تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     02-07-2021

خوشحال کسان، خود مختار پاکستان

بلاشبہ کسبِ حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے اور محنت کش کے مٹی آلود ہاتھ خالقِ کائنات کو بہت پسند ہیں۔ حلال ذرائع سے رزق کمانا مشکل کام ہے شاید اسی لیے لوگ آسان راستہ تلاش کرتے ہیں اور مشقت سے کنی کتراتے ہیں۔ البتہ ہمارے کسان اپنی شبانہ روز محنت سے زمین سے سونا پیدا کرتے ہیںکیونکہ وہ کھیت کھلیان سے عشق میں مبتلا ہیں۔ اس نہ ختم ہونے والے رومان کی وجہ سے وہ مٹی کے ساتھ مٹی ہو کر اس میں سے اپنے اور اہل خانہ کیلئے سامانِ رزق تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نہ صرف دیہی آبادی کا پیٹ پالنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بلکہ شہری آبادی کی غذائی ضروریات بھی پورا کرتے ہیں۔ وسطی پنجاب کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولنے اور ابتدائی تعلیم مقامی تعلیمی اداروں میں حاصل کرنے کے سبب میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسبِ حلال کے ذرائع میں سے سب سے مشکل اور کٹھن ذریعہ معاش زراعت ہے۔ ہماری زرعی معیشت زمین سے جڑی ہوئی ہے جہاں بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین سب مل کر سخت مشقت سے دو وقت کی روٹی کماتے ہیں۔ موسم کی شدت سے بے نیاز ہو کر دسمبر کی سرد ترین راتوں میں کسان برفیلے پانیوں میں اتر کر اپنے کھیت سیراب کرتا ہے اور کڑکتی دھوپ میں بھی وہ کھیتی باڑی میں مسلسل مشغول نظر آتا ہے۔ فصلوں کی بوائی ہو یا کٹائی، وہ جہدِ مسلسل، عملِ پیہم اور یقینِ محکم کی عملی تصویر بن کر ہر دم مصروف دکھائی دیتا ہے۔ خواتین اس سارے عمل میں برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ کھانا پکانے سے لے کر گھر کے دیگر کاموں کے علاوہ وہ کھیتی باڑی میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ گھریلو اخراجات اور روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وہ مرغیاں اور بکریاں پالتی ہیں، انڈے اور دودھ بیچ کر نقد رقم کا بندوبست یقینی بناتی ہیں۔ وہ سال بھر اپنی سبزیاں خود اگاتی ہیں اور اس طرح مردوں پر اضافی معاشی بوجھ نہیں پڑنے دیتیں۔
آج بھی پاکستان کی آبادی کی واضح اکثریت دیہات میں مقیم ہے اور اس کی ورک فورس کا دو تہائی حصہ براہِ راست یا بالواسطہ زراعت سے ہی وابستہ ہے۔ شعبۂ زراعت اور لائیو سٹاک مل کر ہماری مجموعی پیداوار میں ایک تہائی حصہ ڈالتے ہیں۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تمام تر شہری ترقی اور صنعتی انقلاب کے باوجود ہماری معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب بھی پاکستان کے معاشی حالات بحرانی کیفیت سے دوچار ہوں تو ہمارے خود ساختہ مبصرین اور سوشل میڈیا دانشور پاکستانی معیشت کو دیوالیہ قرار دینے میں پل بھر کی بھی دیر نہیں لگاتے۔ مختلف چینلز پر سنسنی خیز اور ہیجان آمیز بیانات میں ملک کو معاشی دیوالیہ کہنے والے صاحبانِ یقینا ہمارے محنت کش کسانوں کے اپنی مٹی کے ساتھ جڑے رومان سے لاعلم ہیں۔ انہیں کہاں معلوم کہ جب تک ہمارے کھیت کھلیان سرسبز ہیں، زرعی اجناس کی پیداوار جاری ہے اور اشیاء خور ونوش میسر ہیں، پاکستان میں معاشی بحران تو آ سکتا ہے، خدا نخواستہ دیوالیہ ہونے کی صورتِ حال کبھی پیش نہ آئے گی؛ تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے کسان بھائیوں کے اَن گنت مسائل کے حل اور بے پناہ مشکلات کے ازالے کیلئے کبھی بھی کوئی تسلی بخش اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ ان کے ساتھ مسلسل ظلم و زیادتی کا سلوک روا رکھا گیا اور ان کے استحصال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔
جو افراد دیہی معاشرہ کے رہن سہن سے آگاہ ہیں یا دیہات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ یقینا گواہ ہیں کہ کس طرح کسان رات کو سانپوں اور بچھوئوں سے لڑائی لڑ کر اپنی فصلوں کو پانی لگاتا ہے اور ویرانے میں موجود اپنے جانوروں کی حفاظت کیلئے اللہ پر توکل کر کے سو جاتا ہے۔ مرغوں کی اذان کے ساتھ صبح کاذب کے وقت ایک مرتبہ پھر یقینِ کامل اور امیدِ واثق کا استعارہ بن کر ایک نئی صبح کا آغاز کرتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ نہ تواسے اس کے خوابوں کی تعبیر مل پاتی ہے اور نہ ہی اس کی فصلِ گل میںخوشیوں کے پھول کھل پاتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ اپنے باغِ تمنا میں نت نئی آرزئوں کے بیج بوتا ہے مگر اس کی معاشی حالت جوں کی توں رہتی ہے۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ نہ تو اسے اس کی فصل کی پوری قیمت وصول ہوتی ہے اور نہ ہی وقت پر ادائیگی ہو پاتی ہے۔ اس کی محنت کا ثمر کھانے والے آڑھتی اور بیوپاری کروڑوں پتی بن جاتے ہیں مگر اس غریب کے دن نہیں پھرتے اور نہ ہی مالی آسودگی اس کے گھر کا رخ کرتی ہے۔ یوں مڈل مین ہی ساہوکار بن جاتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے کسان کو لوٹ کر خود مالا مال ہو جاتا ہے۔ اکثر آڑھتی حضرات نے اجناس خریدنے کے ساتھ ساتھ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کا کاروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔ وہ ایک طرف تو زرعی اجناس کا سٹاک خرید لیتے ہیں اور دوسری طرف نقد ادائیگی کے بجائے کسان کو اگلی فصل کیلئے درکار کھاد، بیج اور زرعی ادویات بیچ کر خطیر منافع کما لیتے ہیں۔ اس طرح وہ بے بس اور لاچار محنت کش کسانوں کو اپنے معاشی جال میں بری طرح جکڑ کر اس کا مسلسل استحصال کرتے رہتے ہیں اور حکومت تماشائی بن کر اس لوٹ کھسوٹ کے عمل کی بیخ کنی نہیں کر پاتی اور نہ ہی کسان کو مڈل مین کے شکنجے سے آزاد کرانے کیلئے کوئی قابلِ عمل پروگرام یا منصوبہ شروع کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسان جہاں پچاس سال پہلے کھڑے تھے‘ آج بھی وہیں نظر آتے ہیں۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ موجودہ حکومت نے کسان کے استحصال کی روک تھام کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور اسے مڈل مین کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے اک مربوط حکمتِ عملی وضع کر کے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ چینی مافیا کے خلاف کارروائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طاقتور طبقے سے نمٹنے کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس حکومتی فیصلے کا براہِ راست فائدہ گنے کی فصل کی پوری قیمت اور بروقت ادائیگی کی شکل میں ہوا جس سے ہمارے کسان بھائیوں کو خاطر خواہ منافع بھی ہوا اور یکمشت نقد رقم ہاتھ لگی جو اس کی خوشحالی اور مالی آسودگی کے سفر کا آغاز ہے۔ چند ہفتے قبل وزیراعظم سے کسانوں کے نمائندہ وفد نے ملاقات کی جنہوں نے حکومتی اقدامات پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ وفد کے ارکان نے تسلیم کیا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار وہ وزیراعظم ہائوس مدعو کیے گئے اور اُن کے دیرینہ مسائل کے حل پر حکومتی توجہ مبذول نظر آتی ہے۔ حالیہ بجٹ میں بھی کسانوں کو زرعی آلات، کھاد اور بیج کے حصول کیلئے بلا سود قرضوں کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور بینکنگ سیکٹر کو اس سلسلے میں ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں تاکہ کسانوں تک اس سہولت کو بلاامتیاز پہنچانے میں وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔ یہ اقدامات کسان کو مالی طور پر خود مختار بنانے اور مڈل مین کے معاشی استحصال سے آزاد کرانے کیلئے یقینا کارگر ثابت ہوں گے جس سے ملکی معیشت میں زرعی شعبے کا کردار بڑھے گا اور ہمارا ملک نہ صرف فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنا سکے گا بلکہ زرعی اجناس کو برآمد کر کے قیمتی زرِ مبادلہ بھی کما سکے گا اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک ملکی وسائل کا خطیر حصہ نچلے طبقے کے مالی تحفظ پر خرچ کرتے ہیں۔ وقت آن پہنچا ہے کہ دیہی آبادی کی مالی آسودگی اور معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ آسان قرضوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ کسان کی اجناس اور لائیو سٹاک کو انشورنس کے ذریعے محفوظ بنایا جائے تاکہ قدرتی آفات، موسم کی بے رحمی اور بیماریوں سے ہونے والے قابلِ تلافی نقصان کا ازالہ ممکن بنایا جا سکے۔ ہمارے حکومتی ایوانوں اور پالیسی ساز اداروں کے ذمہ داران اس بات کا ادراک کر لیں کہ خوشحال کسان ہی خود مختار پاکستان کا ضامن بن سکتا ہے ورنہ ہم کشکول لیے دربدر بھٹکتے اور معاشی خودمختاری عالمی مالی اداروں کے پاس گروی رکھنے پر مجبور رہیں گے۔ علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہا تھا ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جُھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved