہوئے خفتہ لوگ کیسے جاگ اٹھے‘ اور اس قدر اچانک! انہیں تو کوئی جگانے والا بھی نہیں۔ کوئی قائد، کوئی لیڈر، کوئی رابطہ کرنے والا، کوئی اکٹھا کرنے والا، کوئی بھی تو ایسا نہیں‘ لیکن یہ سب سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ احتجاج اور تحریک یورپ کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی تحریک سمجھی جاتی ہے جو خالصتاً عوام نے چلائی جس کا نہ تو کوئی متفقہ لیڈر تھا اور نہ ہی میڈیا اور سرمایہ اس کی پشت پر تھا۔ 1848ء کی فروری میں سب سے پہلے لوگ فرانس کی سڑکوں پر نکلے اور پھر پچاس سے زائد ممالک میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان تمام لوگوں میں اجتماعی غصے کے سوا کوئی چیز مشترک نہ تھی۔ لیکن اس اجتماعی غصے کی پانچ بنیادی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ عوام کی سیاسی قیادتوں سے مایوسی، لوگوں کی حکومت کے معاملات سے دُوری اور ان کا اس میں شرکت کا مطالبہ، مزدوروں کا اپنے مطالبات پر زور، مختلف گروہوں میں نسلی جذبات کا فروغ اور آخری وہ نکتہ تھا کہ حکومتوں نے ان چاروں معاملات کا احساس کرنے کی بجائے عوام کے خلاف اپنی طاقت خواہ وہ فوج تھی، سرمایہ دار اور جاگیردار تھے یا دیگر مزاحمتی گروہ، ان سب کو اکٹھا کرلیا تھا۔ ہر ملک میں چندایک افراد کا ایک ڈھیلا ڈھالا گروہ تبدیلی اور ریفارمز کا ایجنڈا لیے ہوئے میدان میں موجود تھا۔ بلکہ ہر شہر اور علاقے کا ایک گروہ تھا، بس یہی تھی قیادت، لیڈر شپ اور نظریہ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے اور کہیں زیادہ بے گھر ہوگئے لیکن کیسے کیسے تخت و تاج انہوں نے گرا دیے۔ آسٹریا اور ہنگری کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ ڈنمارک میں ایک لازوال بادشاہت ختم ہوئی اور فرانس نے بھی علامتی بادشاہت کا طوق اتار دیا۔ اس دور کی تصاویر اور کہانیاں بڑی خوفناک ہیں۔ دنیا بھرکے عجائب گھروں میں یہ تصاویرجوانسانوں نے اس خوفناک انقلابی تحریک کے زمانے میں اپنے برش اور رنگ سے کینوس سے بنائی ہیں رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ Galician Slaughter یعنی ’’گلیشیا کا قتل عام‘‘ ایک ایسی ہی تصویر تھی جس کے سامنے مجھے چند لمحے بھی کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوسکی۔ یہ ایک جاگیردار کی مزارعوں کے ہاتھوں ذبح ہونے کی تصویر ہے۔ ایسا منظر یورپ کی ہر گلی اور ہر محلے میں عام تھا۔ جس کسی نے چند لمحے بھی اقتدار کے ساتھ گزارے تھے‘ ان کے حق میں کلمہ خیر کہا تھا‘ ان کو دعائیں دی تھیں‘ ان کی طرح کا خوبصورت لباس پہنا تھا‘ ان کی طرح اس کے ہاتھ نرم نرم اور گال خون کے جوش سے دمکتے تھے‘ ان سب کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اتنا اچانک کیسے ہوا اور اتنے سارے ملکوں میں ایک ساتھ کیسے ہوگیا؟ یہ اس زمانے میں ہو گیا تھا جب نہ ٹی وی چینل تھے اور نہ انٹرنیٹ، نہ ٹوئیٹر اور نہ فیس بک‘ لیکن نفرت کی کوئی زبان نہیں ہوتی اور غصے کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ اور یہ بھی طے ہے کہ آمریتوں کا ایک عالمی مزاج اور رویہ ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ ڈکٹیٹرشپ سے جنم لیا کرتا ہے۔ یہ ایک رو ہوتی ہے جو پوری دنیا میں چلتی ہے۔ یہ 1848ء میں یورپ میں چلی، 1968ء میں ایک دفعہ پھرامریکہ اور یورپ میں اور پھر 1989ء میں پوری کمیونسٹ دنیا میں‘ جس سے دوسری بڑی عالمی طاقت کا وجود دھڑام سے گر گیا اور وہ حصوں بخروں میں تقسیم ہوگئی۔ اب دنیا بھرکے تبصرہ نگار 2013ء میں ایک نئی رو کی نشاندہی کر رہے ہیں اور اس کا آغاز مصر میں مرسی حکومت کی برطرفی کو لیتے ہیں۔ ایسے میں مجھے سید الانبیاءﷺ کی وہ حدیث ،جس کے حضرت وہب ابن منبہ راوی ہیں ،یاد آ رہی ہے کہ ’’جزیرۃُ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے‘‘ (السنن الواردۃ فی الفتن) یہ بہت طویل حدیث ہے جس میں مختلف علاقوں کی تباہی کے بارے میں ذکر ہے کہ کس کے ہاتھ سے ہوگی۔ اگر کوئی کسی عرب ملک یا شام پر حکمران یا قطر و متحدہ عرب امارات کی بڑی امارتوں میں رہنے والا سمجھتا ہے کہ یہ سب مصر تک محدود رہے گا تو اسے علم ہوناچاہیے کہ مصر سے تو ہوا چلے گی اور یہ ہوا ہی روشنی کا فیصلہ کرے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved