تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     07-07-2021

کابل یاترا 1989ء

سوویت یونین اعلان کر چکا تھا کہ مارچ 1989ء تک اُس کی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ کا خیال تھا کہ جونہی ایسا ہوا نجیب اللہ جوکہ افغانستان کے کمیونسٹ حکمران تھے اقتدار میں نہیں ٹھہر پائیں گے اور اُن کی حکومت تحلیل ہو جائے گی۔ ہیرلڈ (Herald) کی بہت ہی قابل ایڈیٹر رضیہ بھٹی ہوا کرتی تھیں۔ میں نے اُن سے کہاکہ یہ وقت ہے کابل کو دیکھنے کا اور اُنہوں نے ہامی بھرلی۔
اُس زمانے میں پاکستان سے کوئی ڈائریکٹ فلائٹ کابل نہیں جایا کرتی تھی۔ اسلام آباد سے کراچی گیا اور وہاں سے دہلی کی فلائٹ لی۔ رات قیام وہاں ہوا اور صبح سویرے دہلی سے کابل کی فلائٹ پکڑی۔ انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں قیام تھا اور وہیں میرے پانچ چھ دن گزرے۔ افغان حکومت نے ساتھ میرے ایک گائیڈ لگا دیا جس کے بارے میں میرا اندازہ درست ثابت ہوا کہ یہ سرکاری افسر ہے۔ تین چار دن جو کابل کی سیر ہو سکتی تھی وہ کی۔ دنیا بھر سے صحافی آئے ہوئے تھے‘ یہی منظر دیکھنے کہ روسی افواج کے جانے کے بعد افغانستان میں کیا ہوتا ہے اور سارے کے سارے وہیں انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں مقیم تھے۔
ہمیں کابل کے گردونواح میں بھی سرکاری طور پہ لے جایا گیا۔ ایک عدد کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں افغان صدر نجیب اللہ نے قبائلی عمائدین سے خطاب کیا۔ کابل کی حد تک کوئی افراتفری دیکھنے میں نہ آئی۔ افغان فوج کا کنٹرول دارالحکومت پہ مکمل تھا۔ لوڈشیڈنگ بھی کوئی نہیں تھی اور سڑکوں پہ ٹریفک چلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اور گو جنہیں اُس زمانے میں مجاہدین کہا جاتا تھا‘ اُن کا زور دیہی علاقوں پہ تھا لیکن کابل اُن کے حملوں سے محفوظ تھا۔ میں نے افغان صدر سے انٹرویو کی درخواست دے رکھی تھی۔ مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔ چار پانچ روز بعد شام کو اطلاع ملی کہ کل صبح صدارتی محل میں انٹرویو ہے۔ میرا گائیڈ‘ جو کہ افغان حکمران پارٹی کا رکن تھا‘ میرے ساتھ ہو لیا۔ افغان صدر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے چند سوالات کئے۔ یہی پوچھنا تھا کہ روسی سپورٹ کے بغیر آپ حکومت چلا سکیں گے؟ نجیب اللہ افغان خفیہ سروس خاد کے سربراہ رہ چکے تھے۔ جسم اُن کا تھوڑا سا بھاری تھا لیکن چہرہ سرخ و سفید اور اعتماد سے بھرا ہوا۔ شخصیت اُن کی متاثر کن تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہماری افواج میں یہ صلاحیت ہے کہ نام نہاد مجاہدین کا مقابلہ کر سکیں۔ انٹرویو کے بعد ہوٹل واپس لوٹا اور دوسرے دن دہلی کی فلائٹ لی۔ پاکستان پہنچ کے ہیرلڈ میں تین چار مضامین لکھے جن کا بنیادی نکتہ یہ تھاکہ نجیب اللہ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور اپنے پیروں پہ کھڑی ہے۔ شہروں پہ اُس کا کنٹرول مکمل ہے اور شہروں سے باہر کنٹرول مجاہدین کا ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ جب تک اِس صورتحال میں کوئی ڈرمائی تبدیلی نہیںہوتی یہ صورتحال برقرار رہے گی۔
نجیب اللہ بطور صدر دو سال مزید رہے۔ پھر اُن کا زوال آیا لیکن اِس کا سبب نام نہاد مجاہدین نہ تھے بلکہ اِن کی اندرونی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی۔ جنرل عبدالرشید دوستم‘ جو اِن کے بڑے حامیوں میں سے تھے‘ نے نجیب اللہ کا ساتھ چھوڑ دیا اور اپنا وزن نام نہاد مجاہدین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اِس سے نجیب اللہ کی حکومت لڑکھڑا گئی۔ اُن کی افواج کے اور عناصر بھی اُن کے خلاف ہو گئے اور نجیب اللہ کو قصرِ صدارت چھوڑ کے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینا پڑی۔ طالبان تحریک جب قندھار سے اُٹھی اور کابل پہ اُس کا قبضہ ہوا تو طالبان نے کابل میں اقوام متحدہ کے دفتر سے نجیب اللہ کو پکڑ لیا۔ پھر ایک چوک میں نجیب اللہ کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ اُن کا عبرت ناک انجام تھا۔
اِن واقعات کو یاد کرنے کی اِس لئے ضرورت ہے کہ افغانستان میں پھر وہی کچھ ہو رہا ہے۔ روسیوں کی جگہ انخلا امریکیوں کا ہورہا ہے اور اب بھی وہی قیاس کیا جا رہا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کابل پہ اپنا کنٹرول کتنی دیر قائم رکھ سکے گی۔ جنوبی افغانستان ابھی سے کابل حکومت کی گرفت سے نکل چکا ہے۔ شمال میں بھی کئی اضلاع ہیں جو طالبان کی طرف جا چکے ہیں۔ 1989ء میں ایسا نہیں تھا۔ نجیب اللہ کا کنٹرول تمام بڑے شہروں پہ برقرار رہا۔ ہرات، قندھار، مزار شریف، قندوز، جلال آباد یہ سب کابل حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ کابل یاترا کے دوران ہم ایک دن کیلئے جلال آباد بھی گئے۔ وہاں کابل حکومت کا مکمل کنٹرول تھا۔ پہاڑوں پہ نام نہاد مجاہدین تھے لیکن شہر کابل حکومت کا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ بہت حد تک امریکی نکل چکے ہیں لیکن اِن کے کچھ فوجی دستے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ اِس کے باوجود یوں لگ رہا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت ڈگمگانے لگی ہے۔ نجیب اللہ تو دو سال تک حالات کا مقابلہ کرتے رہے لیکن بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ اشرف غنی کی حکومت ایسا نہیں کر سکے گی۔ ابھی سے مغربی میڈیا میں ایسے تبصرے کئے جا رہے ہیںکہ امریکی شرمناک طریقے سے افغانستان کو اپنے حال پہ چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ ایسی رپورٹیں تو ہم پڑھ چکے ہیں کہ افغان فوجیوں نے لڑنے کے بجائے تاجکستان میں پناہ لے لی ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ کچھ اُن کے فوجی پاکستان کی طرف بھی بھاگے ہیں۔ 1989ء میں روسی چلے تو گئے تھے لیکن نجیب اللہ حکومت کو وہ امداد دیتے رہے۔ جب تک حالات پہ نجیب اللہ کا کنٹرول رہا افغان جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر نام نہاد مجاہدین کے خلاف اڑتے رہے۔ اب بھی کابل حکومت کے پاس کچھ نہ کچھ ایئرفورس تو ہے لیکن کہیں ایکٹو نظر نہیں آتی۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ کہ روسی انخلا کے دوسال بعد تک نجیب اللہ کے زیر کمان فوج کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔ اب کی بار تاثر یہی ملتا ہے کہ افغان فوج حوصلے کھو رہی ہے۔
1990-91ء میں فیصلہ کن بات یہ ہوئی تھی کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ سوویت فیڈریشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور افغانستان سے ملحقہ ریاستوں نے آزادی کا پرچم بلند کردیا تھا۔ وسطی ایشیاء کی ساری ریاستیں ماسکو کے کنٹرول سے آزاد ہو گئیں۔کمیونسٹ پارٹی کا اثر ماسکو میں ختم ہو گیا۔ اُن کی حکومت نہ رہی۔ یورپ میں روس کے زیرِ تسلط ممالک روسی کنٹرول سے آزاد ہو گئے۔ ایسے میں نجیب اللہ حکومت کو سہارا دینے والا کوئی نہ رہا۔ ظاہر ہے نجیب اللہ حکومت کو علاقائی سپورٹ بھی نہ تھی۔ پاکستان تو نجیب اللہ کے بالکل خلاف تھا اور ایران سے بھی دوستانہ تعلقات نہ تھے۔ ایسے میں نجیب اللہ کی حکومت کیسے قائم رہ سکتی تھی؟
ایسی صورت حال اشرف غنی کو درپیش نہیں ہے۔ امریکہ اب بھی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے۔ اُس کا تمام رُعب و دبدبہ قائم ہے لیکن امریکی حوصلے ہار بیٹھے ہیں۔ وہ افغانستان سے اُکتا گئے ہیں۔ جیسے وہ ویت نام سے بھاگے ایسے ہی افغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک اور فرق بھی ہے۔ جس قسم کا پیسہ امریکیوں نے افغانستان میں پھینکا ہے ایسا روس نے نہیں کیا تھا۔ اول تو روس کے پاس امریکہ والا پیسہ نہیں تھا اور دوم روس کا سٹائل بھی یہ نہ تھا۔ امریکی امداد نے افغانستان میں کرپشن کو فروغ دیا ہے۔ جس کے ہاتھ جتنا پیسہ آیا اُس نے ہتھیا لیا اور موقع ملتے ہی افغانستان کے باہر منتقل کر دیا۔ نجیب اللہ حکومت کی کمزوریاں بہت تھیں لیکن اُس میں وہ کرپشن نہ تھی جو آج افغانستان میں نظر آتی ہے۔ اِسی لئے نامساعد حالات کے باوجود نجیب اللہ دو سال تک کھڑا رہا۔ کیا افغانستان کے آج کے واجبی حکمران ایسا کر سکیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved