بات مچھلی کی سڑی ہوئی دم سے شروع کروں؟ میں بینک سے چیک کیش کرانے کے لیے قطار میں کھڑا تھا۔ ایک تو لمبی قطار، پھر ہال انسانوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا۔ ائیرکنڈیشنرز کی ساری کوشش کے باوجود تپش بہت تھی۔ خدا خدا کرکے باری آئی اور کیشئر نے کیش میرے حوالے کیا تو اس میں پانچ روپے کم تھے۔ میں نے ایک بار پھر گنا اور سوالیہ نظروں سے کیشئرکو دیکھا۔ وہ مجھے ہی ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔ میں نے ہی پوچھا ''پانچ روپے کم کیوں ہیں‘‘؟ بولا ''جی ہاں‘ اس وقت ریزگاری نہیں ہے‘‘۔ میرے دماغ کی گرمی میں اضافہ ہو گیا کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے بھی کئی بار میری ریزگاری مجھے واپس نہیں کی گئی تھی۔ ''سکہ موجود نہیں ہے یا آپ لوگوں نے عادت بنا لی ہے ہر ایک کی ریزگاری سمیٹ لینے کی؟ آج صبح سے کتنے لوگوں کے ساتھ ایسا کر چکے ہیں؟‘‘
دل تو چاہتا تھا کہ میں رکوں اور بینک منیجر کے پاس جاکر اس رویے کی شکایت کروں لیکن پہلے ہی مجھے دیر ہوچکی تھی اور مجھ سے پیچھے قطار میں موجود لوگ میرے پانچ روپے کے سکے پر تکرار کو بیزاری اور افسوس کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ میں نے کیش سمیٹ کر جیب میں رکھا اور کھڑکی چھوڑ دی۔ پانچ روپے کے نقد نقصان، اور ایک سوچ کے ساتھ۔ یہ ہر کسی کے ساتھ کرتے ہیں یہ بینک والے؟ کیا ہر بینک میں ایسا ہی ہے؟
دفتر میں واپس آیا۔ بطور ناشر اکثر کاغذ خریدنا پڑتا ہے۔ اس دن کاغذ کے بل کی ادائیگی تھی۔ میں نے بل چیک کیا۔ جو رقم طے شدہ تھی، اس سے 50 روپے زائد لگے ہوئے تھے۔ 100رم میں فی رم رقم 1850.50 بنتی تھی جبکہ بل میں 1851 روپے فی رم لگے ہوئے تھے‘ یعنی فی رم پچاس پیسے زائد لگا لیے گئے تھے۔ میں نے کاغذ والے کو فون کیا ''بھائی! آپ اکثر پچاس یا سو روپے زائد لگا کر بل بھیج دیتے ہیں‘ آخر کیوں؟ ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘۔ ''ارے جناب! آپ پچاس روپے کم دے دیجیے گا۔ اس میں ایسی کیا بات ہے‘‘ دکاندار نے بڑی خوشدلی سے کہا۔ ''کم؟‘‘ میں نے کہا ''میں کیوں کم دوں بھلا؟ جو نرخ طے ہے اس کا پابند ہوں‘ میں تو ان پیسوں کی بات کر رہا ہوں جو زائد لگے ہوئے ہیں‘ اور ہمیشہ ہر بل میں لگ کر آتے ہیں‘‘۔ ''جناب کیوں ناراض ہوتے ہیں‘ میں پیسوں کے حساب کتاب سے بچنے کے لیے راؤنڈ فگر بنا دیتا ہوں ریزگاری اور سکے اب کون ادا کرتا ہے؟ کس کے پاس ہوتے ہیں بھلا؟‘‘۔ ''جی جی! آپ درست کہتے ہیں لیکن راؤنڈ فگر ہمیشہ ہر بل میں آپ کے فائدے کا کیوں ہوتا ہے‘ کوئی راؤنڈ فگر میرے فائدے کا کیوں نہیں نکلتا؟ یہ رقم اگر فی رم 1850 روپے ہوتی تب بھی تو راؤنڈ فگر ہو سکتا تھا؛ البتہ اس صورت میں آپ کو پچاس روپے کم ملتے۔ ''ٹھیک ہے جناب آپ پچاس روپے بل میں کم کرکے بھیج دیں‘‘ دکاندار کے لہجے سے اخلاق رخصت ہو چکا تھا۔ بات ختم ہوئی اور فون بند ہو گیا۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ دکاندار ہر گاہک سے راؤنڈ فگر کا ٹیکس اسی طرح دس، بیس، پچاس روپے زیادہ وصول کرتا ہے۔ کام چلتا ہوا ہے۔ دن بھر میں ہزار پندرہ سو کی اضافی آمدنی۔
آپ کسی ریسٹورنٹ میں اپنے دوستوں یا گھر والوں کے ساتھ جاتے ہیں۔ ڈشز کے نرخ مینو پر چھپے ہوتے ہیں۔ اس پر سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس وغیرہ مزید شامل کرکے جب آپ کو دیا جاتا ہے تو ریسٹورنٹ والوں کو یقین ہوتا ہے کہ آپ چیک نہیں کریں گے‘ لیکن اگر آپ چیک کرلیں تو اکثر و بیشتر زائد نرخ اور ان ڈشز کی بل میں موجودگی بھی پکڑی جاتی ہے جو آپ نے منگوائیں ہی نہیں۔ دوستوں اور گھر والوں کی موجودگی میں کون بحث کرے؟ کون کٹوتیاں کروائے؟ اور یہ موقع شناس لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔ ٹپ کی بات الگ‘ لیکن اگر آپ نے ریسٹورنٹ کو کیش ادائیگی کی اور اس میں پانچ یا دس روپے کی ریزگاری آپ کو واپس ملنی چاہیے تو ذہن فارغ کرلیں۔ یہ نہیں ملے گی۔ کوئی بہت حاتم طائی ہوا تو ایک چھوٹی سی ٹافی آپ کے ہاتھ پر رکھ دے گا۔
مچھلی کے سر کی بات کروں؟ بجلی کے بل کی آخری تاریخ تھی۔ میں نے بل دیکھا۔ اس پر رقم لکھی تھی 2060.10 روپے۔ ادائیگی کے لیے موبائل ایپلی کیشن کھولی۔ اس پر جو رقم لکھی تھی وہ 2065 روپے تھی۔ یہ 4.90 روپے زیادہ کیوں ہیں؟ یہ مجھ سے تقریباً پانچ روپے کس لیے زیادہ وصول کر رہے ہیں؟ اور اگر میرے ساتھ یہ ہے تو اوروں سے بھی زیادہ وصول کر رہے ہوں گے۔ اگر پچاس لاکھ صارفین اپنے بل جمع کرا رہے ہوں اور ہر ایک سے 5 روپے زیادہ وصول کرلیے جائیں تو ڈھائی کروڑ روپے زائد ان کی جیبوں میں جائیں گے۔ اب کون دفتروں کے چکر کاٹے اور دھکے کھا کر وہی بل جمع کرائے۔ چار و ناچار خون کے گھونٹ پی کر 2065 روپے جمع کرا دئیے۔
ایک سال پہلے کی بات ہے واسا کے میٹر ریڈر نے خوشخبری سنائی کہ آپ کا دفتر والا پانی کا میٹر خراب ہوچکا ہے‘ اس کی مرمت ہوگی اور جب تک یہ میٹر ٹھیک نہیں ہوتا یا نیا نہیں لگتا، بل ایوریج کے حساب سے بھیجا جائے گا۔ دفتر کا استعمال مختصر سا ہے سو بل لگ بھگ 600 روپے آیا کرتا تھا۔ میٹر اتار کر واسا کے دفتر بھیجا۔ ساتھ ایک ملتجیانہ درخواست بھیجی کہ جلد از جلد میٹر درست کرکے لگا دیا جائے۔ اس کے جواب میں میٹر وصول ہونے کی رسید تو مل گئی لیکن باقی جواب ندارد۔ اگلے ماہ سے بل دگنے سے بھی زیادہ یعنی 1300روپے ماہانہ وصول ہونے لگا۔ ایک دو بار میٹر کی یاددہانی کرائی گئی تو تحریری جواب ملا کہ آپ کا میٹر مرمت کے قابل نہیں اور واسا کے پاس فی الحال نئے میٹر بھی نہیں ہیں لہٰذا... یعنی سادہ لفظوں میں یہ کہ اب آپ بے بسی کا جشن منائیں۔ اب ایک سال سے میں اس پانی کی قیمت جو چھ سو روپے بنتی ہے دگنی سے زیادہ ادا کر رہا ہوں اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ بس آنکھیں بند کرکے بل وقت پر ادا کیے جائیں اورکوئی سوال نہ پوچھیں۔ میں نے دل میں سوچا‘ اگر فائدے کے نقطۂ نظر سے سوچا جائے توواسا کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ میرا میٹر نیا لگائے۔ اسے تو آسانی سے دگنی رقم ہر ماہ مل رہی ہے۔ اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ اس شخص کو جس کی محنت کی کمائی سے یہ رقم دی جا رہی ہے اور جو اسے ناانصافی اور بے اصولی سمجھتا ہے۔
بجلی، پانی، گیس کے بل ہوں یا کسی اور سرکاری محکمے کے‘ دھوکے اور زبردستی سے پیسے ہتھیانا ان کا معمول ہے۔ پوسٹ آفس سے کوئی پیکٹ بک کرا لیجیے۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ مہنگے ڈاک ٹکٹ کی رقم جو لگی سو لگی، مزید کمائی کے کئی ہتھکنڈے بھی شامل کر دئیے گئے ہیں حتیٰ کہ اس پیکٹ پر جس پر طے شدہ ڈاک ٹکٹ لگا دیا گیا، جب پتے پر پہنچتا ہے تو اس میں سو پچاس روپے مزید کسی بھی حساب کے بغیر شامل کردئیے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر پیکٹ حوالے ہی نہیں کیا جاتا۔ کس قاعدے، قانون کے تحت؟ کوئی جواب دینے والا نہیں۔
روزانہ لاکھوں روپے کی رقوم ناجائز طور پر پورے ملک کے صارفین کی جیبوں سے اس طریقے سے نکال لی جاتی ہے اور یہ ہتھکنڈے اختیار کرنے والے اسے جائز بھی سمجھتے ہیں۔ ہے کوئی ادارہ ؟ ہے کوئی اعلیٰ افسر جو اس کا نوٹس لے؟ کس کو بتائیں کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس میں کسی شخص کا ایک پیسہ بھی اس کی خوشدلی اور رضامندی کے بغیر لینا جائز نہیں۔ سرکاری ادارے اس ناجائز کمائی میں پیش پیش ہیں تووہ کسی کو کیا پکڑیں گے؟ مچھلی اب دم تک سڑ چکی ہے لیکن بات اس کے سر سے ہی شروع ہوئی تھی۔