تین سال بعد‘ پہلی بار عمران خان صاحب نے وہ تقریر کی جو ان کے منصب کے شایانِ شان تھی۔تین سال پہلے یہ واقعہ ہو جاتا تو شاید عمرِ رائگاں کے ماہ و سال کچھ کم ہو جاتے۔
میں نہیں جانتا کہ یہ حالات کا جبر ہے یا کسی داخلی تبدیلی کا اظہار۔ اس عمر میں عام طور پر کسی کی فطری ساخت‘ جسے قرآنِ مجید 'شاکلہ‘کہتا ہے‘ تبدیل نہیں ہوتی۔ انسان چونکہ خارجی حالات کاا سیر ہوتا ہے‘ اس لیے ان کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات اپنی طبیعت کے برخلاف بھی اقدام کر گزرتا ہے۔ جیسے ہی یہ جبر کم یا تمام ہو تا ہے‘اس کی فطرت ایک بار پھر ظہور کرتی ہے؛ تاہم لوگ بدلتے بھی ہیں۔کبھی مطالعہ‘کبھی کسی صالح آدمی کی ہم نشینی‘کبھی کوئی حادثہ انسان کو بدل دیتا ہے‘اگرچہ یہ کوئی فارمولہ نہیں۔ ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آتے ہیں کہ بڑے حادثے کے بعد بھی لوگ خدا کے خوف سے آزاد رہتے ہیں۔ اپنے پروردگار کو گویا بچشمِ سر دیکھنے کے بعد بھی۔ لہٰذا کوئی حتمی حکم لگانے سے گریز ہی بہتر ہے۔ اس کیلئے عملِ پیہم کی شہادت چاہیے اور وہ برسوں کے انتظار کا تقاضا کرتی ہے۔
اس بات سے قطع نظرکہ یہ حقیقی تبدیلی ہے یا خارجی دباؤ‘خان صاحب کو یہ سمجھنے میں تین سال لگے کہ وہ اب نہ تو اپوزیشن لیڈر ہیں اور نہ ہی ایک جماعت کے رہنما۔وہ اب ملک کے وزیراعظم ہیں اور بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں جس میں خاطر خواہ تعداد ان کے مخالفین کی ہے۔اب ان کے لب و لہجے کو بدل جانا چاہیے کہ یہی ان کے منصب کا تقاضا ہے۔سن رکھا تھا کہ 'خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے‘‘ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کو آتے آتے تین سال لگ سکتے ہیں۔
میری دعا ہے کہ یہ تبدیلی محض خارجی دباؤ کا نتیجہ نہ ہو۔یہ خان صاحب کی اپنی دریافت ہو کہ مثبت اندازِ نظر اور کلام میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا احترام ہماری اجتماعی ضرورت ہے۔اللہ کرے ان پر یہ راز منکشف ہو چکا ہو کہ لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنی ذات سے بلند ہو سکتاہے۔ جسے اپنی ذات پر اتنا بھروسا ہو کہ وہ مخالفین کی تنقید سے بے نیاز ہو جائے‘اگر وہ بے بنیاد ہے۔جو جان لے کہ زمانہ خود فیصلہ ساز ہے اور معاملہ اس پر چھوڑ دے۔
یہ تبدیلی‘اگر حقیقی ہے تولازم ہے کہ اس کے اثرات سوشل میڈیا کے ان مجاہدین میں بھی دکھائی دیں جو دشنام کو بطور حکمتِ عملی اختیارکر چکے۔ جو اپنے قائد کے اتباع میں کالم نگاروں اور مختلف رائے رکھنے والوں کو انہی القاب اور زبان کا مستحق سمجھتے ہیں جو خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کرتے تھے۔اگر وہ بھی اپنی بات مثبت انداز میں کہنے لگیں تو ملک کا سیاسی کلچر بدل سکتا ہے۔
اب خان صاحب کی طرف سے ان کے کارکنوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ وہ ان کی ذات سے بے نیاز ہوکر‘اپنی توجہ مثبت سرگرمیوں پر مرتکز کر دیں۔ ہماری تاریخ کا ایک دور ایسا بھی تھا کہ مولانا مودودی جیسی پاکیزہ شخصیت مذہبی اور سیاسی مخالفین کے الزمات کی زد میں تھی۔اس موقع پر‘ غالباً 1972 میں مولانا نے جماعت اسلامی کے کارکنوں سے خطاب کیا اور انہیں کچھ ہدایات دیں۔ان میں ایک یہ بھی تھی کہ انہیں مولانا کی ذات کے دفاع کی ضرورت نہیں۔ان کی ساری توجہ اپنے مشن پر مرکوز رہنی چاہیے۔ مولانا مودودی نے اس کے علاوہ جو کچھ کہا‘اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس سرزمین پر کوئی اجنبی آدمی نہیں ہوں۔لوگ مجھے جانتے ہیں۔کسی کی بے جا تنقید مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ کسی کی غیر ضروری تائید کوئی فائدہ۔
لیڈر میں اس طرح کا اعتمادِ ذات ہو تو اسے دشنام طرازی کے لیے کسی میڈیا ٹیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کے مخالفین بے پر کی اُڑا رہے ہیں تو انہیں اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہوئے‘اپنی توجہ مثبت کاموں پر دینی چاہیے اور اپنے کارکنوں کو بھی اسی بات کی تلقین کرنی چاہیے۔یوں بھی کرپشن کے نعرے سے انہوں نے جو سیاسی فائدہ کشید کرنا ہے‘وہ کیا جا چکا۔اس پرمزید کچھ کہنا سننا وقت اور صلاحیتوں کا کوئی اچھا مصرف نہیں۔اگلی انتخابی مہم میں‘ انہیں اپنی کارکردگی کے ساتھ شریک ہونا ہے۔لوگ ان سے یہ نہیں سننا چاہیں گے کہ ان کے سیاسی مخالفین کیسے ہیں؟لوگ تو عہدِ اقتدار کا حساب مانگیں گے۔اس وقت صرف کارکردگی زیرِ بحث ہو گی۔
گزشتہ تین سالوں میں کرپشن کے خلاف خان صاحب کی مہم بھی نتیجہ خیز نہیں رہی۔اس باب میں وہی کوششیں بارآور ہوئیں جن کا آغاز 2016ء میں ہوا۔اس کامیابی کا سہرا ظاہر ہے کہ کسی اور کے سر ہے۔عمران خان تو نتائج سمیٹنے والوں میں سے ہیں۔2018ء کے بعد ہونے والا احتساب ان کے مخالفین کے سیاسی موقف کی تائید ہے۔ نیب کے ادارے نے جو کارکردگی دکھائی اوریہ جس قانون کی بنیاد پر قائم ہوا‘اُن کے بارے میں سپریم کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل جو رائے اور سفارش دے چکی ہیں‘وہ کسی شرح کے محتاج نہیں ہیں۔دونوں کا حاصل یہ ہے کہ اس سارے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان صاحب نے مثبت سمت میں پہلا قدم اٹھایا ہے تو اب انہیں اس راستے پر مزید پیش قدمی بھی کرنا چاہیے۔انتخابی اصلاحات کے ساتھ‘وہ اپوزیشن کو دعوت دیں کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک موثر نظام ِ احتساب کی تشکیل کے لیے شریکِ مشاورت ہوں۔فوجی قیادت کا مشورہ بھی یہی سامنے آیا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے اتفاقِ رائے‘ آج ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اس اتفاقِ رائے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جا ئے۔
تین سالوں میں حکومت نے کوشش کی کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کا نام و نشان مٹا دے۔وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئی۔آخری ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن کی عوامی حمایت برقرار ہے۔اسی طرح اپوزیشن نے بھی پوری کوشش کی کہ وہ حکومت کو ختم کر ڈالے۔وہ بھی بری طرح ناکام رہی کہ حکومت تنہا نہیں تھی۔ریاست کے دیگر ادارے بھی اس کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔اب دونوں کو پُرامن بقائے باہمی کی طرف لوٹ آنا چاہیے اور فیصلہ عوام کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔اس وقت سب سے بڑا چیلنج انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہے۔حکومت نے اس باب میں قانون سازی کرتے وقت عجلت کا مظاہرہ کیا۔اب اچھا ہوا کہ سینیٹ میں اسے روک دیاگیا ہے۔شہباز شریف صاحب نے اس پر اے پی سی بلا رکھی ہے۔لازم ہے کہ اس کی سفارشات کو بھی ان اصلاحات میں شامل کیا جائے۔آگے بڑھنے کی یہی عملی صورت ہے کہ عوام کا فیصلہ کسی ملاوٹ سے پاک رہے۔
قومی اسمبلی سے عمران خان صاحب کاخطاب ایک بہتر سیاسی ماحول کی بنیاد بن سکتا ہے اگر بات ایک تقریر تک محدود نہ رہے۔اس تقریر میں انہوں نے جو کچھ کہا‘وہ اس وقت میراموضوع نہیں۔میں اپنی بات کو اس لب و لہجے تک محدود کر رہا ہوں جو اس تقریر میں اختیار کیا گیا۔اس کی بجا طور پر تحسین ہوئی ہے۔اللہ کرے کہ ہم اس کے ا ثرات تحریکِ انصاف میں نچلے درجے تک دیکھیں۔ ایسے اثرات ہی سے یہ اندازہ کیا جا سکے گا کہ عمران خان کا یہ لہجہ خارجی دباؤ کا نتیجہ ہے یا کسی داخلی تبدیلی کا اظہار۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگریہ تبدیلی حقیقی ہے توپھر شہباز گِل صاحب اور فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے مناصب کا کیا جواز ہے؟