تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-07-2021

سرخیاں، متن اور اقتدار جاوید

جیالوں کو حکم دوں تو حکمران کہیں کے نہیں رہیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جیالوں کو حکم دوں تو حکمران کہیں کے نہیں رہیں گے‘‘ لیکن ایک تو مجھے انہیں حکم دینا یاد نہیں رہتا اور اگر یاد آتا بھی ہے تو میں دیگر کئی کاموں میں مصروف ہو جاتا ہوں جن میں سرفہرست ایک ہی کام ہے جو ہمیشہ سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور اگر کبھی فراغت میسر ہو بھی تو جیالے کہیں دستیاب نہیں ہوتے اور پتا نہیں کہاں غائب ہو جاتے ہیں جن کی تلاش کے لیے ایک وزارت میں الگ شعبہ قائم کر دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، کونوں کھدروں سے نکال کر ان کی فہرست بنا کر مجھے پیش کی جائے تا کہ میں انہیں حکم دوں اور وہ حکومت کو آن کی آن میں چلتا کر دیں۔ آپ اگلے روز کوٹلی میں جلسے سے خطاب کر ر ہے تھے۔
مافیاز بگڑی شکل کے ساتھ اب بھی موجود ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مافیاز بگڑی شکل کے ساتھ اب بھی موجود ہیں‘‘ اس لیے ہم ان کی اصلاح کر رہے ہیں اور انہیں ان کی اصلی شکل میں لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار انہی پر ہوتا ہے اور ہماری یہ بڑی ہمت ہے جو ہم ان بگڑی ہوئی شکل پر گزارہ کر رہے ہیں کہ ہم ایک مثالی قسم کا مافیا چھوڑ کر جائیں گے تا کہ آنے والی حکومتوں‘ جو ظاہر ہے کہ ہماری ہی ہوں گی‘ کے لیے سہولت حاصل رہے کیونکہ ہماری خواہش ہے کہ کم از کم کچھ تو ہمارا ہمارے جانے کے بعد یادگار رہ جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مویشی منڈیوں کے بارے خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
ہر الیکشن چوری ہوتا ، میں بھی الیکشن چوری کر کے آیا: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''ہر الیکشن چوری ہوتا ہے، میں بھی الیکشن چوری کر کے آیا‘‘ جبکہ چوری شدہ الیکشن دوسری عادتیں بھی ڈال دیتا ہے، اس لیے جو کچھ بعدمیں ہوتا رہا، اس کی وجوہات سمجھ میں آ جانی چاہئیں، اس کیلئے کسی کو قصور وار بھی نہیں گردانا جا سکتا، کیونکہ چوری کے الیکشن کے بعد اگر باقی سب کچھ نہ کیا جائے تو مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو گا، اور اب تو یہ کیفیت اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ اگلا الیکشن اگر چوری نہ بھی ہوا تو چوری چکاری کا سلسلہ اسی زور و شور سے جاری رہے گا، اس لیے قوم کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے؛ اگرچہ چرانے کے لیے اب خزانہ بہت کم رہ گیا ہے، لیکن پھر بھی پوری پوری گنجائش موجود ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
صحافی کے سوال پوچھنے پر پابندی نہیں لگا سکتے : فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''صحافی کے سوال پوچھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘‘ اور اسی طرح سیاسی رہنما کے جواب نہ دینے پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ یہ اس کی مرضی ہے جواب دے، نہ دے، کہ آخر ''نو کمنٹس‘‘ کی اصطلاح کس لیے بنائی گئی ہے کیونکہ کسی بھی ناپسندیدہ سوال کا جواب یہی ہو سکتا ہے، اس لیے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اچھے سوال کریں اور حکومت نے جو اچھے کام کیے ہوں، انہیں بیان کریں بلکہ ان کاموں کا بیان بھی کریں جو حکومت نے ابھی سر انجام بھی نہیں دیے جبکہ حکومت اور صحافیوں کے درمیان ہم آہنگی اسی طرح بڑھتی ہے اور ہم اس ہم آہنگی کے فروغ کے زبردست حامی ہیں۔ آپ اگلے روز سندس فائونڈیشن کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
13ہزار ارب قرضہ لیا، ایک اینٹ نہیں لگائی: احسن اقبال
سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے 13 ہزار ارب قرضہ لیا، ایک اینٹ بھی کہیں نہیں لگائی‘‘ بلکہ اس نے اپوزیشن کے ساتھ اینٹ کھڑکا لگا رکھا ہے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہے جبکہ یہ اینٹوں کا نہایت غلط استعمال ہے اور یہ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ ملکِ عزیز میں کسی چیز کا صحیح استعمال نہیں ہوتا ماسوائے اس مدت کے جو اپنے اقتدار میں ہم نے لگائی اور خدمت کے پہاڑ کھڑے کر دیے جنہیں سر کرنا حکومت کے بس کا روگ ہی نہیں ہے، نہ ہی کوئی احتساب ہمارا کوئی بال بیکا کر سکا ہے اور ہمارے سارے بال اسی طرح سے قائم و دائم ہیں بلکہ حیرت کے مارے اب کھڑے ہو چکے ہیں کہ یہ حکومت کر کیا رہی ہے۔ آپ اگلے روز ظفروال میں ایک مسجد کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
تختۂ سیاہ
تھم گیا ترازؤ قدیم، پلے رُک گئے مقامِ خاص پر
کسی کا سانس رک گیا ہو جس طرح
نُچڑ چکی سیاہ چھائوں پیڑ سے
غروب ہو گیا ہے مجھ میں میرا سایۂ بلند
اڑ چکی حرارتِ عظیم دھوپ سے
ابل چکا سفید آنکھوں سے تمام آب
ابھار بن رہا ہے لہر کا
کنارے گر رہے ہیں اپنے آپ
ہو چکیں نئی نشانیاں ظہور
اتر رہی ہیں دل میں تیز دھڑکنوں
سی آہٹیں دھڑک رہا ہے سارا اندرون
انڈیلتا ہے کون سست رو رگوں میں
سنسناہٹیںخلا جو خالی پن سے متصف تھا
عرصۂ دراز سے
شناخت جو خلا کی تھی اُڑی
خلا میں بھر چکا ہے ثقل
جُڑ گئے ستارے گچھوں کی طرح
چادر سیہ پھٹی، فضا میں پھیلتا چلا گیا ہے چھید
جو حسابِ موت کی طرح اٹل تھا
جس سے بچ کے جی رہا تھا
جس کو عمر بھر میں ٹالتا رہا‘ وہ ہو گیا
حروف جن کو جوڑنے سے ڈر گیا تھا
وہ ایک ایک کر کے جڑ گئے ہیں
لفظ ناطقین سے نقاط پڑ گئے حروف میں
سفید ہو گیا ہے تختۂ سیاہ
ہو گیا ہے ڈھیر اک جگہ پہ ابر
پھول بھر چکا ہے اوس سے
جو نذر تھی‘ ادا ہوئی
میں ایک گٹھڑی مٹھی جیسا ہو گیا ہوں
کس لیا ہے خود کو خود سے باندھ کر
نہ پیش گو نہ پیش گو سے دوستی
ڈھلک رہے ہیں شانے دم بدم
کسی سے بات چیت ہے نہ خود سے
ہم کلام ہونے کی گھڑی
جہاں نہ میں نہ رنجِ اوّلیں
نہ رنجِ اولین کا وقت ہے نہ وہ مقامِ سخت ہے
آج کا مقطع
یادوں کو، ظفرؔ، لگا کے تالا
چابی دریا میں پھینک آئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved