اگر 2مئی2011ء کو ہونے والے حملے ،جس میں بن لادن کی ہلاکت ہوئی، نے ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے وقار کی دھجیاں بکھیر دیں اور اُن کی انا کو چرکا لگایا تو ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ اُن زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جب میں نے اس رپورٹ کے بارے میں لکھنے کا سوچا تو سرکاری افسران کی سنجیدہ اور بے کیف زبان میں تحریر کردہ 337 صفحات پڑھنے کا خیال خاصا روح فرسا تھا، تاہم جب میں نے اس رپورٹ کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے اس کے صاف اور واضح اسلوب ِ نگارش نے حیران کردیا۔ اس محنت اور اس انداز میں رپورٹ لکھنے پر کمیشن مبارک باد کا مستحق ہے۔ ایبٹ آباد حملے کے چند دن بعد میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا۔۔۔’’ چاہے دفاعی ادارے اس ضمن میں نااہلی کا اعتراف کریں یا وہ اس میں قصو وار پائے جائیں، اس واقعہ کے نتیجے میں برداشت کی جانے والی اذیت اور توہین ایک جیسی ہی ہو گی‘‘۔ اب رپورٹ کے سامنے آنے پر کس اذیت اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ یہ رپورٹ سیاسی قیادت، انٹیلی جنس اور دفاعی اداروں کی ناکامی پر ماتم کناں ہے۔ رپورٹ تیار کرنے والوں کے سامنے ڈی جی آئی ایس آئی سے لے کر ایبٹ آباد کے ایس ایچ اوتک پیش ہوئے اور سب نے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ میںاس رپورٹ کا مطالعہ کرنے سے پہلے ’’جی آئی ایس ‘‘(Governance Implosion Syndrome) نامی اصطلاح سے واقف نہ تھا۔ اس سینڈروم میں ان غلطیوں کی تفصیل درج ہے جن کی وجہ سے کوئی حکومتی ایجنسی تقریباً دس سال میں بھی بن لادن کا سراغ نہ لگا سکی اورنہ ہی پاکستان میں دراندازی کرنے والی امریکی ٹیم کا راستہ روک سکی۔ نظام میں خرابی کی شکایات کی بھرمار کے علاوہ، اس رپورٹ کے دو بڑے موضوعات ہیں۔ ان میں سے ایک تو ملٹری اور سول اداروں اور محکموں کے درمیان اشتراک ِ عمل کا فقدا ن ہے۔آئی ایس آئی اور پولیس کے آپس میں عدم تعاون کے حوالے سے افسوس ناک بات سامنے آئی کہ جب آئی ایس آئی بن لادن کے گھر کی تلاشی لے رہی تھی تو مقامی پولیس والوں کو وہاںسے دور رہنے کے لیے کہا گیا۔ اس طرح اس جرم (بن لادن کے وہاں ٹھہرنے) کی کوئی ایف آئی آر درج نہ کی جا سکی۔ رپورٹ کا دوسرا موضوع وہ مشترکہ غم و غصہ تھا جس کا اظہار دفاعی اور خفیہ اداروںکی طرف سے کیا گیا تھا ۔ اس غصے کا محرک امریکیوں کی بے وفائی تھی کیونکہ وہ سب کے سب یہ کہتے سنے گئے تھے کہ ۔۔۔’’ہم امریکیوںکے اتحادی تھے ‘‘۔ تاہم جب آپ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو اتحادی سمجھنا حماقت کے زمرے میںآتا ہے۔ کمیشن کے ممبران نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ جس گھر میں اُسامہ بن لادن نے رہائش اختیار کر رکھی تھی، اُس کی تعمیر میں قواعد ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اس زمین کی خرید اری میں بھی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی تھی کیونکہ اسے کسی اور شخص کے شناختی کارڈ پر خریدا گیا تھا۔ یقینا ان اعلیٰ سطح کے جج صاحبان کانچلی سطح پر ہونے والے سرکاری کاموں ، جہاں پیسہ چلتا ہے، سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہوگا ، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں تعمیر ہونے والے نصف کے قریب مکانات قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب میں اس رپورٹ کو پڑھ رہا ہوں، تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ انھوںنے پاکستانی معاشرے کے ہر پہلو کو ہدف ِتنقید بنایا ہے۔ حکمران طبقے سے لے کر عام شہری اور سول ملٹری تعلقات ، ہر چیز فاضل کمیشن کی نظروں سے گزری ہے۔ اب اس طرز ِ تحقیق کا نقصان یہ ہے کہ اس نے دائرہ اتنا پھیلا دیا ہے کہ ہر کوئی قصوروار دکھائی دیتا ہے ، اور جب ہر کوئی قصور وار ہو تو پھر یہ بات طے ہے کہ کسی کو بھی مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہمارے ملک کی یہ بھی ایک روایت رہی ہے کہ جب بھی حکومت کسی مسئلے یا کسی سخت فیصلے کو ٹالنا چاہتی ہے تو وہ اس پر کوئی کمیشن قائم کر دیتی ہے۔ چاہے کوئی ریلو ے ٹرین کا حادثہ ہو ،ہوائی جہاز کا کریش ہو یا دہشت گردی کی کارروائی، حکومت کا فوری رد ِ عمل یہی ہوتا ہے کہ ان کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن قائم کر دیتی ہے۔اس سے تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حکومت کچھ کررہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کامقصد حقیقت پر پردہ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیںہوتا۔ عام طور پر ایسی رپورٹوں کو واقعات کے کئی مہینوں، بلکہ سالوں، بعد پیش کیا جاتا ہے اور تب تک لوگ عام طور پر اُن واقعات کو بھول چکے ہوتے ہیں۔ اکثر رپورٹیں منظرِ عام پر لائی ہی نہیں جاتیں اور وہ سرکاری دفاتر میں پڑی پڑی گرد آلود ہو جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا اگر اسے الجزیرہ اپنی ویب سائٹ پر شائع نہ کر دیتا۔ اگر آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی نیٹ صارفین کے لیے اس سائٹ کو بلاک کر دیا گیا ہے تو آپ کو احساس ہو گا کہ اس رپورٹ نے پھر پرانے زخموں کو ہرا کر دیا ہے۔ اس کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے ہر شخص نے اسے دفاعی اور خفیہ اداروں کی ناکامی سے تعبیر کیا ہے۔ درحقیقت ائیر فورس نے اپنے افسران کو بھی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ امریکی دراندازی کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ دار نہیں ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس ضمن میں صرف مسلح افواج اور خفیہ اداروں پر ملبہ ڈالا جارہا ہے جبکہ یہ تمام حکومتی اداروںکی اجتماعی ناکامی تھی۔ بن لادن پر حملے کے کئی ماہ بعد میں امریکہ میں اپنی کتاب کی تشہیر کے لیے موجود رہا ۔ وہاں مجھے ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے بار بار پوچھا گیا کہ بن لادن کیونکر ایک عشرے تک پاکستان میں رہتا رہا جبکہ کسی کو اس کا علم بھی نہ ہو سکا ؟ اس دوران وہ چھے سال تک ایبٹ آباد جیسے شہر میں رہائش پذیر رہا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اُسے کسی سطح پر سرکاری عناصر کی حمایت حاصل نہ ہو؟ اُس وقت میںنے اُن کو بتایا، اور اپنے کالموں میں بھی میں اسی رائے کا اظہار کرتا رہا، کہ یہ سراسر نااہلی ، نہ کہ جرم میں معاونت، کا معاملہ ہے۔ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اگر خفیہ اداروں میںسے کسی کو بن لادن کی موجودگی کاعلم تھا تو یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کے سرکی قیمت پچیس ملین ڈالر تھی اور امریکی حکومت کی طرف سے وعدہ کہ اطلاع دینے والے کو گمنام شناخت کے ساتھ امریکہ میں پناہ دی جائے گی، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ راز محفوظ رہتا؟ یہ راز ایک ایسے پتھر کی طرح تھا جسے تالاب میں پھینکیں تو لہروں کا ارتعاش پیداہونا لازمی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ لہروں کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر خفیہ ایجنسی کو علم ہوتا کہ اس گھر میں دنیا کا مطلوب ترین انسان رہتا ہے تو پھر اس احاطے میں کسی غیر متعلقہ شخص کو داخل نہ ہونے دیتے(جب کہ یہ بات بھی علم میں آئی تھی کہ جب لڑکوں کی کرکٹ بال احاطے میں جا گرتی تو وہ لینے کے لیے دروازے پر دستک دیتے) تیسری بات یہ ہے کہ ہماری فوج بن لادن کو کبھی اتنے عرصے تک ملک میں نہ رہنے دیتی۔ وہ یقینا اُسے بھی امریکیوں کے حوالے کرکے واشنگٹن کو اپنا احسان مند کرنے کی کوشش کرتے کیونکہ فوج کو پتہ تھا کہ اس شخص کا ہماری زمین سے پکڑے جانا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ آخر میں، جب سیل کمانڈوز احاطے میں موجود کمپیوٹرز اور سی ڈیز ساتھ لے گئے تھے تو اگر اس کا پاکستانی حکام سے کسی بھی قسم کا رابطہ ہوتا تو بہت عرصہ پہلے ہی یہ بات دنیا کے علم میں آجاتی۔ مجھے خوشی ہے کہ جو باتیں میںنے اُس وقت امریکیوںکو بتائی تھیں ، آج ایبٹ آباد کمیشن نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved