تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-07-2021

… کہ عزیزِ جہاں شوی

زمانہ کوئی سا بھی ہو اور ماحول چاہے جیسا بھی ہو، ہر انسان پر اپنے آپ کو ثابت کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ قدرت نے دنیا کا نظام اس طور تشکیل دیا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے زندگی کا سفر اُسی وقت آسان ہو پاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو دوسروں کے لیے بارآور ثابت کرے۔ دنیا اُنہی کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے جو اِس دنیا کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان ہنرمند ہو اور کچھ کر گزرنے کا عزم بھی رکھتا ہو۔ ہر انسان کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے ہنرمند ہونا لازم ٹھہرا ہے۔ یہ حقیقت بالعموم ہمارے نزدیک زیادہ قابلِ توجہ نہیں ٹھہرتی کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے کسی نہ کسی ہنر میں کامل ہونا ناگزیر ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ دنیا کا سارا کاروبار اِسی بات سے چل رہا ہے کہ کوئی کچھ کرے، دوسروں کو کچھ دے اور اُن سے کچھ لے۔ کسی شعبے میں مہارت پیدا کیے بغیر زندگی بسر کرنے والے بالعموم خود کو ادھورا سا محسوس کرتے ہیں۔ باطن کا کھوکھلا پن اُن کی باتوں سے ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ غیر ہنرمند افراد پر خوش حالی کے دروازے بھی آسانی سے نہیں کھلتے۔
ہر معاشرے میں حقیقی احترام اُن کے لیے مختص ہوتا ہے جو بامقصد زندگی بسر کرنے کی تیاری میں رہتے ہوں یعنی دنیا کو کچھ دینے پر یقین رکھتے ہوں۔ زندگی کے میلے کی ساری رونق ہنر اور مہارت کے دم سے ہے۔ جس میں جتنی مہارت ہوتی ہے وہ اُتنی ہی بارآور زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ بہت کچھ دیکھ کر بھی نہ کچھ سوچتا ہے نہ کچھ سیکھتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنے ماحول میں بہت سوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے دن رات تگ و دَو میں مصروف پاتے ہیں مگر پھر بھی کچھ سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں نہ منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ جس میں جتنی لیاقت ہوتی ہے وہ اُتنا ہی کامیاب ٹھہرتا ہے۔ کسی خاص شعبے کے حوالے سے فطری رجحان کا پایا جانا کامیابی کی ضمانت ہے نہ دلیل۔ صلاحیت تو ہر انسان میں پائی جاتی ہے اور کسی نہ کسی طرف طبیعت کا جھکاؤ بھی کسی مرحلے میں حیرت انگیز امر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی اپنے میلانِ طبع کے مطابق جینے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں‘ مثلاً کرکٹ یا کسی اور کھیل میں دلچسپی تو لاکھوں بلکہ کروڑوں نوجوانوں کی ہوتی ہے مگر کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جو اپنی پسند کے کھیل میں پیش رفت یقینی بنانے کی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔ کسی بھی کھیل میں عالمی معیار کو چھونے کے لیے غیر معمولی مہارت کے ساتھ ساتھ بے داغ صحت بھی درکار ہوتی ہے یعنی انسان کو جسمانی طور پر ایسا فٹ ہونا چاہیے کہ لوگ دیکھیں تو رشک کریں۔ یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہو جاتا۔ کسی بھی کھیل میں نام کمانے کے لیے فطری رجحان کے مطابق لیاقت و مہارت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ فٹنس کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنا اور جھیلنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ فقید المثال قسم کے نظم و ضبط کا طالب ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ کسی بھی شعبے میں حقیقی احترام اُن کے حصے میں آتا ہے جو کئی معاملات میں مہارت کے حامل ہوں‘ مثلاً کرکٹ کی دنیا میں اُن کی مقبولیت کا گراف بلند ہوتا رہتا ہے جو بیٹنگ، بالنگ اور فیلڈنگ‘ تینوں شعبوں میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہوں اور اپنی مہارت سے مخالف ٹیم کے لیے دردِ سر ثابت ہوتے ہوں۔ وسیم راجا، عمران خان، وسیم اکرم، عبدالرزاق، اظہر محمود اور شاہد آفریدی جیسے کرکٹرز لوگوں کو اس لیے زیادہ پسند رہے ہیں کہ وہ ایک سے زائد شعبوں میں اپنی لیاقت کا لوہا منوانے میں کامیاب رہے۔ سلیکٹرز کی نظر میں آل راؤنڈرز اس لیے زیادہ قابلِ قبول ٹھہرتے ہیں کہ وہ بولنگ نہ کر پائیں تو بیٹنگ میں چل جاتے ہیں اور اگر بیٹنگ میں ناکام رہیں تو بولنگ میں کچھ نہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ بعض کرکٹرز کو محض اس لیے بھی ترجیح دی جاتی رہی ہے کہ وہ اچھے فیلڈرز ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے موورز بھی ہوتے ہیں یعنی میدان میں سب کو متحرک رکھنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ شوبز کی دنیا میں بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو ایک سے زیادہ شعبوں میں اپنے آپ کو منوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بہت سے اداکار فطری طور پر ڈائریکشن کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، موسیقی کے اسرار و رموز بھی جانتے ہیں اور پروڈکشن کے شعبے کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ایسے اداکار مختلف حوالوں سے ہنرمند ہونے کی بنیاد پر زیادہ قابلِ قبول ٹھہرتے ہیں۔ بالی ووڈ میں راج کپور اِس کی روشن مثال ہیں۔ وہ اچھے اداکار ہی نہیں، اچھے فلم میکر بھی تھے۔ وہ فلم میکنگ کے ہنر سے خوب واقف تھے اور ان کی بنائی ہوئی بیشتر فلموں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ منوج کمار بھی اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے فلم میکر تھے۔ پاکستان میں رنگیلا محض اداکار نہ تھے بلکہ فلم میکنگ کا ہنر بھی جانتے تھے۔ وہ اچھے گلوکار بھی تھے۔ ان کی بنائی ہوئی فلموں نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی۔
کامیابی اُن کے لیے ہے جو زیادہ سے زیادہ مہارت کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کھیلوں اور شوبز وغیرہ سے ہٹ کر دیکھیں تو ٹیلرنگ کے شعبے میں وہ لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو محض کٹنگ نہ جانتے ہوں بلکہ سلائی کے ہنر میں بھی مہارت رکھتے ہوں اور کپڑے کی خصوصیات بھی جانتے ہوں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ عمومی سے انداز کی کٹنگ اور سلائی تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کامیاب وہ ہوتے ہیں جو جدید ترین رجحانات پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے فن کے ذریعے لوگوں کو کچھ نیا دینا چاہتے ہیں۔ جدید ترین طرز کے ملبوسات تیار کرنے کی مہارت ایسے کاری گروں کو بھیڑ سے الگ کردیتی ہے۔ اُن کی انفرادیت ہی اُن کی حقیقی کامیابی ہے۔ جہاں دیدہ نسل پر لازم ہے کہ نئی نسل کو بتائے کہ کامیابی اگر مل سکتی ہے تو کسی مہارت سے۔ یہ مہارت ہی دنیا کی ضرورت ہے۔ جو اپنے آپ کو دنیا کے لیے جتنا بارآور ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اُتنی مقبولیت پاتا ہے۔ نئی نسل میں مستقبل کے حوالے سے ایک طرف تو غیر یقینیت ہوتی ہے یعنی اضطراب پایا جاتا ہے کہ کل کیا ہوگا، کچھ مل سکے یا نہیں، کچھ ہوسکے گا یا نہیں‘ اور دوسری طرف نئی نسل میں مستقبل کے حوالے سے جوش اور عزم بھی پایا جاتا ہے۔ یہ خاصی الجھانے والی کیفیت ہوتی ہے۔ اس موڑ پر نئی نسل کو غیر معمولی توجہ درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ نئی نسل کی رہنمائی کا اہتمام کیا جائے اور اُسے بتایا جائے کہ باقی سب تو ٹھیک ہے مگر کسی نہ کسی شعبے میں مہارت یقینی بنانے پر غیر معمولی توجہ دینا لازم ہے۔ کسی ایک شعبے میں مثالی نوعیت کی مہارت یقینی بنانے کے بعد کسی دوسرے شعبے پر بھی متوجہ ہوا جاسکتا ہے۔ اِس کے بعد تیسرے شعبے کی باری آسکتی ہے مگر یہ سب کچھ مرحلہ وار ہی ہوسکتا ہے۔ برسوں پہلے ایک ایرانی ہوٹل کے کیش کاؤنٹر پر لگی ہوئی تختی پر یہ مصرع پڑھا تھا ع
کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
سیدھی سی بات ہے، دنیا اُنہی سے پیار کرتی ہے جن میں کوئی کمال ہوتا ہے، کسی ہنر کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے۔ ہر کاروباری ادارے میں ایک منیجر ہوتا ہے۔ منیجر کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ سب سے اچھی طرح کام لے اور کسی بھی چیز کی ضرورت کو بروقت محسوس کرتے ہوئے اُس کی فراہمی یقینی بنائے۔ غور کیجیے تو ہر انسان کے لیے منیجر شپ کے ہنر میں مہارت لازم ہے۔ اس دنیا میں بہت کچھ ہے جو سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھنا ہی چاہیے۔ کچھ نہ کرنے کی حالت میں وجود کو زنگ لگ جاتا ہے۔ معقول طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا اور کرتا رہے۔ زیادہ ہنر سیکھنے پر انسان زیادہ قابلِ قبول ٹھہرتا ہے اور یوں سب کی نظر میں پیارا ہوتا ہے۔ یہ نکتہ خصوصی طور پر نئی نسل کو بتایا جائے کہ محض کام کرنے کا نہ سوچے بلکہ ہنرمند ہونے پر توجہ دے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved