تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-07-2013

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور شاعری

دہشت گردی ختم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے …میاں نواز شریف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم دہشت گردی ختم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘ اور چونکہ دہشت گردی کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس میں کافی عرصہ بھی لگ سکتا ہے‘ چنانچہ پوری مستقل مزاجی کے ساتھ کھڑے رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ’’ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا‘‘ اسی طرح جیسے پہلے اعلان کیا تھا کہ اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردوں سے مذاکرات کو کمزوری نہ سمجھا جائے ‘‘ جبکہ اول تو یہ خواہش ہی رہے گی کیونکہ مذاکرات ہوتے نظر ہی نہیں آرہے اور اوپر سے ان بدبختوں نے لاہور کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس کی ان سے ہرگز توقع نہیں تھی، خاص طورپر شہباز صاحب کو تو بالکل ہی نہیں تھی، ہیں جی؟ آپ اگلے روز آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں طویل بریفنگ کے بعد گفتگو کررہے تھے ۔ نواز حکومت ڈرون معاہدہ منسوخ کرے …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’نواز حکومت ڈرون معاہدہ منسوخ کرے ‘‘ جس طرح اس خاکسار کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کو اب تک بالائے طاق رکھا ہوا ہے اور اس کا انجام بھی تقریباً ویسا ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ ڈرون معاہدہ کی منسوخی ہے ، کیونکہ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تووعدہ خلافی کوئی معمولی جرم نہیں ہے بلکہ گناہ عظیم کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مقدس اور متبرک حکومت کو ایسی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچا کررکھنا چاہیے جبکہ وعدہ ایفا کرنے کا وقت اور گنجائش اب بھی پوری کی پوری موجود ہے جس سے حکومت اپنی عاقبت اچھی طرح سے سنوار سکتی ہے، بصورت دیگر ہماری ترجیحات تبدیل بھی ہوسکتی ہیں، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ واشگاف ہونے کی تحقیقات ہونی چاہیے‘‘ جس کے لیے بہتر ہے کہ ایک اور کمیشن بنادیا جائے جو اتنی ہی مدت میں اپنی کارروائی مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے اور بے شک اسے بھی خفیہ رکھا جائے جس طرح ہماری بعض خواہشات کو خفیہ رکھا جارہا ہے جس کے لیے ہم حکومت کے بیحد ممنون ومشکور ہیں۔ آپ اگلے روز اپنے ترجمان کے ذریعے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ احتیاط کی ضرورت ! اٹارنی جنرل کے اس بیان کے بعد کہ وزارت قانون نے پچھلی حکومت کے مقدمات پر موقف دینے سے روک دیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس تھے کہ حکومت سابق دور کے کرپشن کیس دبارہی ہے اور کیا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ عدالت سے تعاون نہیں کرنا؟نیز یہ کہ حکومت نے معاملات دبانے کا نیا طریقہ اپنا لیا ہے، کیا وہ اس وقت ایکشن کرے گی جب سب لوگ باہر چلے جائیں گے ؟ جن کو واپس لانے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنا پڑے گی ۔ یہ ریمارکس بالکل واضح ہیں اور حکومت کے کان کھولنے کے لیے کافی ہیں جس کا اسے نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس سے اس شبے کو تقویت پہنچتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس پر سمجھوتہ کیے بیٹھی ہیں کہ ایک دوسرے کے کرپشن کے معاملات کو نہیں چھیڑنا۔ اس تاثر کے مضبوط ہونے میں حکومت کا سراسر نقصان ہے اور جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے اور جس سے عوام کے اندر نہ صرف بددلی پھیلے گی بلکہ انتخابات سے پہلے میاں شہباز شریف جس زوروشور سے سابقہ حکومت کے کرپشن کے حوالے سے لتے لیا کرتے تھے وہ بھی ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔ اور اب آخر میں رفعت ناہید کی یہ تازہ غزل : اُس گلی میں آخرتک سب مکان ایک سے تھے ایک سے تھے دروازے، سائبان ایک سے تھے سب گھروں کے آنگن میں شعلگی کا عالم تھا گرمیوں کا موسم تھا، آسمان ایک سے تھے درکھلا تو اندر سب ایک سی سجاوٹ تھی چلمنیں تھیں، جھلمل تھی، میزبان ایک سے تھے پینٹنگز تھیں آویزاں، لڑکیاں بناتی تھیں کشتیاں تھیں، بادل تھے، بادبان ایک سے تھے شام کی فصیلوں پر چوڑیاں کھنکتی تھیں راز ایک جیسے تھے، رازدان ایک سے تھے گھر کے سب مکیں لڑکے دوربین رکھتے تھے فاصلے جھروکوں کے درمیان ایک سے تھے آج کا مقطع اک نہ اک دن مہرباں ہوگا وہ ہم پر بھی ظفرؔ یہ ہمارا وہم ہے کچھ، یہ ہمارا خواب ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved