وزیر اعظم کہتے ہیں کہ چین سے دوستی لازوال ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، کتنا ہی دباؤ ڈالے، یہ دوستی ختم تو کیا ہوگی، گھٹے گی بھی نہیں۔ وزیر اعظم نے دل کو لگتی بات کہی ہے۔ چین سے ہماری دوستی اور اشتراکِ عمل کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہر مشکل وقت میں چین نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور آج بھی ہم چین کی ترجیحات میں نمایاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے چین کو مختلف معاملات میں دبوچنے اور کمزور کرنے کے لیے ''کواڈ‘‘ کے نام سے جو اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی ہے اس میں بھارت سے خصوصی کردار متوقع ہے۔ امریکی قیادت بھارت کو چین کے خلاف بروئے کار لاکر اُس کی طاقت گھٹانا چاہتی ہے۔ بھارتی قیادت بھی بظاہر اس کے لیے تیار ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ جو چیز کسی ملک کو اہمیت دلاتی ہے وہی چیز ہمیں مشکلات سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ اگر پالیسی میکرز قومی مفادات کو اولین ترجیح کا درجہ نہ دیتے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم قدرت کی کسی بھی عنایت سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کر پائے ہیں۔ بات ہو رہی تھی اُس چیز کی جو کسی بھی ملک یا قوم کو اہمیت دلاتی ہے۔ وہ چیز ہے محلِ وقوع۔ بہت سے ممالک موقع شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے محلِ وقوع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ سب کچھ حاصل کرتے ہیں جو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ محلِ وقوع سے کماحقہٗ استفادہ تو کیا کرتے‘ اس نعمت کو ہم نے اپنے لیے مصیبت میں تبدیل کرلیا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ قومی مفادات کو ہر معاملے پر ترجیح دینے کا رجحان ہمارے ہاں آج تک پنپ نہیں سکا۔ پاکستان کے لیے سفارت کاری کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو طبقہ مملکت کے امور پر متصرف رہا ہے وہ مغرب سے مرعوب رہا ہے۔ حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت مغرب سے پڑھ کر آئی ہے۔ کرپشن کے ذریعے خوب دولت بٹورنے والوں کو بھی کوئی جائے پناہ دکھائی دیتی ہے تو صرف مغرب میں۔ یورپ اور امریکا کے بعد اب کینیڈا میں بھی ہمارے کرپٹ لوگوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔
امریکا اور یورپ کو ہر معاملے میں ترجیح دینے کا رجحان ہمارے حکمراں طبقے کی ایک بنیادی صفت کا درجہ رکھتا ہے۔ امریکا اور یورپ دونوں ہی نے ہمیشہ اس بات کو بہت اہمیت دی ہے کہ ہمارے ہاں مغربی تہذیب سے مرعوب ذہن حکمران رہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہماری بیشتر پالیسیاں ان کے مفادات کی نگہبانی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک پاکستان میں زیادہ تر وہی لوگ برسرِ اقتدار رہے ہیں جنہوں نے ہر معاملے میں مغرب کی خوشنودی کو اہمیت دی ہے۔ مغرب کی مرضی سے تیار کی جانے والی پالیسیاں ہمارے ہاں رو بہ عمل رہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ قومی مفادات کو تقویت دینے میں کبھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور آج بھی ہم اس حوالے سے خاصی کمزور حالت میں ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں ہمیں سوویت یونین کے خلاف محاذ کے طور پر بروئے کار لایا گیا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر ہمیں اشتراکیت کی راہ روکنے کے حوالے سے استعمال کیا۔ چین ہمارا پڑوسی ملک تھا، وہاں اشتراکیت تھی اس لیے امریکا اور یورپ نے پاکستان میں، معاشی سطح ہی پر سہی، اشتراکیت کی راہ مسدود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ روس (سابق سوویت یونین) ہم سے دوستی بڑھانے اور اشتراکِ عمل کو توسیع دینے میں خاص دلچسپی رکھتا تھا مگر ہم نے امریکا اور یورپ کے دباؤ کے تحت اُس کی طرف سے وسیع البنیاد دوستی کی پیشکش کا تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس سے تعلقات بہتر بنانے اور بہت سے معاملات میں غیر معمولی حد تک استفادہ کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی مغرب نے ہماری جان نہیں چھوڑی۔ مغربی طاقتوں نے سقوطِ ماسکو کے بعد دینِ اسلام کے خلاف محاذ کھول لیا اور مسلم دنیا کے ممالک کو برباد کرنے کی راہ پر چلنا شروع کر دیا ۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم دنیا میں قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا گیا اس کے نتیجے میں پاکستان بھی خاصا متاثر ہوا۔ امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر عراق، شام اور لیبیا میں بھی تباہی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران پاکستان نے عسکریت پسند گروپوں کو کچلنے میں امریکا اور یورپ کا بھرپور ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب تک امریکا اور یورپ جنوبی ایشیا میں فعال رہے تب تک چین نے خود کو پیچھے رکھنا قبول کیا۔ اس کی اولین ترجیح یہ تھی کہ خطے کے کسی بھی ملک سے اس کے تعلقات میں خرابی پیدا نہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ اس نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے وسیع البنیاد اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔ چین چاہتا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس کی سرمایہ کاری بڑھے اور یہ دونوں مسلم ممالک غیر ضروری طور پر مغرب نواز پالیسیاں اختیار کرنے سے گریزاں رہیں۔ بنگلہ دیش کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ وہ مغرب کی طرف غیر معمولی جھکاؤ رکھنے والا کبھی نہیں رہا۔ ہاں! بھارت کے معاملے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مغربی سوچ کے شکنجے سے کبھی آزاد نہیں ہوسکا۔ آج بھی ہماری پالیسیوں میں مغرب پرستی کا عنصر نمایاں ہے۔ امریکا اور یورپ بہت سے معاملات میں آج بھی ہم سے اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
چین سے دوستی برقرار ضرور ہے اور چین نے اقتصادی راہ داری کے نام پر پاکستان میں غیر معمولی سرمایہ کاری بھی کی ہے مگر یہ سب کچھ اُس کی ضرورت اور ترجیحات کے مطابق بھی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے ہم نے چین سے دوستی اور اشتراکِ عمل کو اولین ترجیح کا درجہ کبھی نہیں دیا اور آج بھی ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ امریکا اور یورپ آج بھی چین سے ہماری وسیع البنیاد دوستی اور اشتراکِ عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ چین اب بھی اس بات کا منتظر ہے کہ ہم تھوڑی سی ہمت دکھاتے ہوئے مغرب سے مرعوب ہونا چھوڑیں۔ مغرب سے مرعوب ہونے کا سلسلہ ترک کیے بغیر ہم چین اور روس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ مغرب کی کاسہ لیسی نے ہمیں کیا دیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے مغرب کے مفادات کے لیے خود کو قربان تک کردیا ہے مگر آج بھی یہی طعنہ سننے کو ملتا ہے ہم اُس کے لیے کماحقہٗ نہیں کر رہے۔ امریکی قیادت آج بھی برملا کہتی ہے کہ پاکستان دو کشتیوں میں سفر کر رہا ہے یعنی ہم اُس کے بھی ہیں اور کسی اور کے بھی۔ چین سے پاکستان کی دوستی برقرار ہے۔ یہ بات مغرب سے ہضم نہیں ہو پارہی۔ پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے کو ناکام بنانے میں امریکا اور مغرب نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ افغانستان میں حالات کو خراب رکھا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان کے بعض علاقوں اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں بھی کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہم چین سے سدا بہار قسم کی دوستی چاہتے ہیں۔ چین نے اب تک ہمیں دھوکا نہیں دیا۔ ایسے میں قرینِ دانش یہ ہے کہ ہم چین کو اپنا سمجھتے ہوئے اُس کی طرف بڑھیں۔ مغرب کی ذہنی غلامی ترک کرکے چین کی طرف حقیقی اشتراکِ عمل کا ہاتھ بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ روس بھی ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔ وقت بدل چکا ہے۔ مغرب بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کر رہا ہے۔ ایسے میں ہم کیوں طرزِ کہن پر اڑے رہیں؟ صرف کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں چین کا بن کر دکھانا ہوگا۔