شام ہو رہی تھی۔ اسے دریا کے پار جانا تھا اور دریا ابھی دور تھا۔
اس نے تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ اتنا تیز جیسے بھاگ رہا ہو۔ ہانپتاہوا دریا کے کنارے پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ آخری کشتی جا چکی ہے مگر ابھی آواز کی رسائی میں ہے۔ اس نے پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ کندھے پر رکھی جانے والی چادر کو اونچا کر کے ہوا میں بار بار لہرایا۔ آخر کار کشتی والوں تک اس کی درخواست پہنچ گئی۔ ملاح نے کشتی کو واپس کنارے کی طرف پھیرا۔کچھ دیر میں کشتی کنارے آلگی۔ وہ سوار ہونے کو تھا کہ رُک گیا۔ اس نے کشتی میں سوار مسافروں اور ملاح سے کہا ''دوستو! معاف کرنا۔ میں اس کشتی میں سوار نہیں ہوں گا‘‘۔کشتی والے بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو اس نے وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔ بس مسلسل معذرت کرتا رہا۔ کشتی والوں نے اسے لعن طعن کی اور واپس سفر پر چل نکلے۔ آدھے راستے میں کشتی ڈوب گئی۔ کچھ مسافر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ کچھ تیرتے ہوئے‘ کچھ کسی تختے سے چمٹے ہوئے واپس کنارے آلگے۔ انہوں نے اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ یا شیخ! آپ ہمارے مر شد ہیں! آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ نے اپنی روحانی طاقت سے معلوم کر لیا تھا کہ کشتی ڈوب جائے گی۔ وہ ہنسا اور کہا '' بھئی ! میں تو ایک غریب میراثی ہوں۔ کہاں روحانی طاقت اور کہاں میں چِٹا اَن پڑھ! رہی کشتی تو اس نے ڈوبنا ہی ڈوبنا تھا۔میں نے دیکھ لیا تھا کہ کشتی کے مسافروں میں بھینگامسخرہ بھی بیٹھا تھا۔ ایک مداری بھی اپنی بکری اور بندر سمیت سوار تھا اور کشتی کے درمیان میں ایک اونٹ بھی کھڑا تھا۔ میں نے دو اور دو جمع کیے۔ مجھے معلوم تھا کہ بھینگا مسخرا بندر کو ضرور چھیڑے گا۔ بندر تنگ آکر شرارت پر اتر آئے گا اور اونٹ پر سوار ہو کر اچھل کود کرے گا۔ اونٹ احتجاجاً جوابی اچھل کود کرے گا۔ کشتی کا توازن بگڑے گا اور کشتی ڈوب جائے گی۔
جو بزرجمہر دور بینیں آنکھوں سے لگائے‘ امریکی‘ پاکستانی اور افغان رہنماؤں کے بیانات کی کھال اتار کر‘ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں فرما رہے ہیں‘ افسوس کہ انہیں مسخرہ دکھائی دے رہا ہے نہ بندر اور نہ ہی اونٹ! اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں تاجکوں‘ ازبکوں‘ ہزارہ‘ ترکمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کی آبادی‘ یا ان کی خواہش کے مطابق اقتدار میں حصہ ملے گا۔افغانستان کے جنوب کی شمال کے ساتھ اور مشرق کی مغرب کے ساتھ اور اقلیتوں کی اکثریت کے ساتھ اور کٹر مسلمانوں کی آزاد منش کے ساتھ چپقلش لازماً ہو گی جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لے گی۔ اس خانہ جنگی کے سارے لوازمات حاضر ہیں۔ اور اونٹ تو کشتی میں موجود ہی ہے۔
افغانستان کو‘ کم و بیش‘ موجودہ شکل اور موجودہ نام1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے دیا۔ یہ بنیادی طور پر پختون ریاست تھی۔ ابدالی کی فوج میں ازبک‘ ہزارہ‘ تاجک اور دیگر قومیتیں شامل تھیں مگر تاج ہمیشہ اسی کے سر پر رہا جو پختون تھا۔ تقریباًاڑھائی سو سال تک پختونوں نے بلا شرکتِ غیرے افغانستان پر حکومت کی۔1979 ء میں افغانستان کو پہلا غیر پختون حکمران ببرک کارمل ملا جو تاجک تھا۔ اس کے بعدصدر برہان الدین ربانی بھی تاجک تھے۔ سوویت حملے نے ازبکوں اور تاجکوں کو گمنامی سے نکال کر تاریخ کے پیش منظر پر لا کھڑا کیا کیونکہ شمال میں انہوں نے ہی روسی جارحیت کا مقابلہ کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود تاجک تھا۔ رشید دوستم‘ جو ہر طاقتور دھڑے کا ساتھ دیتا رہا ہے‘ ازبک ہے۔ اب ان غیر پختون قومیتوں کو دوبارہ پچھلی صفوں میں نہیں دھکیلا جا سکے گا۔ افغانستان میں پختون آبادی 47فیصد ہے۔ تاجک 23فیصد‘ ہزارہ 9 فیصد اور ازبک بھی 9 فیصد ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکیوں کے جانے کے بعد ان غیر پختونوں کو اقتدار میں حصہ ملے گا؟ مختلف قومیتوں کا مسئلہ کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر‘ جس طرح مغربی جمہوریتوں نے حل کیا ہے اس کا افغانستان جیسے ملک میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان تو افغانستان ہے‘ ہم پاکستانی جو اپنے آپ کو افغانوں سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں‘ ہماری کارکردگی کون سی قابلِ رشک ہے ؟ بنگالیوں کو ہم نے آزردہ خاطر کر کے ہمیشہ کیلئے کھو دیا۔ہم انہیں ان کی آبادی کے لحاظ سے جمہوری نمائندگی دے سکے نہ اقتصادی اور عسکری وسائل! رہا باقی ماندہ پاکستان تو اس کے اندر بھی مختلف صوبوں اور مختلف لسانی اور نسلی اکائیوں کا عدم اطمینان کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کینیڈا میں فرانسیسی آبادی23 فیصد ہے۔قومی زبانیں دو ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں تین قومی زبانیں ہیں۔ جرمن‘ فرانسیسی اور اطالوی۔ کیا افغانستان کی پختون اکثریت دوسرے گروہوں کے ساتھ انصاف کر سکے گی ؟
افغانستان کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مقامی کلچر اور ثقافت کے مظاہر کو اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ سرحدوں سے نکل کر افغانستان سے باہر بھی جڑیں پکڑ چکا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ صوفی محمد نے سوات میں‘ ایک جلسے کے دوران‘ لاکھوں شرکا سے حلف لیا کہ وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کی دستار باندھا کریں گے۔ غالباً یہ مسلم تاریخ کا پہلا حلف تھا جو کسی مخصوص رنگ کی پگڑی کے لیے لیا گیا۔ یہی حال شٹل کاک برقع اور بہت سے دوسرے مظاہر کا ہے جو مقامی کلچر کی پیداوار ہیں مگر مذہبی تقدس کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
افغانستان کی سینکڑوں سالہ تاریخ جنگ و جدل سے عبارت ہے۔ قتل و غارت‘ سازشیں‘ بغاوتیں اور قبائلی مخاصمتیں خون میں رچی ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ ایک حکمران نے اپنے درجنوں رشتہ دار ضیافت پر مدعو کیے اور انہیں بارود کے ڈھیر کی نذر کر دیا۔ آپ نے سوویت حملے سے پیشتر بھی کبھی نہیں سنا ہو گا کہ فلاں قمیص‘ فلاں سائیکل‘ فلاں کھلونا یا فلاں شے افغانستان کی بنی ہوئی ہے۔ سوائے قالینوں کے۔ پہلے جب تیر و شمشیر کا زمانہ تھا‘ تب یہاں سے ضروریات زندگی مالِ غنیمت کی شکل میں لے جائی جاتی تھیں۔ پنجاب میں تو گاؤں گاؤں محاورہ تھا کہ جو کھالیا جو پہن لیا وہ اپنا ہے باقی سب احمد شاہ ابدالی کا ہے۔ آج جب لشکروں اور مالِ غنیمت کا عہد نہیں ہے تو سمگلنگ کے ذریعے ہر شے جاتی ہے۔ سیمنٹ اور سریا سے لے کر گھی ،چینی ،گندم اور ادویات تک۔ آئندہ بھی منظر نامہ یہی رہے گا۔ اپنے بچوں کو دیارِ مغرب میں پڑھانے والے‘ چمکتے کاروبار کرانے والے اور خود عیش و آرام کی زندگی گزارنے والے آئندہ بھی افغانوں کو بہادر اور غیرت مند کہہ کہہ کر ان کے معصوم بچوں کے ہاتھوں میں کتاب اور لیپ ٹاپ کے بجائے بندوق دیتے رہیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ افغانستان آگ اور خون کی ایک اور ہولی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ابھی ایک طویل عرصے تک افغانستان شاہراہوں‘ پلازوں‘ کارخانوں‘ یونیورسٹیوں‘ ہسپتالوں‘ جدید بازاروں‘ آرام دہ رہائشگاہوں اور مستحکم حکومتوں سے محروم رہے گا۔ کاش ایسا نہ ہو! کاش یہ سب کچھ غلط ہو۔ کاش ایک عام افغان کو اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی آسانی سے ملنا شروع ہو جائیں۔ مگر بندوق کی مدد سے روزی کمانے کی عادت کا چھوٹ جانا آسان نہیں۔ استاد قمر جلالوی یہی تو کہہ گئے ہیں ؎
کل بہار آئے گی یہ سن کر قفس بدلو نہ تم
رات بھر میں بے پَروں کے پر نکل آئیں گے کیا؟