تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     08-07-2021

مجید امجد سے ایک ملاقات

جب سے پاکستان ریاست مدینہ کی راہ پر چلنا شروع ہوا ہے کالم نگار اپنے طور پر اس امر کی تفتیش کر رہا ہے کہ ریاست اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے یا نہیں۔
ریاست مدینہ میں بھوکوں اور قلاشوں کی ذمہ داری حکمران وقت پر تھی۔ خلفائے راشدین خود روکھی سوکھی کھاتے تھے مگر فکر اس بات کی کرتے تھے کہ عوام کس حال میں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ عید کے دن جَو کی سوکھی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ زمانۂ قحط میں ایک دن حضرت عمرؓ کے پاس گھی والی روٹی آئی۔ آپؓ نے ایک اعرابی کو شریک طعام کیا۔ جس طرف گھی تھا اس طرف سے وہ بڑے بڑے نوالے کھانے لگا۔ آپؓ نے اسے کہا: معلوم ہوتا ہے تم نے گھی کبھی نہیں کھایا۔ اس نے کہا: ہاں میں نے فلاں تاریخ سے لے کر آج تک گھی یا تیل نہیں کھایا اور کسی کو کھاتے دیکھا بھی نہیں۔ آپؓ نے اسی وقت قسم کھائی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی اور گوشت نہیں کھائیں گے۔ اپنی اس قسم کی اتنی پاس داری کی کہ چہرے کا رنگ سیاہ پڑ گیا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو خوف آنے لگا کہ آپ کہیں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ایک دن غلام نے بازار میں گھی اور دودھ بکتا دیکھا تو چالیس درہم میں خرید لیا۔ آ کر آپ کو بتایا کہ اللہ نے آپ کی قسم پوری کر دی‘ دودھ اور گھی بازار میں بِک رہا ہے۔ آپ نے یہ کہہ کر اسے خیرات کر دیا کہ مہنگا خریدا گیا ہے۔
للہ الحمد کہ جہاں تک ریاست مدینہ کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ کل ہی راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے ہوئے ہر سگنل اور ہر چوک پر بھکاریوں نے گاڑی کے شیشے پر دستک دی۔ ایک چوک پر گاڑی سے نیچے اتر کر ان سب کو اکٹھا کیا اور پوچھا کہ اب جب پاکستان اس بے مثل ریاست کی پیروی کر رہا ہے تو تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ انہوں نے حکمرانوں کو دعائیں دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم میں سے جو جسمانی طور پر تندرست ہیں انہیں روزگار دیا گیا ہے اور جو اپاہج ہیں انہیں سرکاری دارالامان میں جگہ دی گئی ہے جہاں طعام اور لباس کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حیران ہو کر پوچھا کہ پھر تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو! انہوں نے بیک آواز جواب دیا کہ بھیک تو ہم صرف اس لیے مانگ رہے ہیں کہ اس ریاست کو جو ریاست مدینہ کی اتباع ایک انوکھے طریقے سے کر رہی ہے کہیں نظر نہ لگ جائے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایسی بات نہیں۔ تم سچ بولنے سے ڈر رہے ہو۔ تمہیں گداگر مافیا کنٹرول کر رہا ہے اور یہ کہ میں جناب وزیر اعظم کی توجہ اس منحوس اور مکروہ مافیا کی طرف مبذول کراؤں گا۔ یہ سن کر وہ سب زار و قطار رونے لگے اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگے کہ خدا اور رسول کا واسطہ ہے‘ جناب وزیر اعظم کی توجہ گداگر مافیا کی طرف نہ دلانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مافیا ہمیں جان سے مار دے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہ کہا کہ بے وقوفو! وہ تو اس مافیا کی گردن مروڑ کر رکھ دیں گے اور تم سب رہا ہو جاؤ گے۔ اس پر انہوں نے دوبارہ گریہ کیا۔ ان میں سے ایک معمر بھکاری نے مخاطب کیا اور کہنے لگا: اے عزیز! لگتا ہے تم اس ملک میں آج ہی وارد ہوئے ہو۔ کیا تم کسی دوسرے ملک میں رہتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں یہیں رہتا ہوں! اس پر وہ بزرگ ہنسے اور کہنے لگے: کیا تم بھول گئے کہ جناب وزیر اعظم نے آٹا مافیا، شوگر مافیا، پٹرول مافیا اور ادویات مافیا پر بھی توجہ دی تھی۔
اس کامیاب ریاست کے نقوشِ قدم پر چلنے کے اعلان کے بعد پہلی بار مری جانے کا اتفاق ہوا۔ جھیکا گلی چوک سے جی پی او مری کی طرف گاڑی موڑی تو گاڑی کے ساتھ ساتھ ایک چار سالہ بچہ دوڑنے لگا۔ اس نے ہاتھ گاڑی کے دروازے پر اس طرح رکھا ہوا تھا کہ آدھا ہاتھ گاڑی کے اندر تھا اور آدھا باہر۔ وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا رہا۔ گاڑی کی رفتار تیز ہوئی تو وہ پیچھے رہ گیا۔ گاڑی جی پی او چوک سے ابھی کافی دور تھی کہ ٹریفک زیادہ ہونے کے سبب رفتار آہستہ کرنا پڑی۔ اب ایک اور بچہ گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھ کر دوڑنے لگا۔ اس کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کر کے روک دی۔ باہر نکلا اور بچے کو اپنے پاس بلا لیا۔ پوچھا: کیوں مانگ رہے ہو۔ کہنے لگا: ابو نہیں ہیں‘ مانگوں گا نہیں تو کھاؤں گا کہاں سے؟ حیرت ہوئی کہ اتنا، چھوٹا، معصوم بچہ کس قدر اعتماد سے جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے کہا: یہ نا ممکن ہے‘ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بچے نے جواب دیا کہ نہیں! وہ سچ کہہ رہا ہے۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ اب جب پاکستان کو ریاست مدینہ کے طریقے پر چلایا جا رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یتیم ہونے کے باوجود اس کی دیکھ بھال نہ کی جا رہی ہو۔ اب کے بچے کی باری تھی مجھے جھوٹا کہنے کی۔ کہنے لگا: بابا، اتنے بوڑھے ہو کر بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ اپنی سفید ریش ہی کا کچھ خیال کرو۔ کچھ دے نہیں سکتے تو اپنی عاقبت مزید برباد نہ کرو۔ ریاست مدینہ کا نام لینے کے بعد حکمران کس طرح میری کسمپرسی سے غافل، یا، بے نیاز، رہ سکتے ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے رات کے بعد دن نہ نکلے۔ ایسی بات کسی نے نہیں کی۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اس مقبول ریاست کی پیروی کا دعویٰ ایک بار نہیں، بیسیوں بار کیا گیا ہے۔ پھر بچے نے ایک عجیب سوال پوچھا: کیا یہ سچ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نتھیا گلی آتے رہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں سچ ہے۔ اب اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ کہنے لگا: نتھیا گلی مری سے زیادہ دور نہیں‘ میں خود وزیر اعظم سے مل کر پوچھوں گا کہ کیا انہوں نے یہ بات کی ہے؟ میں نے اس کی طرف کچھ روپے بڑھائے مگر وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ اس نے کہا کہ پہلے وہ نتھیا گلی جائے گا۔ اتنا کہہ کر وہ ایک اور گاڑی کے ساتھ دوڑنے لگا۔ سامنے ایک ڈھابا تھا۔ میں اس میں چلا گیا۔ ایک دس سالہ لڑکا برتن مانجھ رہا تھا۔ ایک طرف بنچ پر بیٹھا ایک عجیب سا شخص چائے پی رہا تھا۔ غور سے دیکھا تو وہ مجید امجد تھے۔ گھُٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملا اور ملتمس ہوا کہ کوئی نظم سنائیں۔ انہوں نے نظم سنائی مگر یوں جیسے اپنے آپ کو سنا رہے ہوں۔
مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا // جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما // پہاڑوں کے بیٹے // چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے // سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل// شعاعوں ہواؤں کے زخمی // چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں // وطن ڈھیر اک اَن منجھے برتنوں کا // جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈتی ہیں // وطن وہ مسافر اندھیرا // جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر // کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے // ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں // مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما // ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں // تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved