تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     04-07-2021

سیلاب کے بعد کا سماں ہے

خطے میں اضطراب ہے۔ ایسا اضطراب جو ڈھکا چھپا بھی نہیں۔ایسا لگ رہا ہے جیسے طوفان سے قبل کا سکون ہے اور تمام فریق اس کو محسوس کر رہے ہیں۔اپنی اپنی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں اور اپنے مفادات کو طوفان سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔سب کی نظریں اسی خطے پر مرکوز ہیں جسے زمانۂ قدیم میں خراسان کہا جاتا تھا اور جس کے بارے میں احادیث نبوی کے ذخیرے میں بہت سی پیش گوئیاں پائی جاتی ہے۔ خراسان یعنی افغانستان اور ملحقہ علاقے۔افغانستان ویسے تو عمومی طو رپر پوری دنیاکا بھی مسئلہ ہے لیکن بنیادی طور پر چار ممالک یعنی افغانستان‘ پاکستان‘ ہندوستان‘امریکہ کا تو باقاعدہ درد ِسر ہے۔ ان میں تین ممالک افغانستان‘پاکستان‘ ہندوستان تو اسی خطے میں واقع ہیں۔
ذرا اپنے ہی ملک کے حالیہ واقعات دیکھیں۔ قومی اسمبلی کی سلامتی کمیٹی کا اِن کیمرہ اجلاس منعقد ہوا ہے جن میں چوٹی کے عمائدین مملکت شریک تھے اور جہاں انہیں افغانستان ‘ مقبوضہ کشمیر ‘ اور داخلی مسائل کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا۔ خبروں کے مطابق فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں نے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں اور دیگر ارکان کو کئی گھنٹو ں تک بریفنگ دی اورسوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔اہم وفاقی وزرا موجود تھے؛ تاہم وزیراعظم اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ انہی معاملات پر مزید اجلاس منعقد ہوں گے۔ انہی دنوں متواتر کئی انٹرویوز میں بھی ‘قومی اسمبلی کی تقریر میں بھی اور دیگر خطابات میں بھی وزیر اعظم نے افغانستان ‘کشمیر ‘امریکہ اور چین کے معاملات پر کھل کر بات کی۔ یہ دوٹوک مؤقف جس میں کوئی ابہام نہیں تھا‘ملک بھر میں بہت سراہا گیا اور جرأت مندانہ قرار دیا گیا۔لیکن اس سے قطع نظر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دنوں مسلسل ایسے بیانات اور قومی اسمبلی کمیٹی برائے سلامتی کے اجلاس کی کیا ضرورت پیش آئی؟ صاف ظاہر ہے کہ بہت سے اہم فیصلوں کا وقت سر پر ہے اور آئندہ کیلئے حکمت عملی بنانی ضروری ہے۔سیاسی اور فوجی قیادت کو یہ نظر آرہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں کسی بھی غلط فیصلے کا اثر سب سے پہلے پاکستان پر پڑے گا۔
افغانستان میں تیزی سے واقعات رونما ہورہے ہیں۔طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے ساتھ ساتھ بہت سی تیز رفتار پیش قدمیاں کی ہیں۔ لیکن کسی بڑے شہر پر قبضے سے گریز کیا ہے تاکہ غیر ملکی فوجوں کی واپسی میں تاخیر کا جواز پیدا نہ ہوسکے۔بگرام کا فوجی ہوائی اڈہ بیس سال بعد کابل حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ امریکی جاسوسی ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی انخلاکے بعد کابل حکومت چند ماہ بھی مشکل سے نکال سکے گی۔ پہلے اندازوں سے بھی کم وقت۔افغانستان کے 421 میں سے 90سے زیادہ اضلاع طالبان کی مکمل گرفت میں جاچکے ہیں جن میں حیران کن طور پر تاجکستان کے سرحدی اضلاع بھی ہیں۔ وسطی افغانستان کے اہم شہر غزنی پر طالبان کی یلغار جاری ہے۔ غزنی قندھار شاہراہ ان کا ہدف ہے اورعلاقے میں شدت کی لڑائی ہورہی ہے۔ افغان حکومت کیلئے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری فوج بد دل بھی ہے اور خائف بھی۔ بے شمار سپاہی ہتھیار پھینک دینے پر طالبان کی طرف سے عام معافی کو غنیمت سمجھ رہے ہیں اور ہتھیار اور فوجی گاڑیاں طالبان کے قبضے میں جارہی ہیں۔اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا دورۂ امریکہ بظاہر بے سودرہا ہے اور انہیں مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں مل سکی۔ بظاہر کابل حکومت اب سالوں کی نہیں مہینوں کی مہمان ہے۔
کیا افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے ؟ افغان مہاجرین کی تازہ کھیپ ہمسایہ ممالک میں دھکیلی جائے گی ؟ یاد رہے کہ اس سال کے شروع سے مہاجرین تاجکستان جانا شروع ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے سرحد پر جو باڑ لگائی ہے ‘وہ مہاجرین کی ایک نئی لہر کے معاملے میں کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔اس کا 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔اس کے باوجود پاکستان کیلئے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو سرحد سے دور رکھنا آسان نہ ہوگا۔بظاہر ایک نئی خانہ جنگی کے خاتمے کی آسان ترین صورت یہ ہوگی کہ کابل حکومت خود کو مقابلے کے قابل نہ پا کر ہتھیار ڈال دے ‘لیکن کیا اشرف غنی جو ہٹ دھرم طبیعت کیلئے مشہور ہیں ‘اور عبد اللہ عبدا للہ جو اپنی طالبان دشمنی کے لیے معروف ہیں ‘ یہ قدم اٹھا سکیں گے ؟یہ امکان ہی نہیں کہ طالبان کابل حکومت کے سامنے سپر انداز ہوجائیں گے۔اتنی طویل جدو جہد کے بعد جب اصل طاقتور حریف یعنی امریکہ اور نیٹو افواج کو انہوں نے انخلا پر مجبور کردیا گیا ہے تو وہ کمزور دشمن کے سامنے اپنے مفادات سے دست کش کیسے ہوجائیں گے ؟ اس لیے وہ خانہ جنگی جو سر پر کھڑی ہے ‘ اس سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ۔
طالبان کیلئے تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان میں پسندیدگی کیوں پائی جاتی ہے ؟طالبان اپنی شدت پسندی اور مختلف فہم دین کے باوجود عوام ‘ اربابِ حکومت اور عسکری حلقوں میں بہتر کیوں سمجھے جاتے رہے ؟اس کے ایک سے زیادہ عوامل ہیں۔ تنہا امریکہ دشمنی کے زاویے سے دیکھیں تو یہ جذبات مسلمانوں تک محدود نہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ امریکی شکست پر دنیا بھر کے لوگوں میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔یاد کیجیے جب ویت نام میں امریکی فوجوں کو ویت کانگ گوریلوں کے ہاتھوںشکست کھا کر نکلنا پڑا تھا۔سامراج دشمنی مذہبی معاملات سے الگ ایک معاملہ ہے۔طالبان کے علاوہ ہر کابل حکومت کی پاکستان دشمنی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہے۔اور یہ قیام پاکستان سے تا حال چلی آتی ہے۔ طالبان کے ذریعے احیائے اسلام کا خواب دیکھنے والے بھی پوری دنیا میں ہیں اور ان کی تعداد بہت بڑی ہے سو یہ تمام عوامل طالبان کو پاکستانیوں کے لیے دوسروں سے بہتر بنا دیتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے
دل سے تری یاد اتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
سیلاب کے بعد پانی اترتا ہے تو دور دور تک ایسا منظرچھوڑ جاتا ہے جس کیلئے تباہی اور بربادی کے لفظ کم پڑتے ہیں۔بنیادوں سے منہدم عمارتیں ‘ گرے پڑے درخت‘جابجا پڑی ٹہنیاں ‘لاشیں ‘مردہ جانور ‘لق و دق بے آب و گیاہ میدان ‘دلدل ‘تالاب‘ جوہڑ اور حشرات الارض۔ اٖفغانستان سے ایک شدید سیلاب عشروں تک گزرتا رہا۔ ایک قسم کا سیلاب ختم ہوا تو دوسری قسم کے ریلے آن پہنچے۔ اب یہ پانی بھی اتر رہا ہے۔عشروں سے برباد شدہ زمین کب سانس لینا شروع کرے گی ؟روئیدگی کب بحال ہو گی؟درخت کب اگیں گے ؟عمارتیں کب سربلند ہوں گی ؟ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کب جگہ بنائے گی ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا؟دنیا ڈر رہی ہے کہ یہ سکوت ایک نئے طوفان ‘نئی خانہ جنگی کا پیش خیمہ نہ ہو۔ایسی خانہ جنگی جسے ختم کروانے کیلئے کوئی ملک تیار ہی نہ ہو۔یہ بڑا خطرہ ہے اور اگرچہ تمام افغان گروہ اس پر بند باندھنے کے ذمہ دار ہیں لیکن طالبان اس وقت افغانستان کا بالاتر گروہ بھی ہیں اور غیر ملکی فورسز کے خلاف مزاحمت کے علمدار بھی ‘ چنانچہ غیر ملکی انخلا کے بعد افغانستان کی سب سے بڑی ذمہ داری بھی انہی پہ عائد ہوتی ہے۔اب تک عسکری معاملات میں وہ اپنی مرضی کی پالیسی لے کر چلتے رہے ہیں اور یہی درست بھی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن افغانستان میں اگر وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں ان صائب الرائے علما اور دانشمند حلقوں سے مشاورت لازمی کرنا ہوگی جو ان سے بہتر دینی اور انتظامی فہم رکھتے ہیں ‘ جنہیں وہ با اعتماد سمجھتے ہیں اور جن کا ان پر اثر رسوخ بھی ہے۔ یہ وقت ہے کہ طالبان صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے افغانستان میں استحکام پید اکرنے کیلئے کردار ادا کریں۔ کیا یہ توقع غلط ہے؟ کیا یہ توقع پوری ہوسکے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved