تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     02-07-2021

افغانستان : خانہ جنگی یا جادئہ امن

بجٹ اجلاس کے ابتدائی دنوں میں قومی اسمبلی کے اندر حکومت اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے کو آن فلور مغلّظات سے نوازنے کا جو مصرع طرح دیا تھا اس پر پہلے بلوچستان اسمبلی نے گرہ لگائی پھر سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی نے وہ دوغزلے اور سہ غزلے کہے جو اس سے پہلے سندھ اسمبلی کی تاریخ میں سنے گئے نہ دیکھے گئے۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بڑے فارغ البال قسم کے لوگ ہیں جنہیں کوئی غم ہے نہ کوئی پریشانی‘ جبکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری سرحدوں اور فضائوں پر کئی دیدہ و نادیدہ مہیب خطرات منڈلا رہے ہیں جن کا ہمیں شعور ہے نہ ادراک۔ افسوس ہم کتنے بے خبر لوگ ہیں۔
ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ یکم جولائی کو پارلیمنٹ کے اندر تمام حکومتی و غیرحکومتی پارٹیوں کے پارلیمانی قائدین کو اِن کیمرہ بریفنگ دے گی تاکہ ہمارے منتخب قائدین کو اندازہ ہوسکے کہ ہماری مغربی سرحدوں پر کیا ہونے والا ہے اور خدانخواستہ اگر افغانستان میں حالات خراب ہوتے ہیں تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جب آپ یہ کالم ملاحظہ کررہے ہوں گے اُس وقت تک یہ بریفنگ دی جا چکی ہوگی۔ اگلے کچھ روز میں اپنے سازو سامان کے ساتھ امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا۔ روسی فوجیں جس حال کو دس برس کے بعد پہنچی تھیں امریکی فوجوں نے وہ فیصلہ کرنے میں بیس برس لگائے اور یوں روس کی نسبت کئی گنا زیادہ نقصان اٹھایا۔
اللہ نہ کرے‘ لیکن اگر افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور کابل سمیت مختلف محاذوں پر طالبان اور افغان فوجیں آمنے سامنے آجاتی ہیں تو پھر خواہی ناخواہی اس پریشان کن صورتِ حال کے تکلیف دہ نتائج پاکستان کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کو نہ صرف اپنی سرحدوں پر بلکہ ملک کے اندر دہشت گرد کارروائیوں کا خطرہ لاحق ہو گا۔ ہمارے دفتر خارجہ نے سوموار کے روز بتایا تھا کہ پانچ ہزار کے قریب ''کالعدم تحریک طالبان پاکستان‘‘ کے دہشت گرد افغانستان کی پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ حالات کی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں کر کے ہمارے امن و سکون کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک افغانستان کی موجودہ صورتِ حال 1990ء کی صورتحال سے ملتی جلتی ہے جب نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کے متحارب گروپ ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما تھے۔ وہ جرگوں کے سامنے عہدوپیمان باندھتے تھے مگر پھر چند روز کے بعد ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذِ جنگ گرم کر دیتے تھے۔ دینِ حق کے نام پر ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے ڈھیر دیکھ کر نوجوان افغان طالب علموں کی غیرتِ ایمانی جوش میں آئی اور انہوں نے طالبان کے نام سے اپنے جہادی گروپ کا اعلان کر دیا اور ایک ایک کرکے دیگر گروپوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ طالبان نے سقوطِ کابل کے بعد امارتِ اسلامی افغانستان کے قیام کا اعلان کردیا۔ اب تین دہائیاں قبل والے جنگجو ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں اور کچھ ''مجاہدین‘‘ گروہ بھی سرگرم عمل ہو رہے ہیں لیکن اب اُن میں پہلے سا دم خم نہیں جبکہ طالبان پہلے کی نسبت بہت زیادہ منظم ہو چکے ہیں۔ اب اُن کے اندر بڑی وسیع النظری بھی پیدا ہوچکی ہے۔ کچھ روز پہلے طالبان کی اعلیٰ قیادت کے چند حضرات سے ملاقات کرنے والے دوستوں کا کہنا ہے کہ اب طالبان کی پہچان ایک پشتون سنی جہادی گروپ کی نہیں‘ موجودہ طالبان لیڈرشپ کونسل میں ایک چوتھائی شیعہ ہزارہ شامل ہیں۔ اسی طرح شمال کے بہت سے سردار بھی طالبان کے ساتھ آملے ہیں۔اس وقت افغانستان سے تاجکستان میں داخل ہونے والا بارڈر مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے۔ کسی زمانے میں طالبان کو پاکستان کے زیر اثر افغانستان کے مشرقی و جنوبی علاقے کی قوت سمجھا جاتا تھا مگر آج صورتِ حال بدل چکی ہے۔ افغانستان کے اندر امریکی و اتحادی فوجوں سے بیس برس تک افغان برسر پیکار رہے اور ابھی تک وہ امریکہ نواز افغان حکومت سے نبردآزما ہیں مگر اس دوران تقسیمِ کار کے طور پر طالبان نے مستقبل کی ایک دینی و سیاسی قوت کے طور پر اپنا محاسبہ بھی کیا ہے‘ اپنی پالیسی میں تبدیلی بھی کی ہے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ وسعتِ قلبی اور تحمل و بردباری بھی پیدا کی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے طالبان کی عسکری سرگرمیوں اور اُن کی سماجی و فلاحی کارروائیوں کو قریب سے دیکھنے اور اُن سے ملنے جلنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے ہاں ان بیس برسوں میں امریکہ کے خلاف جنگی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے نئے منشور کی تشکیل کے لیے سوچ بچار کا عمل بھی جاری رہا۔ اسی غوروفکر کے بعض بہت مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ کبھی طالبان صرف پشتون باشندوں پر اعتماد کرتے تھے مگر اب وہ دیگر لسانی و مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران طالبان نے اپنے ساتھ غیرپشتون شمالی علاقے سے تعلق رکھنے والے تاجک اور ازبک کمانڈروں کو نہ صرف شامل کیا ہے بلکہ انہیں عسکری آپریشنز کے لیے خودمختاری بھی دے دی ہے۔ اس سارے منظرنامے کی تفصیل بیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ اب عمومی طور پر طالبان کو امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان کے روایتی نسلی و مذہبی گروہوں کی طرف سے پہلے کی طرح کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس طرح بظاہر افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں۔
طالبان قیادت نے پاکستانی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکی فوجوں کو اڈے دیے اور یہاں سے افغانستان کے اندر بمباری کرنے کے لیے طیارے اُڑے تو پھر یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگا اور ہم اسے ایک دشمن کارروائی سمجھیں گے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بار بار امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ ہم نے گزشتہ دور میں افغانستان کے اندر امریکی جنگ کی حمایت کرکے بہت بڑا جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہم نے سابقہ دور میں امریکہ کو اپنے فضائی و زمینی راستے مہیا کرنے کا جو معاہدہ کیا تھا وہ ابھی تک قائم ہے۔ اسی معاہدے کی رُو سے ڈرونز پاکستانی فضائوں سے گزر کر افغانستان میں حملے کرتے تھے۔ حکومت پاکستان کو ایسے کسی بھی معاہدے کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے اور اگر ایسا کوئی معاہدہ ہے تو اسے منسوخ کرنے کا اعلان بھی کرنا چاہئے۔
اگرچہ تیغ و تفنگ سے عشق اور جنگ و جدل سے محبت افغان کے خون میں گردش کرتی ہے مگر گزشتہ چار دہائیوں سے بدامنی کا شکار افغانستان کا ہر شہری اب تھک چکا ہے اور ہر صبح وہ اس تمنا اور دعا کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اس کے وطن میں امن کا سورج آج طلوع ہوگا۔ افغان صدر کو طالبان کے ساتھ مل کر خانہ جنگی نہیں جادئہ امن منتخب کرنا چاہئے۔ جوبائیڈن نے واشنگٹن میں افغان صدر اشرف غنی کو واضح طور پر بتا دیا کہ اب امریکہ افغانستان کی صرف مالی‘ اخلاقی اور سیاسی مدد ہی کر پائے گا۔ اس واضح پیغام کے بعد صدر اشرف غنی کو حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حصہ بقدر جثہ ہی طلب کرنا چاہئے۔دوسری طرف طالبان قیادت کو وسعت نظری اور وسعت قلبی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف موجودہ افغان حکمرانوں بلکہ دیگر گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی نئے انتخابات تک عبوری حکومت میں شامل کر کے اور خانہ جنگی سے پہلو بچاتے ہوئے جادئہ امن کے لیے رستہ ہموار کرنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved