پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اِن کیمرہ اجلاس میں وزیراعظم کی خالی کرسی ہماری قومی سیاست کے موجودہ مزاج کا پتا دیتی ہے۔ وزیراعظم کی عدم شرکت پر وزرا نے کئی طرح کی توجیہات پیش کیں‘ سب سے دلچسپ بات وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کی اور کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے واک آؤٹ کی دھمکی پر وزیراعظم نے اجلاس میں شرکت سے گریز کیا۔ فواد چوہدری بہت سمجھ دار وزیر ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں حکومتی و پارٹی فیصلوں کے دفاع کے لیے کوئی نہ کوئی نکتہ ڈھونڈ لاتے ہیں‘ اس بار انہوں نے جو نکتہ اٹھایا وہ دفاع کے بجائے کمزوری کا عکاس ہے۔ کیا وزیراعظم واک آؤٹ کی دھمکی سے گھر بیٹھ جانے والی شخصیت ہیں؟ عمران خان کی سیاست کو دو عشروں سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ عمران خان ایسی دھمکیوں سے گھبراتے نہیں‘ تو فواد چوہدری نے یہ جواز کیوں پیش کیا؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ فواد چوہدری بھی اس بار مشکل سوال کا مثبت جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیوں نہ کی ؟ یہ سوال اتنی بار اٹھایا گیا کہ قومی اسمبلی سپیکر سیکرٹریٹ کو بھی وضاحت دینا پڑی‘ سپیکر کے ترجمان نے بھی فواد چوہدری کی دلیل کو اپنایااور کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی پارلیمان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت کے حوالے سے چلنے والی خبریں غلط ہیں‘ وزیراعظم پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہمیشہ سے آمادہ تھے لیکن ان کے اجلاس میں عدم شرکت کی واحد وجہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے ظاہرکیے گئے تحفظات تھے جو کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کو پہنچائے گئے تھے۔ ایک اور تضاد یہ بھی سامنے آیا کہ سپیکر کے ترجمان نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وزیراعظم پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے رکن ہی نہیں اور انہیں خصوصی طور پر مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا اس لیے ان کی غیرحاضری کا تاثر دینا درست نہیں۔اس سوال پر کہ کیا شہباز شریف نے سپیکر کو وزیر اعظم کی اجلاس میں شرکت سے متعلق کوئی پیغام دیا تھا یا نہیں؟ اس پر ترجمان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے اجلاس میں ارکان کے علاوہ کس کو بلانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنا سپیکر کا کام ہے کسی اور کا نہیں۔
میں نے آغاز میں ہی کہا تھا کہ اس اہم اجلاس میں وزیراعظم کی خالی کرسی قومی سیاست کے موجودہ مزاج کا پتا دیتی ہے۔ کپتان نہ تو اپوزیشن کے واک آؤٹ کے ڈر سے غیر حاضر تھے اور نہ ہی کمیٹی کی رکنیت کا کوئی مسئلہ تھا‘ دراصل وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ مل بیٹھنا ہی نہیں چاہتے تھے اور ان کے مزاج کی یہ خصوصیت ان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے علم میں ہے۔وزیراعظم کی شرکت یا غیرحاضری میرا مسئلہ نہیں؛ تاہم قومی موقف کی تشکیل میں تمام فریقوں کی موجودگی لازم تھی اور اس بات سے اتفاق انہیں بھی کرنا پڑا جو ٹی وی پروگراموں میں‘ حکومت کے ترجمان نہ ہونے کے باوجود ‘ترجمانوں سے زیادہ حقِ نمک ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور بات جس کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا وہ وزیراعظم کی اس اجلاس سے ایک دن پہلے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر ہے۔وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مختلف لہجہ اپنایا تھا اور اپوزیشن کے لتے لینے کے بجائے اہم ایشوز پر اپنی رائے دی۔اسی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ انتخابی اصلاحات ایک سال سے پڑی ہوئی ہیں اور اس پر اپوزیشن کی جانب سے کوئی بحث نہیں ہوئی۔میں ان سے (اپوزیشن سے بات چیت کی) درخواست کروں گا کیونکہ یہ ملک کی جمہوریت کا مستقبل ہے‘‘۔ اس خطاب سے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ وزیراعظم کے لب و لہجے کی تبدیلی قومی سیاست میں بہتری کی طرف اٹھایا جانے والا قدم ہے اور حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے‘ اللہ کرے ایسا ہی ہو‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا یہ خطاب‘ اپوزیشن کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت ہوا تھا اور وزیراعظم کو اپوزیشن رہنماؤں کے متعلق روایتی لب و لہجہ اختیار نہ کرنے کی مجبوری لاحق تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کر کے وزیراعظم نے اس بات کوتقویت دی ہے کہ قومی اسمبلی میں خطاب اپوزیشن کے ساتھ سمجھوتے کی وجہ سے نرم تھا ‘ لیکن فواد چوہدری کی طرف سے اپوزیشن کی واک آؤٹ کی دھمکی والا جواز خود اپوزیشن نے مسترد کرتے ہوئے اس کے ثبوت طلب کیے ہیں اور سپیکر سیکرٹریٹ سے بھی کہا گیا ہے کہ ایسی کسی خط و کتابت کا وجود ہے تو سامنے لایا جائے۔
اسی خطاب میں وزیراعظم نے افغانستان اور قومی سلامتی کے متعلق جو گفتگو کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم پہلے سے بریفنگ لے چکے تھے اور پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا بھی فیصلہ کر چکے تھے اسی لیے انہوں نے ایک دن پہلے مافی الضمیر بیان کر دیا تھا۔ وزیراعظم کی یہ تقریرکئی حوالوں سے یوٹرن سے بھری ہوئی تھی‘ وزیراعظم کی اس تقریر میں سابق صدر پرویز مشرف کی افغان پالیسی کو غلط قرار دیا گیا‘ وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھے تھے اس وقت پاکستان نے امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جو ذلت اس وقت میں نے محسوس کی وہ کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق تھا‘ القاعدہ اور مسلح طالبان افغانستان میں تھے‘ ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ ہم نے اس جنگ میں اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانیاں دیں‘ 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ ہمارے ملک کو دنیا کا خطرناک ملک قرار دیا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے اپنے شہریوں کو گوانتاناموبے بھیجا۔ اگر حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟
وزیراعظم نے پرویز مشرف کی پالیسی کو ایوان میں کھڑے ہو کر غلط ضرور کہا لیکن اُس وقت ان کے خیالات کیا تھے؟ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے ان کے انٹرویو کا ایک کلپ آج دوبارہ گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے مشرف کے فیصلوں کی تائید کی تھی اور کہا تھا کہ موجودہ علاقائی سکیورٹی حالات میں صدر مشرف کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا جو انہوں نے اختیار کیا۔
وزیراعظم نے اس خطاب میں وہی کچھ کہا جو پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد اعلامیہ میں بتایا گیا‘ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں ہمارے لئے مشکل وقت آرہا ہے۔ یہی کچھ قومی سلامتی بریفنگ میں بتایا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قومیں مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لیے ایسے رویے اپناتی ہیں؟ کیا دنیا کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ انتہائی خطرے میں گھرے ہونے کے باوجود ہماری انا بہت بڑی ہے؟ قومی سلامتی بریفنگ میں جو کچھ بھی بتایا گیا وہ خفیہ رکھا گیا لیکن غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں بتاتی ہیں کہ خطرہ ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے‘ افغان طالبان جو کبھی ہمارے سمجھے جاتے تھے اب وہ بھی ایسے بیانات دے رہے ہیں جو انکے مستقبل کے عزائم کا پتا دیتے ہیں۔ خدارا سیاسی قیادت ہوش سے کام لے‘ سب سے بڑی اور بھاری ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ قومی اتفاقِ رائے کا ماحول پیدا کر کے آنے والے خطرات کی پیش بندی کرے‘ کیونکہ میرے نزدیک وزیراعظم کی انا اس ملک سے بڑی نہیں !