تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-07-2021

اسلامی ریاست اور ریاستِ چین

یہ ریاستِ مدینہ کے علمبردار ہوں یا اسلامی انقلاب کے نقیب، سب چین کی کمیونسٹ جماعت کی تعریف میں رطب اللسان اور یک زبان ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی طرف سے یہ تعریف تو بڑی حد تک قابلِ فہم ہے کہ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ علمائے دیوبند میں ایک فکری لہر ایسی بھی تھی جو علما کے سیاسی فکر اور اشتراکیت کے مابین ہم آہنگی کی تلاش میں رہی۔ اسی پس منظر میں، 1970ء کی انتخابی معرکہ آرائی کے دنوں میں یہ بھی کہا گیا کہ ''مودودی کے اسلام سے بھٹو کا سوشلزم بہتر ہے‘‘ لیکن 'ریاست مدینہ‘ کے مبینہ تصور اور ریاستِ چین کی فکری اساسات میں کیا ہم آہنگی ہے یا اسلامی ریاست اور اشتراکی ریاست کے مابین اتفاق کے کتنے امکانات ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ان تعریفی بیانوں سے پیدا ہو رہے ہیں اور سیاسیات کا کوئی سنجیدہ طالب علم ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
پاکستان، اسلام اور اشتراکیت کی معرکہ آرائی کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ اُسی دور میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک جملہ بہت مشہور تھاکہ یہ ملک ماؤ اور مارکس کے پیروکاروں کا نہیں، محمد عربیﷺ کی امت کا ملک ہے۔ یہ اس کا اظہار تھاکہ یہ مختلف فکری دھارے ہیں اور ان کو ماننے والے ایک امت نہیں ہو سکتے۔ نظریاتی سیاست کا دور تمام ہوا تو یہ باتیں بھی تاریخ کے دھندلکوں میں کھو گئیں۔
دورِ جدید میں اشتراکی اور سوشلسٹ ریاستوں نے لبرل اکانومی کے اس تصور کو اپنا لیا جو سرمایہ دارانہ نظام کی عطا ہے اوراس کا فکری امتیاز بھی۔ لبرل اکانومی کا ایک ناگزیر نتیجہ لبرل ڈیموکریسی بھی ہے۔ چین ابھی تک اس کی مزاحمت کررہا ہے۔ وہ کب تک ایسا کر سکے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ ریاست مدینہ کے علمبردار، عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ چین کا سیاسی نظام، مغرب کے جمہوری نظام سے بہتر ہے۔ ان کی باتوں کا حاصل یہ ہے کہ چین اگر عوام کی ایک بڑی تعداد کو خطِ غربت سے بلند سطح پر لے گیا تو یہ اس سیاسی نظام کی وجہ سے ممکن ہوا جو یک جماعتی آمریت سے عبارت ہے۔ پاکستان کیلئے وہ اسی کو مثالی قرار دیتے ہیں۔
ریاست و نظامِ سیاست کے باب میں، خان صاحب کی فکری تشویش بہت واضح ہے۔ وہ مختلف اور متضاد سیاسی نظام ہائے فکر کو بیک جنبشِ زباں، مثالی قرار دیتے ہیں۔ کبھی یورپ، کبھی ملائیشیا، کبھی ترکی، کبھی چین اور اس کے ساتھ ریاست مدینہ کا ایک مبہم تصور بھی۔ یہ سیاسی نظاموں کی مختلف صورتیں ہیں۔ اب ان کے مدعا کو پانا کم از کم میرے بس میں تو نہیں؛ تاہم ایک نکتہ پوری طرح واضح ہے کہ وہ ایک جماعت یا ایک فرد کا مطلق حقِ اختیار چاہتے ہیں اور وہ بھی غیر معینہ مدت تک۔ چین کے سیاسی نظم سے انہوں نے یہی نکتہ کشید کیا ہے اوراسی لیے چین کے نظام کو پسند کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے موجودہ امیرِ محترم نے چینی نظام کی اخلاقی بنیادوں کی تحسین کی ہے۔ جماعت اسلامی کے فکری اثاثے سے ہم نے یہ اخذ کیا تھا کہ سیاسی نظام کی اخلاقی بنیادیں صرف اسلام دیتا ہے۔ مادی نظام ہائے زندگی کی دی ہوئی اخلاقی بنیادیں انسان کے مادی سودوزیاں سے وابستہ ہیں کیونکہ یہ نظام انسان کواخلاقی نہیں، صرف ایک مادی وجود سمجھتے ہیں۔
اب ان کا کہنا ہے کہ چین کی مادی کامیابی کے پس منظر میں ان اخلاقی اصولوں کا بھی ایک کردار ہے جو صدر شی جن پنگ نے اپنائے۔ چینی صدر، ہمیں معلوم ہے کہ کسی مذہب کو نہیں مانتے‘ اس لیے اخلاقیات کے ما بعدالطبیعیاتی تصور پر یقین نہیں رکھتے۔ گویا یہ مان لیا گیا کہ ایک مادی تصورِ حیات کی بھی اخلاقی بنیادیں ہو سکتی ہیں اور نتیجہ خیز بھی۔ میرے لیے یہ بات بہت اہم ہے۔ میرا خیال اب بھی یہی ہے کہ مستحکم اخلاقی بنیادی صرف مذہب دے سکتا ہے جو انسان کو اصلاً ایک اخلاقی وجود تسلیم کرتا ہے؛ تاہم اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
سید منور حسن مرحوم جب جماعت کے امیر تھے تو وہ چین کے دورے پر تشریف لے گئے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے تاثرات کے بیان کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں مجھے بھی بلایا گیا۔ منور صاحب کا ایک فکری ارتقا ہے۔ وہ اشتراکی کوچوں سے اسلامی ایوانوں میں آئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے انقلابی مزاج نے سرخ کے بجائے سبز چولا پہن لیا۔ اس ملاقات میں وہ مجھے چین کے سیاسی تجربے کے بارے میں بہت پُرجوش لگے۔ ان کی طمانیت کے لیے یہ بہت تھا کہ اب چین امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے گا۔ وہ مسلم دنیا اور چین کے مابین مشترکہ حکمتِ عملی کی بات بھی کرتے رہے۔
منور حسن صاحب سے ملنے کے بعد میں ایک بات پر سوچتا رہا اور اب پھر اس کا احیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں جب اسلام اور سوشلزم کے مابین فکری معرکہ برپا تھا تو ایک آواز 'اسلامی سوشلزم‘ کی بھی تھی۔ ہمارے اسلام پسندوں نے اس کو سختی سے رد کر دیا اور یہ بتایا کہ اسلام میں اس نوعیت کی فکری پیوند کاری ممکن نہیں۔ پاکستان کی فکری تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا ان مباحث سے بے نیاز نہیں ہو سکتا جو ''چراغِ راہ‘‘ اور ''نصرت‘‘ جیسے جریدوں کے صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ اس نوعیت کے کسی اشتراک کو اس وقت مسترد کر دیا گیا تھا۔
آج جب ایک بار پھر میں مذہب کے علمبرداروں کے ہاں چین کے سیاسی نظام کی تحسین دیکھتا ہوں تو میں اس کی توجیہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ فکری سطح پر میں آنے والی یہ تبدیلی، کیا شعوری ہے؟ کیا ان لوگوں کو اندازہ ہے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور یہ موجودہ خیالات اور اپنے فکری پس منظر کے مابین کیسے تطبیق پیدا کریں گے؟ پھر یہ کہ کسی مذہبی جماعت نے شنکیانگ کے مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ کیا انہوں نے قومی ریاست کے وجود کو ایک حقیقت مان کر سیاسی فکر کی تشکیلِ نو کی ہے؟
فکری ارتقا کو میں ایک خوش آئند عمل سمجھتا ہوں لیکن اسے شعوری ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ فکری اپاہج پن کا اظہار ہے۔ آپ ہر نئی فکر کو اپناتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ آپ کا نظری تشخص برقرار ہے۔ جیسے تصویر کے خلاف فتویٰ دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی اسے ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ کسی نے کبھی غور نہیں کیاکہ اس کے بعد یا تو دیا گیا فتویٰ غلط ہے یا طرزِ عمل۔
اس طرزِ عمل سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کا فکری اثاثہ (intellectual capital) کیا ہے؟ اعلیٰ ترین سطح پر موجود لوگ اس باب میں کس فکری مقام پہ کھڑے ہیں؟ وہ متضاد خیالات کو بیک وقت مان رہے ہیں اور انہیں اس کا ادراک بھی نہیں۔ اس کے بعد اگر وہ کوئی نظمِ حکومت تشکیل دیں گے تو وہ کیسا ہوگا؟ اس سوال کا جواب پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ ہے۔
ہمارے سیاسی نظام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کسی سیاسی جماعت کے پاس نظری اور فکری سطح پر سوچنے کا کوئی باضابطہ فورم موجود نہیں۔ جماعت اسلامی اور بعض قوم پرست جماعتوں میں ایسے لوگ موجود تھے جوایک نظامِ فکررکھتے تھے اور حکمتِ عملی میں ان کا انعکاس ہوتا تھا۔ اب یہ جماعتیں بھی تہی دامن ہو چکیں۔ یوں اکثر جماعتیں اقتدار کے طالبوں کا ہجوم ہیں یا فکری نظر بندی اور شخصیت پرستی میں مبتلا لوگوں کا ایک کلب۔ اس کے بعد وہی ممکن ہے جو ہو رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved