تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     01-07-2021

ایران، صدارتی الیکشن کے بعد

ایران میں ایک خاص طرز کی جمہوریت ہے‘ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد انتخابات کا عمل مسلسل جاری ہے اور یہ عمل ایران‘ عراق جنگ کے دوران بھی رکا نہیں۔ اس سیاسی نظام کو خاص طرز کی جمہوریت اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ روحانی پیشوا یعنی Spiritual Leaderکو صدر اور پارلیمنٹ کے فیصلے ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ روحانی پیشوا یا رہبر کے فیصلے کے خلاف کسی عدالت میں اپیل نہیں کی جا سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ رہبر کو سیاسی کے علاوہ ایک روحانی مرتبہ بھی حاصل ہے۔
ایران کی گارڈین کونسل جو کہ علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ہے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس مرتبہ افراد کی ایک بھاری تعداد نے کاغذات جمع کرائے ان میں چالیس خواتین بھی شامل تھیں۔ سب خواتین کے کاغذات ریجیکٹ ہو گئے۔ اس کے علاوہ سابق صدر محمود احمدی نژاد کے کاغذات بھی مسترد ہوئے۔ صدارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آئوٹ 49 فیصد رہا جو اب تک سب سے کم ہے۔ منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا 62 فیصد حصہ ملا۔ حساب لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً 31 فیصد ایرانی ووٹرز نے صدر رئیسی کے حق میں ووٹ ڈالا ہے جبکہ 51 فیصد نے پولنگ سٹیشن آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
میرے لیے اس الیکشن کے دو رخ حیران کن تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ معاشی زبوں حالی کی وجہ سے ایرانی لیڈر شپ کی شدید خواہش ہے کہ انٹرنیشنل اقتصادی پابندیوں سے نکلا جائے لہٰذا کسی معتدل مزاج شخص کو صدر بنایا جائے گا لیکن منتخب صدر سخت گیر شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ ذاتی طور پر امریکہ کی پابندیوں کی لسٹ Sanctions list میں شامل ہیں۔ دوسری حیرانی اس بات کی تھی کہ ایران میں خواتین تمام شعبوں میں بہت فعال ہیں لیکن ایک بھی خاتون صدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت حاصل نہ کر سکی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی علما خواتین کی حکمرانی کے حق میں نہیں ہیں۔
صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کو میں اس طرح سے دیکھتا ہوں کہ قاسم سلیمانی جو ایک عرصہ سے ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی مقتدر علامت تھے اور مڈل ایسٹ میں ایرانی پالیسی کے سرخیل بھی تھے‘ جب پچھلے سال امریکی ڈرون حملے میں بغداد ایئرپورٹ کے قریب قتل ہوئے تو ایرانی عوام میں شدت پسند جذبات مزید راسخ ہو گئے۔ رہی سہی کسر ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل نے پوری کر دی۔ ایرانی ایک خوددار قوم ہیں اور نیشنلزم ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ وہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے بھی ایک ایمپائر کامیابی سے چلا رہے تھے۔
صدر ابراہیم رئیسی کی زندگی انقلابِ اسلامی سے آغاز سے ہی منسلک رہی ہے۔ جب انقلاب کی تیاری ہو رہی تھی تو وہ قم میں زیر تعلیم تھے۔ پیدائش ان کی مشہد شریف کی ہے، 1979ء میں انقلاب برپا ہوا تو ان کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ جلد ہی عدلیہ میں شامل ہو گئے۔ 1988ء میں اپنے سخت فیصلوں کے ذریعے انقلاب مخالف لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایران اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ پچھلے سال ہی وسیع پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔ بظاہر وجہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تھا لیکن میرے خیال میں اصل سبب بڑے پیمانے پر بے روزگاری تھا۔ ایران آج بھی دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایٹمی معاہدے کے احیائے نو کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو ایران انٹرنیشنل دھارے یعنی Main stream میں داخل ہو سکتا ہے۔ دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے ایران علاقے میں اپنے حلیفوں مثلاً حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغیوں کی پہلے جیسی مدد نہیں کر پا رہا۔ اندرونی سیاسی اور اقتصادی چیلنج اس کے علاوہ ہے‘ ایسی صورت میں ایران کو زیرک اور قوی قیادت کی ضرورت ہے جو ان گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہو سکے۔ نو منتخب صدر ایسی قیادت فراہم کر سکتے ہیں۔ وہ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کا وعدہ بھی بار بار کر چکے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی ووٹرز کو کرپشن کو ختم یا کم کرنے کے ضمن میں ابراہیم رئیسی پر اعتماد ہے۔
یہ صدارتی انتخاب ایک اور حوالے سے بھی بہت اہم ہے ‘کہا جا رہا ہے کہ جناب رئیسی آئندہ کے رہبرِ اعلیٰ بھی ہو سکتے ہیں وہ پاسداران کے خاصے قریب رہے ہیں اور موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا اعتماد بھی انہیں حاصل ہے اور موجودہ رہبر خاصے معمر ہیں۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے لپ ووٹر ٹرن آئوٹ اس مرتبہ صرف 49فیصد رہا۔ الیکشن سے پہلے رہبر نے فرمایا تھا کہ ووٹ دینا ہر ایرانی پر فرض ہے لیکن ووٹرز کی اکثریت نے یہ بات سنی اَن سنی کر دی تو کیا ایرانی عوام کا اعتماد اپنے جمہوری نظام کے بارے میں متزلزل ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے انقلاب کے خلاف خاموشی مزاحمت بڑھ رہی ہو۔ اس بات کا اندازہ آپ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ 14 فیصد ووٹرز نے بالکل خالی یعنی Blank ووٹ ڈالے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ووٹ کم پڑیں یا زیادہ‘ یہ ایران کا داخلی معاملہ ہے ‘ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہو چکے ہیں اور قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ طاقتور صدر ہوں گے کیونکہ انہیں رہبر اور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور عدلیہ کے جج اور چیف جسٹس ہوتے ہوئے بھی وہ دو ٹوک فیصلوں کے لیے مشہور تھے۔
وزیراعظم عمران خان ان معدودے چند لیڈروں میں شامل ہیں جن کی طرف سے نو منتخب صدر کو مبارک کا پیغام بھیجا گیا اور یہ ضروری بھی تھا کیونکہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات انقلاب اسلامی کے بعد چند مرتبہ سرد مہری کا شکار ہوئے۔ ایرانی قیادت کو ایک شکوہ یہ رہا کہ پاکستان امریکہ کے بہت قریب ہے اور ایرانی قیادت کے نزدیک امریکہ شیطان بزرگ تھا یعنی سب سے بڑا شیطان۔ میں 1997ء میں تہران گیا تو ہوٹل کے استقبالیہ حصے میں مرگ بر امریکہ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں ایران کو سخت گلہ تھا کہ پاکستان افغان طالبان کے بہت قریب ہے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں گرمجوشی بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں اب چین سے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ طالبان افغانستان کی ایک حقیقت ہیں اور اس بات کا ادراک اب ایران کو بھی ہے۔ پچھلے تین چار سال سے ایران اور طالبان کے درمیان روابط استوار ہیں۔ ان بدلے ہوئے حالات میں پاک ایران تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے‘ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو ایرانی قدامت پسند کشمیر کے حوالے سے انڈیا کے ناقد رہے ہیں اور صدر ابراہیم رئیسی‘ یقینی طور پر قدامت پسند ہیں۔ پاک ایران بارڈر پر آہنی باڑ لگانے کا کام دونوں جانب ہو رہا ہے اس سے بارڈر مینجمنٹ نسبتاً آسان ہو جائے گی۔ ایسے حالات میں مجھے پاک ایران تعلقات میں بتدریج بہتری نظر آ رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved