تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-07-2013

ایک کے بعد دوسرا پہاڑ

قصہ مختصر یہ کہ آخری فیصلہ صادر کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پاس کچھ زیادہ وقت نہیں اور اسی فیصلے پر ان کے مستقبل کا انحصار ہے ۔ ذہن واضح اور نیت نیک ہو تو آغازِ کار میں کوئی رکاوٹ نہیں وگرنہ ایک کے بعد دوسرا پہاڑ! آئی ایس آئی کے دفتر میں وزیر اعظم کا دورہ بہت طویل ہو گیا۔ ان کا ارادہ وہاں پانچ گھنٹے قیام کا نہیں تھا۔ اس میں مگر حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ موضوعات بہت سے ہیں اور بے حد پیچیدہ ۔ ظاہر ہے کہ ان کا ذکر چھڑا تو بہت سے نازک سوالات بھی اٹھے ہوں گے ۔ اخبار نویسوں نے اسے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے دیکھا۔ یقینا اس پر بات ہوئی ہوگی مگر میرا خیال نہیں کہ زیادہ طویل ۔ یوں تو اس رپورٹ میں قومی سلامتی سے متعلق بہت سے عنوانات پر روشنی ڈالی گئی ہے مگر زیادہ زور دو نکات پر ہے ۔ اوّل یہ کہ ریاست کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے زوال کا شکار ہیں اور بے حد غافل ۔ ثانیاً یہ کہ خفیہ ایجنسیوں ، فوج اور حکومت میں آہنگ کا فقدان ہے ۔ کچھ اخبار نویسوں نے کمال کیا کہ حسبِ معمول تمام تر ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈالنے کی کوشش کی۔ رپورٹ کے مندرجات میں انہوںنے اضافہ کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ المیہ عسکری قیادت کی ملی بھگت سے پیش آیا۔ رپورٹ بالکل برعکس ہے اور اس میں کسی خاص شخص یا ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ پھر اس روش پر یہ لوگ کیوں مصر ہیں ؟ کہانی معلوم ہے ۔ ایبٹ آباد یا اس کے نواح میں کسی مشکوک عرب کی موجودگی کا پہلا شبہ آئی ایس آئی کو ہوا تھا، جب عربی زبان میں ایک مشکوک کال ریکارڈ کی گئی ۔ یہ سرمایے کی منتقلی سے متعلق تھی ۔ جیسا کہ طے تھا، اس بارے میں سی آئی اے کو اعتماد میں لیا گیا ۔ اس وقت تک القاعدہ کے درجنوں لیڈر گرفتا رکرکے امریکہ کے حوالے کیے جا چکے تھے اور اس کے بعد بھی ۔قاعدے کے مطابق سی آئی اے کو تحقیق کے بعد آئی ایس آئی سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ دوخفیہ ایجنسیاں جب ایسی صورتِ حال میں مل کر کام کر رہی ہوں تو قرینہ یہی ہے۔ اگر پوری نہیں تو بنیادی معلومات کا تبادلہ کیا جاتاہے ۔ امریکیوں نے مگر بات چھپانے کافیصلہ کیا۔ نئے الیکشن کے لیے صدر اوباما کو ایک کارنامے کی ضرورت تھی ۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کو عمومی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو خاص طور پر سز ادینا مقصود تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بعض امریکی اقدامات کی وہ مزاحمت کر رہے تھے ۔ صاف طور پر انہوںنے کہہ دیا تھا کہ قبائلی علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی وہ گوارا نہ کریں گے۔ جنرل پرویز مشرف کے برعکس وہ پاکستان میں کرائے کے امریکی فوجیوں اور خفیہ ایجنسیوں کاجال پھیلانے کی کوششوں پر بھی نا خوش تھے ۔ زرداری حکومت امریکی ایجنٹوں کو دھڑا دھڑ ویزے جاری کر رہی تھی ؛حتیٰ کہ کچھ دبئی سے۔ ان میں مسافروں کا پتہ ’’ایوانِ صدر اسلام آباد‘‘لکھا تھا۔ سانحے کے فورا بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ آزردہ تھے اور سخت صدمے کا شکار ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کب اور کس طرح خبر ملی ۔جنرل نے کہا : آپ جانتے ہیں کہ میں اس وقت جاگ رہا ہوتا ہوں ۔ پہلا سوال یہ تھا کہ یہ ہمارے اپنے ہی لوگ نہ ہوں ،برّی فوج یا فضائیہ کے ۔ جب تصدیق ہو گئی کہ ایسا نہیں تو فوری طور پرذہن ایٹمی پروگرام کی طرف متوجہ ہوا۔ فوراً ہی ایٹمی تنصیبات سے رابطہ کیا گیا۔ جب یہ اطمینان کر لیا گیاکہ ایٹمی پروگرام محفوظ ہے تو غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا گیا ۔ سرگودہا کے ہوائی اڈے سے ایف 16 طیارے اڑنے میں دیر ہوگئی ؛چنا نچہ امریکی ہیلی کاپٹر پاک افغان سرحد کے پار اتر گئے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ امریکیوں کے خلاف کارروائی میں عسکری قیادت تامل کا شکار بھی رہی ہوگی۔ ٹیکنالوجی میں غیر معمولی برتری نے سازش کی کامیابی کو ممکن بنایا ؛اگرچہ مستعدی کا مظاہرہ کیا جاتا تو اقدام ممکن تھا۔ المناک بات یہ ہے کہ ایک حساس شہر میں غیر ملکی چھپا رہا ۔ ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک بھی اس کا سراغ نہ لگا سکی ۔ ظاہر ہے کہ آئی ایس آئی بھی ان میں سے ایک ہے اور اسے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ کمیشن کے روبرو جنرل پاشا کے اعتراف سے آشکار ہے ، آئی ایس آئی کی بدنامی کے لیے خود عسکری قیادت بھی ذمہ دار ہے ۔ پے درپے مارشل لا اور سیاست میں پیہم مداخلت ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب جنرل کیانی نے بدترین حالات میں فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست سے دور لے جانے کی کوشش کی توتنقید میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ۔ جیسا کہ جنرل کیانی نے ایک بار خود کہا تھا :پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے ، جہاں شام چھ بجے سے رات گئے تک ٹی وی پروگراموں میں سلامتی کے امور پر نہایت بے دردی سے بات کی جاتی ہے ۔ پاکستانی فوج کی بدنامی اور رسوائی کس کا ایجنڈا ہے؟ ظاہر ہے کہ بھارت یا امریکہ بہادر کا۔ کوئی کتنے ہی جواز پیش کرے ، پاک فوج اور آئی ایس آئی پر غیر ضروری اور مبالغہ آمیز تنقید کرنے والے شعوری نہیں تو لاشعوری طور پر انہی ممالک کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ خاص طور پر انکل سام کو ، پاکستان کو محتاج اور منحصر بنا کرباقی ماندہ مزاحمت بھی جو ختم کر دینا چاہتاہے ۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے سعودی عرب کا اصرار اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا یہ مطالبہ کہ ان کے بدنام ادارے کے ساتھ فلاں این جی او کا تعلق آشکا رنہ کیا جائے ، کس امر کا مظہر ہے ؟ فوج مقدس گائے نہیں کہ تبصرہ آرائی نہ ہو مگر مہم چلانے والے یقینی طور پر اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں ۔ کراچی میں انہیں قاتلوں کے بے رحم ٹولے کیوں نظر نہیں آتے ؟ لاکھوں کو لوٹنے والے کھرب پتیوں کے بارے میں ان کی زبانیں گنگ کیوں رہتی ہیں ؟ بیرونِ ملک دولت کے ڈھیر لگانے والے لیڈروں کے بارے میں ان کا لہجہ مختلف کیوں ہے ؟ بہادری کا تمغہ حاصل کرنے کے لیے ، جب پاک فوج ایسا ہدف موجو دہو ، جب معلوم ہو کہ جواب میں کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ زخم لگے گا تو شجاعت کا علم کیوں نہ لہرایا جائے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ امریکہ نواز رہنمائوں ، دانشوروں اور انسانی حقوق کے ان بارسوخ اداروں سے داد کی نقد امید کی جا سکتی ہے ، جن میں سے بعض سی آئی اے کے لیے کام کرتے ہیں ۔ بے حمیّتی اسی کو کہتے ہیں ۔ وزیر اعظم کے لیے آئی ایس آئی کی بریفنگ کے موضوعات بہت تھے ۔ بلوچستان ، کراچی اور قبائلی علاقوں میں بھارتی مداخلت ۔ ممکن ہے کہ طالبان کے بعض رہنمائوں سے را کے افسروں کی بات چیت بھی انہیں سنائی گئی ہو ۔ بلوچستان میں غیر ملکی امداد کے ساتھ سرگرم ’’حریت پسندوں‘‘ کے کوائف بھی ۔ کراچی میں حالیہ الیکشن کے ہنگام گرفتار کیے گئے ٹارگٹ کلرز ، جن میں سے اسی فیصد کا تعلق ایک خاص جماعت سے ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ۔ نئی نیشنل سکیورٹی پالیسی کے ہنگام کوئی چیز اس بریفنگ سے زیادہ اہم نہ تھی ۔ جمعہ کی صبح وزیرِ اعظم کو وزارتِ داخلہ کے دورے میں دہشت گردی پر سیکرٹری داخلہ اور کچھ دوسرے افسروں سے بات کرنی ہے ۔ یہ وہ معلومات ہیں ، جو پارلیمنٹ یا کل جماعتی کانفرنس میں پیش نہیں کی جا سکتیں ؛البتہ محتاط اندازسے وزیر اعظم سیاسی لیڈروں کو اعتماد میں لے سکتے ہیں ۔ میرا تاثر یہ ہے کہ مستقبل قریب میں طالبان سے مذاکرات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ قصہ مختصر یہ کہ آخری فیصلہ صادر کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پاس کچھ زیادہ وقت نہیں اور اسی فیصلے پر ان کے مستقبل کا انحصار ہے ۔ ذہن واضح اور نیت نیک ہو تو آغازِ کار میں کوئی رکاوٹ نہیں وگرنہ ایک کے بعد دوسرا پہاڑ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved