کراچی میں 29 جولائی کو تاریخ کا سب
سے بڑا جلسہ کرنا ہے: مولانافضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کراچی میں 29 جولائی کو تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنا ہے‘‘ بے شک اس کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے کیونکہ اگر پہلے والے بے شمار جلسوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا‘ حالانکہ وہ بھی کوئی چھوٹے جلسے نہیں تھے‘ تو اس جلسے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور جہاں تک حکومت گرانے کا سوال ہے تو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ہم حکومت گرانے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ اب بھی کہہ رہی ہیں تو آخر جلسوں میں کس منہ سے شرکت کر رہی ہیں اور اگر جلسے بھی نہ کیے جائیں تو فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ آپ اگلے روز کراچی میں ہسپتال ہی سے کارکنوں اور رہنمائوں سے خطاب کر رہے تھے۔
ٹف ٹائم تو درکنار (ن) لیگی رہنما ایوان
میں ہی موجود نہیں تھے: شہریارآفریدی
پی ٹی آئی کے رہنما شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ ''ٹف ٹائم تو درکنار (ن) لیگی رہنما ایوان میں ہی موجود نہیں تھے‘‘ جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ گھروں میں بیٹھے ہی حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں مصروف تھے اور اس تشویش ہی سے ہمارا ٹائم کافی ٹف ہو رہا تھا اور ہم سوچ ر ہے ہیں کہ اگر صورتِ حال یہی رہی تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ کیونکہ یہ ایک نیا اور اپنی طرز کا انوکھا ٹف ٹائم ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ ان کے قائد اور کئی رہنما لندن میں بیٹھ کر ہی ٹف ٹائم دینے میں لگے ہوئے ہیں اور اگر ان سب نے بھی لندن جا کر ٹف ٹائم دینا شروع کر دیا تو اس صورت میں ہمیں کہیں سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حکومت تو ہے نہیں، چلی کیا جائے گی: زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت تو ہے نہیں، چلی کیا جائے گی‘‘ اور ہم اسی لیے ایک طرف ہو گئے ہیں کہ جو چیز موجود ہی نہیں، اس کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کا کیا فائدہ ہے جبکہ ایسے بھی، ہم نے سب سے بات کر لی ہے اور اس وقت کافی مزے میں ہیں اور باقی کیسز وغیرہ سے ہم خود نمٹ لیں گے کہ یہ ہر دور میں یونہی چلتے رہتے ہیں، اس لیے یوں سمجھیے کہ ستّے ہی خیراں ہیں اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ اگلے روز بجٹ سیشن کے لیے پارلیمنٹ ہائوس پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی جیسے اقتدار میں آئی‘ سب جانتے ہیں: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی جس طرح اقتدار میں آئی سب جانتے ہیں‘‘ اور ہم تو سب سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ ہم بھی اقتدار میں اسی طرح آیا کرتے تھے، اس لیے اس نے کوئی اپنا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ہماری نقل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کتنی اہلیت کی مالک ہے، اور اگر سچ پوچھیں تو ہمارے ہاں اقتدار میں آنے کا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں اور اسی کو سب اختیار کرتے ہیں لیکن اس دفعہ ہمارے راستے میں کنٹینر کھڑے کر دیے گئے تھے اور آن کی آن میں چاروں طرف غم کے بادل چھا گئے اور ان میں احتساب کی بجلیاں بھی کوندنے لگی تھیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شوہر سے متعلق قیاس آرائیاں نہ کریں: حریم شاہ
ماڈل اور ٹاک ٹاک سٹار حریم شاہ نے کہا ہے کہ ''شوہر سے متعلق قیاس آرائیاں نہ کریں‘‘ کیونکہ متعدد مشکوک افراد کی خانگی زندگی پریشانیوں سے دو چار ہو گئی ہے اور وہ اپنی بیویوں کے سامنے صفائیاں دیتے نہیں تھکتے کہ وہ میرے شوہر نہیں ہیں اور کچھ حضرات اس پر اندر خانے خوش بھی ہیں کہ اگر مجھ سے شادی نہیں ہو سکی تو کم از کم ان کا نام تو آ گیا جبکہ کئی کم نصیب تو اس سے بھی محروم ہیں، نیز فی الحال شوہر کے نام کا اعلان کر کے میں اپنی سوکن سے ہڈی پسلی ایک کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ میرے شوہر نامدار اپنی پہلی بیوی کو رضا مند کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں‘ امید ہے خدا موصوفہ کو نیک ہدایت دے گا۔ آپ اگلے روز لاہور شادی کے بعد پہلا وڈیو پیغام جاری کر رہی تھیں۔
رنگدھر
یہ ہما صفدر کی پنجابی نظموں کا مجموعہ ہے جس میں کم و بیش ڈیڑھ سو نظمیں شامل ہیں۔ ہما صفدر اردو میں بھی شعر کہتی ہیں اور ایک عمدہ شاعرہ کے طور پر اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ ان نظموں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ پنجابی کی کوئی نہایت ترقی یافتہ ادبی زبان تو ہو سکتی ہے،لیکن عام قاری کیا‘ خاص قاری بھی اس سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہے جبکہ پنجابی زبان ہمارے ہاں پہلے ہی مسائل کا شکار ہے اور اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اس کی ترویج کی ضرورت ہے۔ واحد نظم جو ہماری سمجھ میں کچھ کچھ آئی ‘ پیش خدمت ہے:
نال تیرے کٹیا دینہ کرڈا
گُپ چھپ شام لنگائی
لتھے رات سرمئی گہری
رنگو رنگ کالک دھائی
لس اکھیاں دی لہے نہ لہندی
وِدیا گھڑی کیہڑی کوئی آئی
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی غزل:
وہ نئی شاعری طرح سے ہے
سطر ہر تازگی طرح سے ہے
نہ کوئی اس کے جیسا ہے یہاں پر
اور نہ کوئی مری طرح سے ہے
پاس پلکیں نہیں اٹھاتی‘ اور
دور سے دیکھتی طرح سے ہے
جسم ہے جاگتا ہوا سا وہ
آنکھ وہ اونگھتی طرح سے ہے
کچھ نشیب و فراز میں اس کے
بات اک اَن کہی طرح سے ہے
میں بھی ہوں کچھ ٹٹولتا ہوا سا
وہ بھی کچھ بھانپتی طرح سے ہے
ہے بہت قدر مشترک ہم میں
میں کسی‘ وہ کسی طرح سے ہے
اس بدن کا یہ معجزہ ہے ضمیرؔ
تیرگی روشنی طرح سے ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ مرے خواب وقتِ آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا