بلوچستان کامنظر نامہ بنجر پہاڑوں‘ ہوا میں شامل سنگریزوں بھری مٹی اور اڑتی دھول کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔گرم مہینوں میں رنگ سیاہ کردینے والی تیز دھوپ ان عناصر کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے۔بات پورے بلوچستان کی نہیں لیکن شمالی علاقوں میں اکثر شدید سرد علاقے بھی اس بنجر پن سے بچ نہیں پاتے۔بارشیں یہاں کم کم ہوتی ہیں۔برف باری پر ہی زیر زمین پانی کا قدرتی دار و مدار ہے۔اگریہ بھی معمول سے کم ہو تو وہ صورت حال پھوٹ پڑتی ہے جو آج کل دیکھی جارہی ہے۔ ہولناک بات یہ ہے کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔موسمی تغیرات نے بلوچستان کو بہت خشک اور گرم کرکے رکھ دیا ہے۔
مجھے یہ جان کر صدمہ ہوا کہ کوئٹہ اور اطراف میں کاریزیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔پانی کی غیر معمولی کمی سے پانی کی سطح بہت گر گئی ہے۔وہ خنک اور میٹھا پانی جو خاک تلے سرسراتا‘ گنگناتا گزرتا تھا‘ ٹھنڈک کی کھوج میں زمین میں اترگیا۔جن دوستوں نے کوئی کاریز نہیں دیکھی اور آب رسانی کے اس نظام سے واقف نہیں وہ پوری طرح اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔یہ نظام ایران‘ افغانستان اور بلوچستان کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں صدیوں سے رائج ہے۔ کاریز ‘قنات اور فلج سب اسی نظام کے مختلف نام ہیں۔ہوتا یہ تھا کہ بلند مقام پر کوئی چشمہ ڈھونڈا جاتا یا کنواں کھودا جاتا تھا۔ پھر نیچے کے علاقے میں مختلف مقامات پر گڑھے کھودے جاتے تھے اور ایک سرنگ یا کم چوڑی زیر زمین نہر کے ذریعے انہیں آپس میں ملا دیا جاتا تھا۔یہ قدیم زمانے سے پانی کی ترسیل کا ایک بہت موثر طریقہ چلا آتا ہے جس میں پانی کے تیز دھوپ میں بخارات بن کر اڑنے کا خطرہ بھی نہیں ہے اور سطح پر اڑتی مٹی یا کسی اور آلائش سے بھی پانی محفوظ رہتا ہے۔بعض کاریزیں کئی کئی میل طویل ہوتی تھیں۔دوستوں نے بتایا کہ جدید تعمیرات میں کوئٹہ اور اطراف میں کاریزیں ختم ہوکر رہ گئی ہیں اور جو اِکا دکا بچی ہیں ان میں بھی پانی نہیں۔تعمیرات کے علاوہ اس کا بڑا سبب سولر ٹیوب ویل ہیں جو بڑی تعداد میں اور غیر منظم انداز میں لگائے گئے ہیں۔ وہ فصلیں جنہیں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے ‘ٹیوب ویلز سے سارا پانی نچوڑ لیتی ہیں۔پانی کی سطح خطرناک حد تک اسی وجہ سے گری ہے۔
لیکن کمال ہے بھئی کہ قدیم طریقے بھی ختم ہوگئے اور جدید بھی بروئے کار نہیں لائے گئے۔ویسے تو پورا بلوچستان ‘لیکن صرف کوئٹہ کی بات کروں تو یہ شہر پانی کی شدید کمی کا شکار ہے۔کینٹ کے علاقے میں رہنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے گھروں میں پانی کے ٹینکر ڈالے جاتے ہیں ورنہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی۔ایک اندازے کے مطابق کوئٹہ شہر کی ضرورت 61ملین فٹ پانی ہے جبکہ اس وقت واسا بمشکل 35ملین فٹ پانی سپلائی کرپاتا ہے۔ بلوچستان پر موسمی تغیرات تیزی سے اثر انداز ہوئے ہیں۔ یہاں کے پرانے رہنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ایک زمانے میں گرمی سے آشنا ہی نہیں تھے۔ انہیں چالیس پہلے جون جولائی میں بھی کمبل لے کر سونا پڑتا تھا‘جبکہ اب ستمبر میں بھی پنکھے چلتے ہیں۔ہنہ جھیل کو میں نے ایک زمانے میں پانی سے لبالب دیکھا تھا۔کشتی رانی ہوتی تھی اور جھیل کی سطح پر چلتی ہوا چہرے سے ٹکراتی تو ایک خوشگوار ٹھنڈک دل میں بھر دیتی۔ اسی جھیل کے بارے میں شاعر نے لکھا تھا کہ
پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
اب ہنہ جھیل میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں۔جھیل بہت پیاسی ہے۔ اس کے اطراف میں سیب کے باغات اور سرسبز درخت سوکھ گئے ہیں اور اس علاقے میں گرم لُو کا راج ہے۔آخری بار اِن پہاڑوں نے چند سال پہلے اسے پانی سے بھرا دیکھا تھا۔اوڑک جو سفید گلابوں کی وادی تھی ‘ تشنہ اور بے گل ہوگئی ہے۔ چلیے اس کا سبب تو خشک سالی ہے لیکن ہر چیز فطرت پر ڈال کر سبکدوش کیسے ہوسکتے ہیں۔یہ وفاقی اور صوبائی فیصلہ سازوں کا مجرمانہ تغافل ہے کہ کوئٹہ پانی کو ترس رہا ہے۔ بلوچستان میں تیز برساتی پہاڑی نالے اور ندیاں کافی تعداد میں ہیں۔ اور اس کی زمینی صورتحال بھی ڈیم بنانے کے لیے بہت موزوں ہے۔ ضرورت تھی کہ ان پر ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست کیا جاتا‘لیکن کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی؛چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ تک کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں شہر کے مکینوں کو بہت بڑی تعداد میں پانی والے علاقوں کی طرف ہجرت کرنی پڑے گی۔ہر کچھ عرصے بعد کسی منصوبے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن مباحثوں اور کاغذی کارروائیوں سے آگے بات بڑھتی ہی نہیں۔کچھ بھی نہیں کر رہے‘ شاید اسی بڑی ہجرت کا انتظار کر رہے ہیں۔
بلوچستان شیریں پھلوں اور ڈرائی فروٹ کا مرکز رہا ہے۔چیری ‘ خوبانی ‘ انگور‘آڑو‘ انار‘سیب ‘ اخروٹ وغیرہ تو اس کی خاص پیداوار ہیں۔ میزبانوں کے گھر شیریں سردا کھایا تو گویا منہ میں گلاب جامن گھل گئے۔مختلف بازاروں میں گھومنے سے اندازہ ہوا کہ عام اشیائے خورو نوش کے نرخ کم و بیش لاہور جتنے ہیں‘ مثلاً مٹن 1200روپے کلو تھا۔لائیوسٹاک بلوچستان کی خاص شناخت ہوا کرتا تھا حیرت ہوئی کہ اس کے ہوتے ہوئے ریٹ اتنے زیادہ کیوں ہیں۔ایک تکلیف دہ بات کوئٹہ کے ایک کتب فروش نے بتائی۔کوئٹہ سے کوئی گڈز ٹرانسپورٹ کسی بھی شہر کے لیے کوئی کارٹن بک نہیں کرتی۔ایف سی کی طرف سے روک لیا جاتا ہے؛ چنانچہ کوئی کتب فروش کوئی کارٹن کسی شہر میں گڈز ٹرانسپورٹ سے نہیں بھیج سکتا۔یہ بڑی تکلیف ہے اور اب جبکہ حالات بہتر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کوئٹہ میں دو دن کے محدود وقت اور مسلسل بھاگ دوڑ کے باوجود کچھ مہربانوں نے اپنی طرف کھینچ بلایا۔احمد وقاص کاشی اسلامیہ کالج میں استادِ ادب اور نوجوان شاعر ہیں۔کوئٹہ کا اسلامیہ کالج اپنی ذات میں خود ایک تاریخ ہے۔ وقاص نے مختصر سے نوٹس پر میرے لیے ایک شعری نشست منعقد کی اور کچھ اہلِ ادب کو اکٹھا کرلیا۔ سینئر شاعر دوست جناب سرور جاوید نے صدارت کی۔ہم عمر دوست شاعر ‘ڈرامہ نگار محسن شکیل ‘محسن چنگیزی اور فیصل ندیم بھی موجود تھے۔کئی نئے شعرا سے بھی تعارف ہوا۔ عمدہ شاعری سنی اور سنائی گئی۔محفل میں کوئٹہ کے کئی مرحوم دوست یاد آنے لگے۔ کیسے ممکن تھاکہ جوان مرگ دانیال طریر یاد نہ آتا۔بہت پہلے ایک بار کوئٹہ آنا ہوا تھا تو مرحوم عطا شاد سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی۔وہ ملاقات اپنی جزئیات کے ساتھ یاد آنے لگی۔مختصر سی ملاقات کا ارادہ تھا جو گھنٹوں پر پھیل گئی۔ کچھ شاعر اپنے ماحول کو اپنی شاعری میں مجسم کردیتے ہیں۔ عطا شاد ایسے ہی شاعر تھے۔یاد آئے ہیں تو ان کے کچھ شعر بھی سن لیجیے اور دیکھیے کہ کیسے یہ کاریز نگر اپنی تمام خوبصورتی کے ساتھ تصویر ہوتا ہے۔
کوہساروں کی عطاؔ رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے
٭...٭...٭
یک لمحہ سہی عمر کا احسان ہی رہ جائے
اس خلوتِ یخ میں کوئی مہمان ہی رہ جائے
قربت میں شبِ گرم کا موسم ہے ترا جسم
اب خطۂ جاں وقفِ زمستان ہی رہ جائے
مجھ شاخِ برہنہ پہ سجا برف کی کلیاں
پت جھڑ پہ ترے حسن کا احسان ہی رہ جائے