امریکا کو اڈے نہ دینے پر قوم وزیراعظم کیساتھ ہے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''امریکا کو اڈے نہ دینے کے فیصلے پر قوم وزیراعظم کے ساتھ ہے‘‘ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ قوم دیگر معاملات میں بھی وزیراعظم کا ساتھ دے جس کے لیے تجاویز طلب کر لی گئی ہیں کہ وزیراعظم کو اور کون کون سے اقدامات کرنا چاہئیں جس سے قوم وزیراعظم کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو سکے؛ چنانچہ ابتدا کے طور پر میں کوشش کر رہا ہوں کہ قوم فی الحال میرا ساتھ دے تا کہ رفتہ رفتہ وہ وزیراعظم کے بارے میں بھی سوچ سکے اور امریکا کو اڈے نہ دینے کے حوالے سے سب سے زیادہ بیانات بھی خاکسار ہی نے دیے ہیں جس پر قوم کی طرف سے مجھے مثبت اشارے بھی ملے ہیں اور مزید کی توقع ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
ہم اقتدار میں آ کر ہر ظلم کا حساب لیں گے: فیصل کریم کنڈی
پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''ہم اقتدار میں آ کر ہر ظلم کا حساب لیں گے‘‘ کیونکہ اگر ہم سے ہر حساب مانگا جا رہا ہے جو فی الحال دینے سے ہم قاصر ہیں، تو ہم دوسروں سے حساب کیوں نہیں لے سکتے، حالانکہ ہم نے عوام پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ ملکی مسائل کے ساتھ جس بے تکلفی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اس کے بدلے ہم نے عوام کو دیگر کئی طریقوں سے بہت کچھ دیا بھی ہے مثلاً فالودہ، پاپڑ اور ایسی متعدد چیزیں بیچنے والوں کو ہم نے اس قدر مالدار بنا دیا کہ ان کے اکائونٹس اربوں روپوں سے بھر دیے۔ عوام کے لیے ہم اور کیا کر سکتے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
اپوزیشن صرف پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن صرف پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے‘‘ اگرچہ ہم بھی یہ کچھ کر رہے ہیں لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں جن میں یہ دعویٰ سرفہرست ہے کہ ملکی معیشت ترقی کر رہی ہے اور عوام کے وارے نیارے ہو رہے ہیں جس کا سلسلہ بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں سے شروع ہو چکا ہے اور یہ بھی کہ پوری قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہے؛ اگرچہ آرام کرنے کی خاطر وقفے وقفے سے وہ بیٹھ بلکہ لیٹ بھی جاتی ہے لیکن پھر کھڑی ہو جاتی ہے اور یہ اٹھک بیٹھک جاری رہتی ہے جو قوم کی صحت کے لیے ویسے بھی بہت ضروری ہے۔آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
بہتر مستقبل کے لیے قوم کو یکجا ہونا ہوگا: رانا ثنا
سابق وزیر قانون پنجاب اور ن لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''بہتر مستقبل کے لیے قوم کو یکجا ہونا ہوگا‘‘ ورنہ اس کا بھی وہی حال ہو گا جو ہماری پارٹی اور پی ڈی ایم کا ہو چکا ہے کہ کسی کا منہ کسی طرف ہے تو کسی کا کسی اور طرف‘ جس کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ قوم کو اس سے سبق حاصل کرنے کا ایک سنہری موقع ضرور حاصل ہوا ہے جبکہ اسی خطرے کے پیش نظر میاں نواز شریف نے مریم نواز صاحبہ کو میاں شہباز شریف کے ہمراہ آزاد کشمیر جانے سے روک دیا ہے کہ پارٹی میں جو ایک کسر باقی رہ گئی ہے، کہیں وہ بھی پوری نہ ہو جائے۔ آپ اگلے روز لاہور ہائی کورٹ بار کے لائرز فورم کے تنظیمی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو زرداری چلا رہے ہیں: مصطفی کمال
پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف کی حکومت کو زرداری صاحب چلا رہے ہیں‘‘ اور اس مصروفیت کی وجہ سے سندھ اور کراچی کا یہ حال ہو رہا ہے کیونکہ اتنے بڑے ملک کو چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے جبکہ وہ اکثر بیمار بھی رہتے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور سید مراد علی شاہ امریکا جا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم کبھی گلگت میں ہوتے ہیں اور کبھی نتھیا گلی میں، اور وہ قومی سلامتی کی میٹنگ میں بھی شریک نہیں ہوئے؛ چنانچہ صوبہ سندھ اگر خالی ہے تو میرے ہی سپرد کر دیا جائے کیونکہ میں بھی کافی عرصے سے فارغ چلا آ رہا ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
بلاول نوکری کی عرضی لے کر امریکا جا رہے ہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''بلاول بھٹو نوکری کی عرضی لے کر امریکا جا رہے ہیں‘‘ حالانکہ اگر یہ نوکری یہیں سے دستیاب ہو سکتی ہے تو اتنی دور جانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ انہیں بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نوکری کہاں سے ملتی ہے اور عرضی کسے دینی چاہیے کیونکہ غلط جگہ پر عرضی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اوراس سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے اور اسے اِدھر اُدھر ضائع کرتے پھرتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے جبکہ ہم قومی سطح پر پہلے ہی کافی وقت ضائع کر چکے ہیں اور اب مزید کی کسی طور گنجائش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں محمد اظہار الحق کی یہ غزل:
اس سے کیا فرق پڑا جسم نے رکھا کیسا
ساتھ دینا ہی نہیں تھا تو یہ جھگڑا کیسا
یہ جو منظر نظر آتے ہیں زمیں کے تو نہیں
یہ مری خاک سرا میں ہے دریچہ کیسا
دل تو بیٹے کی جدائی میں بھی صحرا ہے مگر
ہجر پوتے کا نہ پوچھو ہے بگولہ کیسا
اب وہ شطرنج نہ حقے نہ چھلکتی گلیاں
دیکھتے دیکھتے اجڑا ہے محلہ کیسا
تم کسی گائوں کے ہوتے تو تمہیں آتا یاد
تمہیں کیا علم کہ پھٹتا ہے کلیجہ کیسا
مار ڈالے ہے سفیدی بھی خمِ کاکل کی
آخرش رنگ ترے عشق نے باندھا کیسا
آ تو جاتے ہیں نکلتا نہیں باہر کوئی
تیری پرکار نے یہ دائرہ کھینچا کیسا
دور تک اڑ کے گئے ہیں مرے ٹکڑے کیسے
تاک کر میں نے لگایا ہے نشانہ کیسا
لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں
پھر پلٹتے نہیں بولو یہ تماشا کیسا
کشتیاں اور وہ گھاٹ اور وہ پیڑ اِملی کے
کون جانے کہ مرا شہر تھا ڈھاکہ کیسا
آج کا مقطع
اصرار تھا انہیں کہ بھلا دیجیے، ظفرؔ
ہم نے بھلا دیا تو وہ اس پر بھی خوش نہیں