تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-07-2021

کورونا ویکسین پر توہم پرستی کیوں؟

بھارت میں کورونا کی دوسری لہر زوال پذیر ہے لیکن تیسری لہر کا خوف باقی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس بیکٹیریا پھیلنے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ڈیلٹا پلس بیکٹیریا کافی خطرناک ہے۔ اس نے امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں ایک بار پھر افراتفری پیدا کر دی ہے۔ یہ بھارت کے 174 اضلاع میں پایا گیا ہے۔ اس وقت دوسری لہر کا اثر 75 اضلاع میں 10 فیصد اور ملک کے 92 اضلاع میں 5 فیصد تک برقرار ہے۔ اگر لوگ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے ہیں تو اسے سینکڑوں دوسرے اضلاع میں پھیلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اب تک اس نئے بیکٹیریا کے 48 مریض بھارت کے مختلف صوبوں میں ٹریس کیے جا چکے ہیں لیکن اگر یہ امریکا اور برطانیہ جیسے محتاط ممالک میں پھیل سکتا ہے تو بھارت میں اس کے انفیکشن کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ ابتدا میں بہت لاپروا تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زیادہ امریکی ہلاک ہو گئے، لیکن بائیڈن انتظامیہ بہت احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن خود کئی شہروں میں جا کر ویکسی نیشن مہم شروع کروا رہے ہیں۔ ان کی حکومت اب ہر گھر میں پہنچ رہی ہے اور ٹیکے لگا رہی ہے۔ آسٹریلیا نے ایک بار پھر کئی شہروں میں لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ روس میں ویکسین لگانے کی رفتار اتنی سست تھی کہ پیوٹن انتظامیہ نے بہت سارے علاقوں کے باشندوں کیلئے ویکسین لازمی قرار دے دی ہے۔ برطانیہ میں‘ اگرچہ زیادہ تر لوگوں کو یہ ویکسین لگ چکی ہے لیکن وہاں بھی تقریباً سوا لاکھ ڈیلٹا مریض ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں اور دوسرے کچھ ممالک اور امریکا میں بھی توہم پرستی ہے کہ جس کو کورونا ویکسین لگے گی اس کی زندگی دو سال میں ختم ہو جائے گی۔ جب ان ممالک کے بہت سے دوستوں نے مجھے فون پر یہ بتایا تو میں نے انہیں بتایا کہ ایسے لوگ بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ انہیں دو سال مل رہے ہیں کہ یہاں تو ایک لمحے کی بھی خبر نہیں ہے۔ مشہور قول ہے کہ ساماں سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ بھارت میں آج کل ویکسی نیشن کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے اور اس سال کے آخر تک شاید 100 کروڑ افراد کو ویکسین لگ جائے گی۔ بھارتی عوام میں پھیلی ہوئی توہم پرستی کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہئے کہ جن لوگوں نے دونوں ڈوزز ویکسین لگوائی ہیں ان میں سے بہت ہی کم لوگ کورونا کی گرفت میں آئے ہیں، ماسوائے ان کے جو پہلے ہی سنگین بیماریوں میں مبتلا تھے۔ جن لوگوں نے دونوں ڈوزز لی ہیں ان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور بھیڑ سے بچیں۔ ابھی تک یہ ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے بیکٹیریا سے ان لوگوں پر کتنا اثر پڑے گا جن کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ ان بیکٹیریا کے ٹیسٹ کرنے کی فیس بھارت میں فی شخص دس ہزار روپے ہے۔ اگر یہ بیکٹیریا پھیل گیا تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کی کیا حالت ہو گی۔
جموں ہوائی اڈے پر ڈرون حملہ
جموں میں ایک ہوائی اڈے پر خودکار ڈرون حملے سے اگرچہ زیادہ نقصان نہیں پہنچا لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس طرح کا حملہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھارت پر اس طرح کے پائلٹ لیس طیاروں نے کبھی حملہ نہیں کیا تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے اس حملے سے دو فوجی زخمی ہوئے اور کچھ نقصان بھی ہوا، لیکن اس طرح کے حملے بہت خطرناک بھی ہوسکتے ہیں ، کیونکہ اس میں کوئی حملہ آور نہیں ہوتا اور اگر کوئی تباہی ہوتی تو حملہ آوروں کے صرف ڈرون کا نقصان ہوتا۔ جموں کے ہوائی اڈے پر جہاں دھماکا ہوا‘ وہ ملک کے اہم لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں سرحدوں پر متعدد ڈرون حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ ڈرون کچھ ہتھیار اور کچھ نوٹ بیگ وغیرہ گراتے تھے۔ یہ پائلٹ لیس سیلف ڈرائیونگ طیارہ سمگل شدہ سامان کی نقل و حمل کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں 25 فروری سے پاک بھارت سرحد پر فائر بندی کے معاہدے کے بعد فائرنگ کے واقعات کم ہو گئے ہیں لیکن ایسے خود کار طیاروں کے حملے گہری تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ ان کو دہشت گرد حملوں سے کم نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگرچہ بھارت کے پاس ان کو پکڑنے کیلئے خودکار طیارے اور ریڈار موجود ہیں لیکن جموں کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے والے طیارے اتنی اونچائی پر اڑ رہے تھے کہ انہیں تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ اس طرح کے خود کار طیارے آرمینیا اور آذربائیجان میں اور شام جنگ میں استعمال ہوئے تھے۔ آج کل وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سربراہی میں چلنے والی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے اشارے دے رہی ہے چنانچہ ایسے میں اس طرح کے واقعات کا سرحدی علاقوں میں پیش آنا یقینا تشویشناک ہے۔
نرسمہا رائو اورکانگریس کی احسان فراموشی
28 جون کو بھارت کے سابق وزیراعظم پاملپرتی وینکٹا نرسمہا رائو کی 100 ویں سالگرہ تھی۔ چونکہ نرسمہا رائو آندھرا چھوڑ کر دہلی آئے تھے لہٰذا ہر سال 28 جون کو ہم ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ پہلے شاہجہاں روڈ والا فلیٹ اور پھر 9، موتی لال نہرو مار گ والے بنگلے میں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور انسانی وسائل کے وزیر رہ چکے تھے۔ جب وہ 1991ء میں وزیراعظم بنے تو ہمارے تین ہمسایہ ممالک کے وزرائے اعظم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا رائو صاحب اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نبھا پائیں گے؟ اگلے پانچ سالوں کے لیے انہوں نے نہ صرف کامیابی کے ساتھ اپنی اقلیتی حکومت چلائی بلکہ اپنے کام کی وجہ سے وہ ملک کے چار تاریخی وزرائے اعظم (یعنی نہرو، اندرا گاندھی، نرسمہا رائو اور اٹل جی) کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ رائو صاحب کی پیدائش کا یہ سوواں سال ہے۔ بہت سے دوسرے وزرائے اعظم کے صد سالہ سال آتے اور چلے جاتے ہیں۔ ان کی سوویں سالگرہ کے موقع پر‘ حیدرآباد میں ان کے 26 فٹ لمبے مجسمے کا افتتاح کیا گیا لیکن اس کا اہتمام کس نے کیا؟ کوئی کانگریسی نہیں، کوئی قوم پرست بی جے پی نہیں بلکہ تلنگانہ (سابق آندھرا) کے وزیراعلیٰ نے۔ چندر شیکھر رائو نے۔ کیا نرسمہا رائو صرف ایک بھارتی صوبے کے قائد تھے؟ موجودہ کانگریس کس حد تک احسان فراموش نکلی‘ مجھے ان سے زیادہ توقع نہیں تھی کیونکہ جس دن رائو صاحب کی وفات ہوئی (23 دسمبر 2004 کو) وزیراعظم منموہن سنگھ نے خود مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ کانگریس کے دفتر پہنچیں‘ انہیں وہیں لایا جا رہا ہے۔ اس وقت صبح کے دس‘ گیارہ بج رہے ہوں گے۔ رائو صاحب کی ارتھی کو باہر رکھا گیا تھا، سونیا جی اور منموہن سنگھ جی کے علاوہ مشکل سے ہی 8‘ 10 کانگریسی قائدین وہاں کھڑے تھے۔ کسی کے چہرے پر کوئی غم کا تاثر نہیں تھا۔ صرف میں نے ان کے پائوں چھوئے۔ باقی لوگوں نے خاموشی سے ان کو الوداع کر دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ راجگھاٹ کے آس پاس مرگھٹ کیلئے کوئی سائٹ ضرور تیار کی گئی ہو گی لیکن اسی وقت ارتھی کو ایئر پورٹ لے جایا گیا۔ اگلے دن اخبارات میں حیدرآباد میں ان کے آخری رسوم کی خبر نے میرے ذہن کو بہت دکھی کر دیا لیکن 2015ء میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بی جے پی حکومت نے راجگھاٹ کے قریب شانتی استھل پر ان کے لیے ایک یادگار تعمیر کی ہے۔ اگر کانگریسی قائدین چاہتے تو وہ 28 جون کو ان کے 100ویں یوم پیدائش پر کوئی بڑا پروگرام منعقد کر سکتے تھے۔ آج کل جو لوگ کانگریس کے قائد بنے ہوئے ہیں‘ اگر وزیراعظم نرسمہا رائو فیاض نہ ہوتے تو وہ جیل جاتے یا ملک سے فرار ہو جاتے۔ رائو صاحب نے اپنے دو سینئر وزرا کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے میرے سامنے راجیو گاندھی فائونڈیشن کو 100 کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جیسے جیسے دن گزریں گے لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ نرسمہا رائو نے بھارت کی معاشی اور خارجہ پالیسی کو ایک نئی سمت دینے میں کیا لاجواب خدمت انجام دی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved