تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     07-07-2021

اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مخصوص نشستوں کا معاملہ

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حقِ نمائندگی کا نیا فارمولہ پیش کرتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستوں کی تجویز دے کر آئینی‘ قانونی اور سیاسی حلقوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ شہباز شریف کو شاید ادراک نہیں کہ ان کے تجویز کردہ فارمولے کو اگر بروئے کار لایا جائے گا تو بہت سے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں آنے اور قانون سازی میں حصہ لینے کا موقع مل جائے گا جو مختلف ذہن رکھتے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ بنانے کی تحریک لندن میں پاکستانی نژاد خاتون یاسمین خان نے 1994ء میں اپنے قانونی مشیر شیخ محمد اکرم کی وساطت سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے شروع کی تھی اور اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اوورسیز پاکستانیوں کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کر دی تھی۔ یاسمین خان گاہے بگاہے پاکستان آتی رہیں اور شیخ محمد اکرم ان کے کیس کی پیروی کرتے رہے۔ اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین نے اس حوالے سے ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی جس میں وزارتِ خارجہ‘ وزارتِ داخلہ‘ وزارتِ لیبر‘ وزارتِ اقتصادی امور کے نمائندے شامل تھے اور مجھے بھی اس کمیٹی کا ممبر بنایا گیا تھا۔ وزارتِ انصاف و قانون کے سینئر احکام بھی اس کے اہم رکن تھے اور جون 2001ء میں اس کمیٹی کا آخری اجلاس ہوا جس کے مطابق وزارتِ خارجہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ خلیج کے ممالک میں اوورسیز پاکستانیوں کو سیاسی عمل اور انتخابی عمل میں حصہ دار بنانے سے وہاں کے نظامِ حکومت کو زک پہنچنے کا احتمال ہے۔ اسی طرح بعد ازاں مئی 2008ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کے بارے میں جب سرگرمی دکھائی تو 2009ء میں صدر آصف علی زرداری نے الیکشن کمیشن کے تحفظات سننے کے بعد اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اب حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں شریک کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء میں جو مجوزہ ترامیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے تو اس کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا؛ تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دہری شہریت کے حامل اوورسیز پاکستانیوں کو یہ حق رائے دہی اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ ان میں سے بعض نے پاکستان سے لاتعلقی کا حلف اُٹھایا ہوا ہے۔ ان کو چھوڑ کر دیگر پاکستانی شہریت کے حامل پاکستانیوں کے لیے درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے اور پرانے طریقہ کار کے مطابق پوسٹل بیلٹ کے ذریعے بھی اوورسیز پاکستانی‘ جن کا ووٹ ان کے حلقے میں درج ہے‘ اپنا ووٹ پاکستانی سفارت خانے سے تصدیق کرا کے متعلقہ ریٹرننگ افسران کو رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھجوا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کے طریقہ کار کو الیکشن کمیشن راز داری برقرار نہ رہنے کی وجہ سے مسترد کر چکا ہے اور بقول الیکشن کمیشن یہ عمل آئین کے آرٹیکل 218 کے منافی ہے۔ بین السطور میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی ایسی چراگاہ ہیں جسے ہر سیاسی پارٹی چرنے کا شوق رکھتی ہے۔ وزیر اعظم کے آئینی و قانونی ماہرین نے غالباً انہیں باور کرایا ہے کہ آئندہ الیکشن میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ سے کامیابی سے ہم کنار ہو سکیں گی۔ میرے خیال میں دراصل ان ماہرین کو ادراک نہیں کہ زمینی حقائق کے مطابق وزیر اعظم جناب عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا الیکشن ایکٹ 2017ء میں مزید ترامیم لانے کی ضرورت نہیں‘ موجودہ قوانین پر مناسب عمل درآمد سے اچھے نتائج آنے کی توقع ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے امریکی جنگ کا حصہ بنتے ہوئے غلطیاں کیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بیس سال سے زیادہ عرصہ تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی سے اس کے تمام اہداف پورے ہو چکے ہیں۔ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ میں جو آگ اور خون کے دریا بہائے گئے اس سے عالمی سامراجی قوتوں کے معاشی اور سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہوا۔ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کی مہم جوئی پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوئی۔ افغانستان میں خانہ جنگی اور طالبان‘ القاعدہ اور دیگر انتہا پسندوں کی موجودگی سے امریکہ کے لیے افغانستان میں رہنے کا جواز پیدا ہوتا رہا۔ حقیقت یہ ہے امریکہ اس خطے کو مزید تباہی اور خون ریزی میں جھونک کر انخلا کا ڈرامہ کر رہا ہے تاکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں رکاوٹیں پیدا ہوں اور طالبان اور دیگر گروہوں کو اس خون ریزی میں ایک نیا کردار حاصل ہو جائے۔ اس خطے میں‘ ہماری سوچ سے زیادہ بد امنی اور عدم استحکام کے خدشات نظر آ رہے ہیں اور اس بدامنی سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان حالات میں قوم کو اس ذہنی غلامی سے نجات دلا کر قائد اعظم کے اصولوں یقین محکم‘ نظم اور اتحاد کے مطابق ایک خود اعتماد قوم بنا سکیں تو عزت و سرفرازی کی تمام راہیں ہمارے لیے کشادہ ہو جائیں گی اور افغانستان کی خانہ جنگی کی آگ کو پاکستان کی سرحدوں کے اس طرف آنے سے روکنا ہے تو پھر پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر ریاست کے لیے مضبوط بنیادوں پر پالیسی بنائی جائے اوراس حوالے سے قومی سطح پر مفاہمت کے تحت امریکہ کی حکمت عملی کو ناکام بنایا جائے۔ پاکستان کی ماضی کی تمام حکومتیں امریکی سحر میں مبتلا رہیں‘ لیکن اب وزیر اعظم جناب عمران خان نے جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں جن کے نتیجے میں ہم یقینی طور پر نہ صرف داخلی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ افغانستان میں اگر کوئی تشویشناک صورت حال پیدا ہوئی تو اس کے اثرات سے محفوظ رہنا بھی ممکن ہو سکے گا۔ جس خودی اور خود داری کی ماضی میں باتیں کی جاتی تھیں امریکہ اور چین کے حوالے سے ٹھوس پالیسی اور لائحہ عمل وضع کرے اور اس کا اعلان کر کے وزیر اعظم عمران خان نے اس خود داری کا عملی ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ملک اور قوم کے مفادات سے بڑھ کر انہیں کوئی شے عزیز نہیں۔ امریکی مفادات اور خواہشات کو ماضی کی حکومتوں نے مقدم سمجھا‘ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے آگے سرنڈر ہونے سے انکار کر کے صحیح پاکستانیت کے شعور کو اجاگر کر دیا ہے۔
جہاں تک انتخابی قوانین میں ترامیم کا معاملہ ہے تو میری نظر میں حکومت نے آئینی و قانونی ماہرین الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کا بل عجلت میں پیش کیا ہے۔ بہر حال الیکشن کمیشن نے 13 دفعات کی نشاندہی کی ہے جو ان کے مطابق آئین سے متصادم ہیں۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ اٹارنی جنرل‘ وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم اور سینیٹر سید علی ظفر کو الیکشن کمیشن بھجوائیں‘ اور الیکشن کمیشن کے خدشات کا ازالہ کریں۔ یہ خدشات اگردور کر لیے گئے تو یقینی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ نکل آئے۔ مفاہمت اور قومی وقار کو قائم رکھنے کا راستہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved